پچھلے دس سالوں سے پاکستان کی سیاست میں جو انتشار کی صورتحال جاری ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ قومی سطح پر ہماری بردباری انتہائی خطرے سے دوچار ہے اوربرداشت ختم ہوچکی ہے۔ ایک دوسرے کو سننے اور مکالمہ کرنے کی ثقافت مفقود ہوچکی ہے۔ سیاست کو ہم نے اقتدار کے حصول کی جنگ بنا دیا ہے اوربعض سیاستدان انا پرستی اور تکبر جیسے نفسیاتی مرض کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہر کوئی یہ سمجھنا شروع ہوگیا ہے کہ وہ ٹھیک ہے اور باقی سب غلط ہیں اور اس کی وجہ ہماری وہ تربیت ہے جو ہماے گھروں، سکولوں، معاشرے، اداروں اور سوشل میڈیا کے زریعے سے کی گئی ہے۔
ان سالوں کے دوران عوام کی نفسیات کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کی سیاست سے مایوسی، معاشی حالات کی تنگی اور معاشرتی ضروریات کے حصول کی خواہشوں کو ٹارگٹ کرتے ہوئےایک خاص قسم کی ذہن سازی کرکے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے استعمال کیاگیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کو نفسیاتی طور پرایک خاص بیانیے کا عادی بنا دیا گیا ہے اور اب وہ اس کے علاوہ کسی اور بیانیے کو سننے یا قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔ سادہ ذہن عوام نے میڈیا کے زریعے سے ملنے والی معلومات کو حقائق کا درجہ دیتے ہوئے اس کی بنیاد پر ایک غلط یقین بنا لیا ہے اور ان کو یہ شعور ہی نہیں تھا اور نہ ہی سمجھ سکے کہ ان کو معلومات دینے والا کون ہے، اس کا زریعہ معلومات کیا ہے، اس کا ذاتی علم اور تجربہ کیا ہے یا اس کا مقصد کیا ہے؟
مین سٹریم میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک باقائدہ سرمایہ کاری کی گئی اور پاکستان کے عوام کے اندر انتشاری سیاست کوذہن سازی کے زریعے سے داخل کیا گیا اور ان کو فرضی نعروں اوربیانیوں سے ایک جذباتی ماحول دے کرمحترک کیاگیا۔ اور سیاسی انتشار میں ایسی کشش پیدا کی گئی کہ ہر کوئی اس کی لے پر بہتا چلاگیا حتیٰ کہ پاکستان کے ادارے بھی اس متاثر کن ماحول سے اپنے آپ کو نہ بچا سکے
اس عرصہ کے دوران میڈیائی سازشی تھیوری سے عروج پانے والے کئی میڈیا اینکرز اورسوشل میڈیا کے وی لاگرز جنہوں نے اپنا کیرئیر زیرو سے شروع کیا مقبول ترین نام بن چکے ہیں اور ان کے بے شمار فالوورز ہیں جن پر مشتمل سوشل میڈیا میں اب ایک نیا جہاں آباد ہوچکا ہے جس کے اندر کسی باشعور انسان کا حقائق کی بنیاد پر، علم یا دلائل کےزریعے سے ان کے غلط معلومات پر مبنی افکار کا مقابلہ کرنا انتہائی مشکل ہوچکا ہے۔
اب میڈیا کے زریعے سے بنائے گئے اس نفسیاتی ماحول کے اندر اپنی جگہ بنانا ہر سیاسی جماعت کی مجبوری بنتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی قیادت کا رول بھی سوسائٹی نے ہی طے کرنا ہوتا ہے اور جب عوام کی نفیسات جذبات سے لیس سیاسی جماعتوں سے انتشاری سیاست کا مطالبہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہوں تو اس حساس نوعیت کے قومی خطرے کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا۔
در حقیقت اس خیالی دنیا کا حقائق کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اس جہاں کے رہنے والوں کا زمینی حقائق سے کوئی سروکارہے۔ ان کی اس تربیت کا مقصد ہی عوام کو خوبصورت خوابوں کی دنیا میں گھسا کر معاشی تباہی کرنا تھا۔ اب اس خیالی دنیا کے رہنے والوں کی سوچ سے جمہوریت جس انتہا پسندی کے طوفان کی زد میں آچکی ہے اس کا حل صرف اور صرف ریگولرائزڈ جمہوریت میں ہی ہے۔ اور جواس حکمت کو سمجھنے سے قاصر ہیں ان کو یہ فینامنا سمجھنے میں وقت درکار ہوگا۔ لہذا اب اس کا حل یہی ہے کہ جو ناسمجھ ہیں ان کو ان کی نفسیاتی قید میں رکھا جائے کیونکہ لاعلاج اور شدید علامات کے شکارخاص لوگوں کے لئے ایک خاص ماحول کا اہتمام کرنا پڑتاہے اور جب تک وہ پوری طرح سے اپنے ہوش و حواس میں واپس نہیں آجاتے ان کو خاص نگہداشت میں رکھنے کی مجبوری ہے۔
اس ریگولرائزڈ سیاست اور جمہوریت کے لئے ایک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کی ضرورت ہے جو حقیقی جمہوریت اور اصولی سیاست کو پروان چڑھانے کے لئے سیاسی جماعتوں کوجمہوری اور سیاسی اقدار کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدارکا بھی پابند کرے اور ایک صحیح معنوں میں سیاسی ماحول کو یقینی بنائے۔
اس کے بغیران انتشاری عناصر کو آزادی دے کر خواہ مخواہ کی توڑ پھوڑ اور دوسرے معاشرے کو خطرے میں ڈالنے کا خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا۔ لہذا جن کو زیادہ انسانی حقوق کا زعم لگا ہوا ہے ان کے لئے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ذہنی طور پرحواس باختہ انسانوں اور ذہنی طور پر تندرست انسانوں کے حقوق اس حد تک ہی برابر ہوتے ہیں کہ ان کی بنیادی ضروریات پوری ہوتی رہیں مگر ان کو ایک ہی ماحول میں رکھنا ناممکن ہوتا ہے اور یہ دونوں طرح کے طبقوں کے لئے فائدہ مند ہوتا ہے لہذا اس کے برعکس شور مچانے والوں کی باتوں پر توجہ دے کر خواہ مخواہ وقت، توانائی اور وسائل کو ضائع کرنے کا رسک نہیں لیا جاسکتا۔
اس انتشاری سیاست نے چونکہ پورے ملک کی عوام کو متاثر کیا ہے لہذا کسی بھی سیاسی جماعت کو اس طرح کی نفسیات سے مکمل طور پر آزاد نہیں کہا جاسکتا مگر زیادہ تر اشارے اور شواہد موجودہ صورتحال کو تحریک انصاف کی طرف لے کر جاتے ہیں جس کی وجوہات ان کی طرز سیاست ہے۔
انکی سیاسی حکمت عملیاں حیران کن ہیں۔ جو سیاسی جماعت دو چار ووٹوں کے فرق سے قومی اسمبلی میں عوام کی آواز بننے کی بجائے چوک چوراہوں کی سیاست کو ترجیح دے تین چوتھائی ملک میں حکومت ہوتے ہوئے اس کی تمام تر توجہ عوام کے مسائل کی بجائے احتجاج اور دھرنوں پر ہو اور اپنی ہی حکومتوں کو ختم کرکے انتخابات میں جانے کی جلدی میں ہو اس کی سیاسی منطق بہرحال سیاسی اور جمہوری سوچ کی سمجھ سے بالاتر ہے۔
چئیرمیں تحریک انصاف نے تحقیقی ٹیم کے سامنے جو بیان دیا ہے اس سے بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان کو 9 مئی کے واقعات پر کوئی پچھتاوا نہیں اور نہ ہی افسوس ہے کیونکہ ان کے نزدیک اس طرح کا ری ایکشن جائز ہے مگر ساتھ ہی وہ پر امن ہونے کی بات تو کرتے ہیں مگر جن لوگوں نے اس دوران انتشار پھیلایا اور توڑ پھوڑ کی ان سے لاتعلقی کا بھی اظہار کیاجبکہ وڈیوز میں صاف دکھائی دیتا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے کارکنان تھے۔
جو انسانی حقوق اور حق آزادی رائے کی بات کرتے ہیں ان کو انتہاپسندی کی سیاست نظر نہیں آتی۔ ان کو اس پر امن احتجاج کے حق کے پس پردہ استعمال میں ہونے والی مجرمانہ سرگرمیاں نظر نہیں آتیں۔ کیا ان کو کیمرے کی آنکھ پر یقین نہیں آتا جس کے شواہد ان مجرمانہ افعال میں ملوث سیاسی انتہا پسندوں نے خود سوشل میڈیا کے حوالے کئے ہیں۔ کیا ان کو جمہوری اقدار اور سیاسی اصولوں سے متصادم وہ سرگرمیاں نظر نہیں آتیں جو فقط اقتدار تک دسترس کی صورت میں ہی پر امن رہنے کی عادی ہیں اور اگر اقتدار ہاتھ سے چلا جائے تو وہ سب کچھ تہس نہس کرنے پر اتر آتےہیں اور پارلیمان سے بھاگ کر چوک چوراہوں میں پہنچ جاتےہیں اور ان کو جب وہاں بھی سکون نہیں ملتا تو وہ قومی املاک اور اداروں کی تنصیبات کو راکھ کرنے کے لئے ان پر چڑھ دوڑتی ہیں۔
سب سے زیادہ پریشان کن امر یہ ہے کہ ان سے مستقبل میں بھی اصولی سیاست اور جمہوری سوچ کی کوئی توقع وابسطہ نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہ سیاسی جماعتوں سے سنجیدہ مذاکرات کرنے کے لئے ابھی بھی تیار نہیں اور وہ ہمیشہ اداروں کے سربراہاں کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے امداد یا مزاکرات کی بات کرتے ہیں تو ایسے میں ان کی سیاست ہمارے حالات سے مطابقت یا ہم آہنگی رکھتے ہوئے دکھائی نہیں دیتی
آخر میں صرف اتنا ہی عرض کرنا چاہوں گا کہ جمہوریت حق رائے دہی کا نام ہے، پرامن طریقے سے عوامی نمائندگی کے زریعے ریاست کے انتظام و انصرام کو سنبھالنے کے نظام کا نام ہے۔ عوام کی خواہش کے مطابق اصولی سیاست کے زریعے سے قومی مسائل کے حل ڈھونڈنے کا نام ہے۔ آپس کے اختلافات میں مکالمے کے زریعے سے کسی نتیجے پر پہنچے کا نام ہے۔ جمہوریت بردباری، امن اور برداشت کا نام ہے اور اس سے ہٹ کر بدامنی، توڑ پھوڑ اورانتہاپسندی کی جمہوریت میں کوئی گنجائش نہیں۔
جمہوریت باشعور اور اعلیٰ اخلاقیات کے حامل معاشروں کے لئے ہوتی ہے۔ سیاست خدمت کا نام ہے وہ خواہ اقتدار میں رہ کر کی جائے یا اپوزیشن میں رہ کر اور اگر اقتدار کی حوس ہی سیاست کا محور بن جائے تو اس کو سیاست نہیں بلکہ سیاسی انتہا پسندی کہتے ہیں اور سیاسی انتہاپسندی کا علاج جمہوریت میں نہیں ہے۔ یہ ایک نفسیاتی مرض ہے اور اس کا علاج مہذب معاشروں کے اندر آزاد چھوڑ کر نہیں کیا جاسکتا بلکہ ایسے عناصر کو ایک خاص ماحول میں محصور رکھ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ خواہ وہ خوف کے زریعے سے پابند رکھ کر کیا جائے یا پابند سلاسل رکھ کر۔ یہ بائیس کروڑ کا ملک ہے اورہر ایک کی رائے کا احترام بحثیت شہری برابر ہے۔ معاشی بدحالی اور زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اب مزید سیاسی انتہا پسندی کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچتی اور نہ ہی ریاست اب اس کو مزید برداشت کرنے کی متحمل ہوسکتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں