خواتین کے حقوق اور ناکام تحریکیں/ثاقب لقمان قریشی

2018ء سے شروع ہونے والی عورت مارچ اور خواتین کے حقوق پر بلاگز لکھنے والی ہماری بہنیں معاشرے میں کسی قسم کی تبدیلی لانے میں ناکام رہی ہیں۔ آٹھ مارچ کو ملک کے مختلف شہروں میں مختصر سی ریلیاں اور پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ یوٹیوبرز کو انٹرویو دیئے جاتے ہیں۔ کچھ بہنیں بلاگز لکھ لیتیں ہیں اور بس۔

میں بھی ہر سال عورچ مارچ کے خلاف باقاعدگی سے ایک مضمون لکھتا تھا۔ جس کے بعد مجھے  میسنجر پر بہت کچھ سننے کو ملتا تھا۔ خواتین کے حقوق پر دو قسم کے لوگ قلم آزمائی کرتے ہیں پہلی وہ خواتین ہیں جو مردوں اور مردانہ نظام کے سخت خلاف ہیں دوسرا گروپ ان لوگوں کا ہے جو عورت مارچ کے نعروں اور لبرل ازم کے سخت خلاف ہیں ۔ یہ گروپ عورت مارچ کو مغرب کی سازش گردانتا ہے۔ عورت مارچ کے مقابلے میں مذہبی حلقوں نے حیاء مارچ شروع کر رکھا  ہے۔ جس کا مقصد لبرل ازم کا راستہ روکنا ہے۔

لکھاریوں کے حلقے میں   مشہور خاتون ڈاکٹر طاہرہ کاظمی ہیں۔ جو فیمنسٹ کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ میں نے ڈاکٹر صاحبہ کو پڑھنے کی کوشش کی۔ لیکن ہر بار ایسا محسوس ہوا جیسے میں کسی ڈکٹیٹر کی تقریر سُن رہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحبہ کے مضامین کے عنوان میں اتنی سختی ہوتی ہےکہ مزید پڑھنے کو دل نہیں کرتا۔ مجھے ڈاکٹر صاحبہ کے کام سے معاشرے میں بدلاؤ نظر نہیں آرہا۔

خواتین کے حقوق سے متعلق میری رائے بہت واضح ہے۔ جس کا اظہار میں کرتا رہتا ہوں۔ مرادنہ نظام، گھریلو تشدد، جہیز، سمیت خواتین کا کوئی بھی مسئلہ آپ کے ذہن میں آتا ہو۔ میری نظر میں اسکا حل “ہنر” ہے۔ چند روز قبل میں ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا جس میں انڈین اپنا موازنہ بنگلہ دیش کی کپڑے کی صنعت سے کر رہے تھے۔ اس رپورٹ میں تین چیزیں میرے لیے اہمیت کی حامل تھیں۔۔ پہلی یہ کہ بنگلہ دیش نے کم ترقی یافتہ ملک ہونے کی وجہ سے ملنے والی مراعات کو کس طرح ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، دوسرا سستی لیبر اور تیسرا اہم ترین پوائنٹ بنگلہ دیش کی کاٹن انڈسٹری میں خواتین کا کردار تھا۔ انڈین کہتے ہیں آج بھی انکی عورت کو بنگلہ دیش کی خواتین کی طرح کام کرنے کی آزادی حاصل نہیں ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور انڈیا نے تاج برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ جبکہ بنگلہ دیش 1971ء میں ہم سے آزاد ہوا۔ پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کا کلچر ایک دوسرے سے ملتا جلتا ہے۔ بنگلہ دیش اور انڈیا میں عورت مارچ کیوں نہیں ہوتا ؟ عورت مارچ کے بغیر ان ممالک کی خواتین ہماری خواتین سے   زیادہ با اختیار اور خودمختار کیوں ہیں؟

آزادی کے وقت بھی ہمارا خطہ موجودہ انڈیا کی نسبت پسماندہ اور ناخواندہ تھا جس کی وجہ مسلم اکثریت تھی۔ آزادی کے بعد انڈیا میں جمہوریت کا تسلسل بغیر کسی رکاوٹ کے چلتا رہا۔ جبکہ ہمیں آزادی دلانے والے روشن خیال مارشل لاء اور اندورنی سازشوں کا شکار ہوگئے۔ رہی سہی کسر  کولڈ وار نے نکال دی۔ جس کے بعد عورت گھر کی زینت بن کر رہ گئی۔

پانچ سالوں سے ہمارے ملک میں عورت مارچ منایا  جارہا  ہے۔ دیسی لبرل اور خواتین کے حقوق پر لکھنے والے تنقید کے تیر چلا رہے ہیں۔ خود ہی ایک دوسرے کو فیمنسٹ اور خواتین کے حقوق کا علمبردار قرار دے رہے ہیں۔لیکن تبدیلی نہیں آرہی ہے۔

بیسویں صدی میں برطانیہ میں خواتین کے حقوق کی عظیم ترین تحریک چلی۔ خواتین کے حقوق کی اس تحریک کی خاص بات یہ ہے کہ اس تحریک میں خواتین نے احتجاج، بھوک ہڑتال اور جیلیں تک کاٹیں۔ سرکاری عمارتوں کو نذرِ آتش کیا۔ یہاں تک کہ جان کے نذرانے تک پیش کیے گئے ۔ لیکن منزل حاصل نہ کرسکیں۔ منزل کی طرف پہلا قدم تب رکھا جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی۔ مرد جنگوں میں مصروف ہوئے۔ مردوں کی کمی کو پورا کرنے کیلئے خواتین کو نوکریاں دی گئیں۔ جنگ عظیم سے واپسی کے بعد خواتین کو نوکریوں سے نکالنے کی کوششیں کی گئیں۔ جو زیادہ کامیاب نہیں رہیں۔ احتجاج کرنے والی خواتین خودمختار نہیں تھیں اس لیے انکے مطالبات کو کچلنے کی کوشش کی گئی۔ اب چونکہ خواتین مردوں کا ہاتھ بٹا رہی تھیں اس لیے ان کے ساتھ زبردستی ممکن نہ رہی۔

کروناء وبا کے دوران ورک فرام ہوم کا کانسیپٹ نمودار ہوا۔ اس دوران کاروباری حضرات نے سوچنا شروع کر دیا کہ لمبے چوڑے سٹاف، بلڈنگ، بجلی کے بل جیسے  مسائل  کو رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ وباء کے بعد بہت سی کمپنیوں نے دفاتر کو تالے لگا دیئے۔ ان کا سٹاف آج بھی گھر میں ہی کام کر رہا ہے۔ یوکرین جنگ اور ہماری حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔

پاکستان کے موجودہ حالات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یونان میں ڈوبنے والی کشتی کے آدھے مسافر پاکستانی تھے۔ حکومت آئی-ایم-ایف سے قرضہ لینے کے چکر میں نت نئے ٹیکسس لگا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے فیکٹریاں، کارخانے بند ہو رہے ہیں، اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔

کرونا وبا کے دوران آن لائن کاموں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس نے جابز کی مارکیٹ کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ آج ہماری بہت سی بچیاں فری لانسنگ اور آن لائن کام کرکے پیسے کما رہی ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے گھروں کے گزارے مشکل ہورہے  ہیں۔ جس کی وجہ سے آج ہماری بہت سی خواتین مختلف قسم کے کاروبار کرتی نظر آ رہی ہیں۔ کرائے بڑھنے کی وجہ سے آج ہر شہر میں لڑکیاں موٹر سائیکل چلاتی نظر آ رہی ہیں۔

شوہر اور سسرال والوں کے لیے پڑھی لکھی، نوکری یا کاروبار کرنے والی خواتین کو دبا کر رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ خودمختار خواتین کو گھریلو خواتین کی نسبت فیصلوں میں بھی آزادی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہروں میں طلاق کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ خودمختار خواتین کو طلاق کے باوجود اچھے رشتے مل جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

لکھاریوں اور خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں سے ہماری گزارش ہے کہ عورت کو ہنر سکھا دیں باقی مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ ہم اس وقت بدترین معاشی بحران کا شکار ہیں۔ اگر ہماری خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو جائیں تو مردوں کا بوجھ اور ملک کے حالات بہتر کیے جاسکتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply