پیپلز پارٹی کو اپوزیشن میں شمار ہی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔۔گُل بخشالوی

اپوزیشن الیون کے چہرے اترگئے ان کی ہر بھڑک بے کار گئی ۔ لیکن اس کی بھی ایک خاص وجہ ہے جب ذاتی مفاد کے لئے حوصلہ افزائی کا اشارہ ملتا ہے تو تقسیم ہو جاتے ہیں متحدہ اپوزیشن کے سالار مولانا فضل الرحمان نے جب تحریک انصاف کی حکو مت گرانے کے لئے حکمت عملی تیار کر لی تو پیپلز پارٹی نے ساتھ چھوڑ دیا ، اور پھر اپوزیشن الیون کے دو گروپوں کے درمیان جو اخلاق سوز گفتاری جنگ ہوئی وہ بھی ہم پاکستانیوں نے دیکھی ، لیکن کپتان جب انتخابی اصلاحات کی قانو ن سازی کے لئے میدان میں اترے تو اپوزیشن پھر ایک ہوگئی لیکن ان کی آخری یکجہتی بھی بے کار گئی لیکن میں نہ مانوں کی پالیسی پر قائم اور ایک ہیں ۔کہتے ہیں کہ ہم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہونے والی قانون سازی کو قطعی طور پر مسترد کر تے ہیں ، مولانا صاحب کہتے ہیں مذکورہ قانون سازی کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ یہ ہیں مولانا کے الفاظ ۔ کپتان نے ان کے ہوش و حواص کا جنازہ نکال دیا ہے!
لگتا ہے ایک بار پھر نئے سرے سے حکومت کے اقدامات کے حوالے سے پارلیمانی ایوانوں میں حکومت سے مزاحم ہونے کی منصوبہ بندی کیلئے مشاورت ہو رہی ہے اور اس ضمن میں قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے پر غوروخوض اور حکمت عملی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔جانے یہ لوگ کس غلط فہمی کا شکار ہیں ۔کہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں اگر قومی اسمبلی کے سپیکر کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جاتی ہے تو اپوزیشن کو واضح برتری سے کامیابی حاصل ہوگی۔ جانے یہ لوگ کیوں بھول جاتے ہیں کہ کسی بھی قومی اور ایوان کے مسئلے میں حکومت کے خلاف ایوان میں انہیں ہر بار شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے
مسلم لیگ ن کے ترجمان صحافی،سلیم صافی کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں جو ہوا وہ پارلیمانی تاریخ کا ایک شرمناک باب ہے، لیکن اس میں حکومت کے ساتھ نام نہاد اپوزیشن بھی برابر کی شریک ہے، اپوزیشن جب الیکشن، اسمبلی اور اسپیکر کو جعلی کہتی ہے تو اس اسمبلی میں کیوں بیٹھی ہے، اپوزیشن عمران خان کو ایک طرف سلیکٹڈ کہتی ہے دوسری طرف کہتی ہے وزیراعظم ایوان میں کیوں نہیں آ تے، پیپلز پارٹی کو اپوزیشن میں شمار ہی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ن لیگ آ دھی اپوزیشن میں ہے اور آ دھی اسٹیبلش منٹ کو منانے میں لگی رہتی ہے، اگر اپوزیشن الیون کے ترجمان اس حقیقت کو دل سے تسلیم کر رہے ہیں تو مولانا فضل الرحمان صاحب بھی تسلیم کر لیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply