ہم سب خلیل ہیں۔۔محمد شاہ زیب صدیقی

حقائق کو جھُٹلا سکتے ہیں کہ مگر تاریخ کو جھٹلانا ممکن نہیں ۔ اور یہ تاریخ پر نقش ہے کہ کیسے اسلام نے ظہور کے بعد عرب کے معاشرے میں خواتین کو عزت دی اور حقوق بھی دئیے۔اس سادہ سی بات کوایسے سمجھا جاسکتا ہے کہ عرب معاشرے میں محبوبہ سے علی اعلان پیار کا اظہار کرنا تو بہادری سمجھا جاتا تھا (اسی خاطر عرب شاعری محبوبہ سے پیار کے اظہار سے بھری ہوئی ہے)مگر بیوی سے اظہار محبت عیب تھا۔ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ سے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ آپ کو دنیا میں سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟، آپ ﷺ نے فرمایا:”عائشہ رضی اللہ عنہا سے “، یہ سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین چونک گئے کہ عرب معاشرے کو جانتے ہوئے بھی آپ ﷺنے اتنا واضح جواب کیسے دے دیا۔ جس کے باعث حضرت عمرو نے دوبارہ استفسار کیا:”یارسول اللہ ﷺ ہمارا مطلب تھا کہ مَردوں میں؟”، آپ ﷺ نے فرمایا: “عائشہ کے والد (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ)سے”۔ (بخاری شریف)

ایک اور جگہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں میں کامل ایمان والا وہ ہے جس کا اخلاقی برتاؤ(سب کیساتھ، اور خاص طور پر)بیوی کے ساتھ جس کا رویہ لطف و محبت کا ہو۔ (المستدرک،کتاب الایمان: حدیث 173)

مجھے یقین ہے کہ اگر ہم یہ احادیث فریم کروا کر اپنے گھرکی دیواروں پر آویزاں کردیں تو ہمارے آدھے مسائل یہیں حل ہوجائیں گے۔ماضی میں یقیناً ہمارے معاشرے میں عورت اور مرد کے درمیان ایک خلیج قائم تھی ، جس کے بہت سے محرکات تھے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ تعلیم اور میڈیا نے ہمارے معاشرے نے اِس خلیج کو کافی حد تک پُر کیا۔ آج کی عورت کو معاشرے میں اُن مسائل کا سامنا نہیں رہا جو ماضی میں خواتین کو ہوتا تھا۔

خواتین کے عالمی دن پر پچھلے سال بھی “عورت مارچ” نے نام سے ریلی کا انعقاد کیا گیا جہاں اخلاق باختہ نعروں کی گونج نے پورے ملک میں بےچینی کی کیفیت پھیلا دی۔اِس بار بھی کچھ دِنوں سے “عورت مارچ” پر تکرار مختلف ٹی وی چینلز پر جاری تھی ،جس میں ہماری قوم دوبارہ تماشائی بن کر دو گروہوں میں تقسیم ہوچکی تھی، لیکن اب اس جنگ میں شدت اُس دوران آئی جب مشہور ڈرامہ نویس خلیل الرحمٰن قمر صاحب اور تجزیہ کار ماروی سرمد صاحبہ کے درمیان سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا۔یہ پہلی بار نہیں تھا کہ ماروی سرمد صاحبہ یا خلیل الرحمٰن قمر صاحب کا کسی میڈیا پرسن کے ساتھ تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ہو، اس سے پہلے یہ دونوں حضرات کئی میڈیا پرسنز اور سیاستدانوں پر اخلاق باختہ جُملے کس چُکے ہیں۔اِس ساری صورتحال میں عام آدمی پریشان ہے اور سوچ رہا ہے کہ ہم من حیث القوم کیا پہلے ہی کم مسائل کا شکار تھے کہ جن میں عورت مارچ نامی بیماری کا بھی اضافہ ہوچکا ہے۔

ہمیں مل کر اپنی ترجیحات طے کرنا ہونگیں کہ ہم اپنے معاشرے کو کس جانب لے کر جارہےہیں؟ ہم معاشرہ ہیں یا کوئی ریوڑ جسے جب چاہے کوئی ماروی سرمد یا خلیل الرحمٰن قمر ہانک کر ایک جانب لے جائے ؟ ہم کتنے دلچسپ لوگ ہیں کہ دو افراد کی لڑائی کو صنفی لڑائی بنا کر اپنے معاشرے کی چُولیں ہِلانا چاہ رہے ہیں۔ پورادِن اپنی ماں، بیوی، بیٹی اور بہن کے لئے کمانے اور ہر ایک سے گالیاں کھانے والے مَردکو ظلم کا استعارہ ثابت کرکے ہم معاشرے کو کس ڈگر پر لے کر جارہے ہیں۔میں کھُلے دل سے تسلیم کرتا ہوں کہ کئی جگہوں پر مَرد عورتوں پر مظالم کی وجہ بھی ہونگے،اور یقیناً معاشرے میں عورتوں کے لئے بہت سے نئے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں، لیکن ایک ہی لاٹھی سے پُورے ریوڑ کو ہانک دینا کہاں کا انصاف ہے؟ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ چوری کے ڈر سے اپنی گاڑی کو تالا لگانے والا خود چور نہیں ہوتا۔ ہمارا معاشرہ گِنے چُنے مَردوں کی درندگی کی وجہ سے اخلاق باختہ اور مذہب مخالف نعروں کا  متحمل نہیں ہوسکتا۔

یہ کہاں کی انسانیت ہےکہ ایک گھریلو یا ورکنگ خاتون کا نام جوڑ کر (جس کا اِس مارچ سے دُور دُور تک کوئی لینا دینا نہیں ہے)اپنے فرسودہ نظریات کا پرچار کیا جائے۔ معاشروں میں پِسی عورت کو ایسے مارچ کی نہیں بلکہ قانونی اور سماجی امداد کی ضرورت ہے۔ یہاں “عورت مارچ” کے منتظمین سے قوم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ اگر وہ مغربی معاشرے کی پیروی کرتے ہوئے عورتوں کے حقوق کےلئے مارچ کرنا چاہتے ہیں تو یہ اُن کا جمہوری حق ہے، جس سے کسی کو اختلاف ممکن نہیں۔ مگر کیا اُنہوں نے یہ مارچ نکالنے سے قبل ہوم ورک مکمل کیا؟ کیا انہوں نے پسماندہ علاقوں میں پِسنے والی عورتوں کےلئے قانونی جنگ لڑی؟ انہوں نے وڈیروں کے ظلم سہنے والی کتنی عورتوں کی امداد کی؟ زینب جتنی کتنی بچیوں کے کیس میں قانونی مدد فراہم کی؟کتنی غریب خواتین کو انہوں نے مُفت کورسز کروا کرہُنرمند بنایا اور اپنے پاؤں پر کھڑا کیا؟ مغرب کی نقالی کرنی ہے تو پھر مکمل کی جائے، یہ آدھا تیتر آدھا بٹیر والی پالیسی معاشرے کو انتشار میں دھکیلنے کے سوا کچھ نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر آپ نے پچھلے ایک سال میں یہ سب ہوم ورک کیا ہوتا تو یقیناً آپ کے اِس مارچ کو عوامی حمایت حاصل ہوتی۔ ہم کتنے عجیب لوگ ہیں کہ جدید معاشروں کی نقالی بھی ٹھیک طرح نہیں کرپاتے، لبرل بن کر مُلااِزم کو تو للکارتے ہیں مگر عملی اقدامات سے کتراتے دکھائی دیتے ہیں۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا کہ ہم ایسی قوم ہیں جو 21ویں صدی کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے مگر ہمیں گھسیٹ کر اکیسویں صدی میں داخل کروادیا گیا ہے، اب نہ ہم اکیسویں صدی کے رہے ہیں اور نہ بیسویں صدی کے۔ہم ایک دِن عورت کے نام کردینے اور اچھے خاصے سنجیدہ موضوعا ت کو متنازعہ بنا دینے سے سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں عورت کے مسائل حل ہوگئے، ہماری سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان جیسے ملک میں مذہب پر بات کرنا انتہائی نازک مسئلہ ہوتا ہے اس کے باوجود عورت سے “میرا جسم میری مرضی” جیسا متنازعہ نعرہ جُڑوانا چاہتے ہیں۔پچھلے چند دنوں سے جاری اس سارے معاملے سے ہمارے لبرل طبقے کو سبق سیکھنے کی اشد ضرورت ہے، وگرنہ ہمارے معاشرے میں ہر ایک کو “ہم سب خلیل ہیں” کہتے دیر نہیں لگنی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply