یوم آزادی پاکستان۔۔بشریٰ نواز

پاکستان تاریخی اعتبار سے 14 اگست 1947 کو آزاد ہوا جبکہ ہندوستان 15 اگست کو اپنا یوم آزادی مناتا ہے اس سال پاکستان اپنی آزادی کی گولڈن جوبلی منا رہا ہے جبکہ گولڈ اتنا مہنگا ہے کہ کوئی خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، مڈل کلاس بھی تذبذب کا شکار ہے گو کہ ہم نے ملک پاکستان ، انگلستان سے آزاد کرایا یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی سے نجات پائی ۔
اگر ہم پاکستان کے پس منظر میں جائیں تو عجیب و غریب تصویر بنتی ہے۔ بنا تو ملک کلمہ کی بنیاد پر تھا مگر ہوا کیا ،نہ صنم ہی ملا نہ خدا۔
اور آج تک ملک کٹی پتنگ کی طرح ہچکولے کھا رہا ہے قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی وفات سے ہی سازشی عناصر سر گرم ہوگئے تھے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت خان کو شہید کر دیا گیا اور پھر مارشل لاء کے سائے منڈلانے لگے۔ پہلے سول مارشل لاء اور بعد میں ملٹری  ڈکٹیٹر شپ نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔

1965 کی جنگ کے بعد حالات مشرقی پاکستان میں کشیدہ ہونے شروع ہوگئے ،ہندوستان کی مداخلت اور اپنوں کی غداریوں کی بدولت 1971 میں مشرقی پاکستان الگ ہوا، اس میں زیادہ تر قصور ہمارے حکمرانوں کا تھا جو کہتے تھے ہمیں زمین درکار ہے لوگ نہیں، اور انتخابات میں لوگوں نے بھاری اکثریت سے شیخ مجیب الرحمان کو ووٹ دیے، مگر بھٹو صاحب جو لوزر تھے انہیں حکمران بنا دیا گیا اور یوں پاکستان دو لخت ہوگیا۔ اگر اس وقت عقل سے کام لیا ہوتا  اور شیخ مجیب جو اکثریت سے جیتا تھا اسے حکومت دے دی جاتی تو پاکستان کا ایک بازو الگ نہ ہوتا آج بھی اسی قسم کی مشق جاری ہے۔

ہم اپنا گولڈن جوبلی کن حالات میں منا رہے ہیں سندھ اور بلوچستان بارشوں سے تباہ ہوا پڑا ہے معیشت کا بیڑہ بیٹھا ہوا ہے 75 سالوں میں اگر ترقی کی ہے تو ڈالر نے، کرپشن نے ،ناانصافی نے اور نقصان فقط عوام اور ملک پاکستان کا ،ملک ایک عذاب سے نکلتا ہے تو دوسرے میں پھنس جاتا ہے۔

ایوب کے بعد یحییٰ خان اور بعد میں نئے عزم کے ساتھ جمہوریت کی شروعات ہوئیں بھٹو صاحب کے پہلے پانچ سال تو آرام سے گزرے مگر پھر دوسرے الیکشن میں اپوزیشن پارٹیوں نے دھاندلی کا رولا ڈال دیا، سیاست دانوں نے بیرونی آقاؤں کے ایما پر ملک میں خون تماشا  کیا ، 76 کا الیکشن جماعتوں نے مل کر پیپلز پارٹی کے خلاف لڑا بالکل اسی طرح آج چودہ جماعتیں مل کر عمران خان کو زیر کرنے کی کوشش میں ہیں۔

بیرونی آقاؤں کو بھٹو صاحب سے اختلاف یہ تھا کہ وہ بھی آزاد خارجہ پالیسی چاہتے تھے اور پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت بنانے کے خواہش مند جو مغربی ممالک اور خصوصی طور پر ایک بڑ ی طاقت کو قبول نہیں تھا انہوں نے بھٹو صاحب کو ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری جنرل ضیاءالحق کو سونپی جو احسن انداز میں پوری کر دی گئی، بھٹو صاحب کو اپریل 1977 میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا پھر جنرل ضیاءالحق کا مارشل تقریبأ گیارہ سال تک چلا اور پھر ضیاء الحق کو بھی راستے سے ہٹا دیا گیا
پھر دو سال  تک ٹوٹی پھوٹی جمہوریت چلی اور بے نظیر اور نواز شریف کے  اقتدار حاصل کرنے کی کشمکش کی بدولت 1999 میں پھر سے جنرل مشرف کا ما رشل لاء لگا جو تقریباً دو سال تک ہی رہا اور پھر پیپلز پارٹی اور اسکے بعد نون لیگ یکے بعد دیگرے حکمران بنے اسی دوران ایک تیسری پارٹی تحریک انصاف جس کے چیئر میں عمران خان ہیں انہوں نے الیکشن لڑا اور کامیابی کے بعد پارٹی نے سادہ اکثریت سے 2018 میں حکومت بنائی جس کو محض ساڑھے تین سال  چلنے دیا گیا اور آج ایک 14 جماعتی اتحاد کی حکومت ہے اکثریتی پارٹی سڑکوں پر نئے انتخاب کا مطالبہ کر رہی ہے اور اقلیتی جماعت حکومت چلا رہی ہے، اپوزیشن کے بغیر، عمران خان کا بھی لگ بھگ وہی قصور ہے جو بھٹو صاحب کا تھا وہ بھی ایک آزاد خارجہ پالیسی چاہتے ہیں جو ہماری مقتدر قوتوں کو شاید منظور نہیں، ملک اس وقت نہایت دگرگوں حالات میں ہے۔ ہم 75 واں یوم آزادی نہایت غیر متوازن اور برے حالات میں منا رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

خان لیاقت علی خان کی شہادت سے شروع ہونے والا غلامی کا سفر آج بھی جاری ہے ہم نے کیا آزادی حاصل کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط سے نکلے پھر غیروں کے زیر نگیں ہوگئے ۔اللہ پاک کرے ہم حقیقی معنوں میں   آزاد ہو جائیں۔ پاکستان زندہ باد

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply