ذہنی مریضوں کا مسئلہ/محمد اسد شاہ

گزشتہ دنوں ایک نیم سرکاری تعلیمی ادارے میں تقریری مقابلہ دیکھنے اور سننے کا موقع ملا ۔ رٹے رٹائے جملوں کے ساتھ روبوٹس کی طرح تیار کیے گئے لڑکے اور لڑکیاں باری باری سٹیج پر آتے اور اپنی “یادداشت” کا امتحان دے کر اُترتے رہے ۔ ان کے الفاظ ان کے جذبات یا سوچوں کے عکاس نہیں تھے ۔ انعام جیتنے کی دوڑ تھی ، “اساتذہ” کے لکھے ہوئے الفاظ تھے اور ہاتھوں، نظروں اور بازوؤں کے غیر متوازن اشارے ۔ منصفین کی کرسیوں پر اسی ادارے سے چند سال قبل فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ براجمان تھے ۔ جن اساتذہ سے انھوں نے تعلیم حاصل کی ، وہ بھی موجود تھے ، لیکن پچھلی نشستوں پر بیٹھے “ڈسپلن ڈیوٹی” ادا کر رہے تھے ۔ خیر ، یہ تو اس ادارے کی انتظامیہ کا فیصلہ ہے کہ وہ اساتذہ خود منصفین کیوں نہیں ہو سکتے ، جن کے سکھائے ہوئے بچے منصف بنائے گئے ۔ یونیورسٹی کا ایک طالب علم سٹیج پر آیا ، بہت ڈرامائی انداز میں 2014 کے ماڈل ٹاؤن لاہور والے سانحے کا ذکر کیا ، پھر سانحہ پشاور کا ذکر کیا، اور ساتھ ہی عدالتی نظام انصاف پر تند و تیز سوالات اٹھا دیئے ۔

یقیناً یہ اس لڑکے کے ذاتی الفاظ نہیں تھے ، بلکہ کسی “استاد” کے ذہن کا عکس تھا ۔ کوئی شک نہیں کہ ہمارے عدالتی نظام پر بہت سے سوالات ہیں ۔ لیکن تقریر لکھنے والے نام نہاد استاد کو صرف یہی دو سانحے کیوں یاد آئے ۔ اسے یہ کیوں نہیں یاد کہ قائد اعظم کی وفات کیسے ہوئی ، محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کیا ہوا اور جنرل ایوب سے جنرل پرویز تک ہر قابض و غاصب کو “آئین” کا لبادہ کس نے اڑھایا؟ اسے یہ کیوں نہیں یاد کہ مشرقی پاکستان میں کیا ہوا، حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کس نے 30 سال تک عوام سے چھپائے رکھی، اور اس ملک کے کتنے محافظ جوانوں کو دہشت گردوں نے قتل کیا اور ان کے سروں سے فٹ بال کھیلتے رہے؟ اسے سانحہ کارساز کیوں نہ یاد آیا جس میں ڈیڑھ سو کے قریب لوگ قتل ہو گئے؟

اسے یہ کیوں نہ یاد آیا کہ بے نظیر نے اپنے قتل سے ایک ماہ قبل کراچی کے تھانے میں ان تین افراد نے نام لکھوا دیئے تھے جن سے انھیں قتل کی دھمکیاں ملیں، اور 15 سال گزرنے کے باوجود جن کو آج تک کسی عدالت نے تفتیش یا جرح کے لیے طلب تک نہیں کیا؟ اس نام نہاد “استاد” کو یہ بھی نہیں یاد کہ جنرل پرویز کے دور میں اوکاڑہ میں کتنے کسان اور کتنے وکلاء کس طرح قتل ہوئے۔ اسے یہ بھی یاد نہ آیا کہ 12 مئی 2007 کو پورے کراچی میں دن بھر قتل عام ہوتا رہا اور آج تک کسی کو سزا نہ ملی ۔ اسے سانحہ لال مسجد ، اور اکبر بگٹی کا قتل بھی یاد نہ آیا؟ اسے مسنگ پرسنز کے وہ بچے بھی یاد نہ آئے جو کئی سالوں سے سڑکوں پہ کتبے اٹھائے کھڑے ہیں؟ اسے سانحہِ بلدیہ ٹاؤن کراچی بھی یاد نہیں کہ جب 200 سے زیادہ مزدوروں کو زندہ جلا دیا گیا؟ اسے ہزارہ کے وہ 11 غریب مزدور بھی یاد نہ آئے جنھیں ذبح کر کے پھینک دیا گیا، اور جن کی جوان بیویاں، معصوم بیٹیاں اور بوڑھی مائیں کوئٹہ کی یخ ٹھنڈی راتوں میں لاشوں کے ساتھ دو ہفتے تک بیٹھی روتی سسکتی رہیں، لیکن “سلیکٹڈ وزیراعظم” انھیں دلاسہ دینے بھی نہ گیا، بل کہ اپنی تکبر بھری تقریروں میں انھیں “بلیک میلر” کہہ کر دھتکارتا رہا اور وزیراعظم ہاؤس میں ہنس ہنس کر غیر ملکی اداکاراؤں سے ملاقاتیں کرتا رہا؟ ان مقتولوں کے لیے کبھی کوئی جے آئی ٹی بنی اور نہ کوئی گرفتار ہوا ۔ اس نام نہاد “استاد” کو سانحہِ ساہی وال بھی یاد نہ آیا کہ جب دودھ پیتے معصوم بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ، بہن اور چچا کو قتل کیا گیا ۔ “سلیکٹڈ وزیراعظم” ان کے جنازے یا ان کے گھر تک بھی نہ گیا، اور قاتلوں کو بھی کبھی گرفتار نہ کروایا ۔

جس استاد نے یہ تقریر لکھی، وہ دراصل ذہنی مریضوں کے ایک مخصوص ٹولے کا نمائندہ ہے ۔ ایسے لوگوں کو دراصل عدالتوں یا انصاف سے کوئی سرو کار نہیں ۔ یہ سیاسی بغض میں مبتلا مریض ہیں جنھیں ہر معاملے میں صرف ایک شخص اور اس کی سیاسی جماعت کو ملوث کرنے کا شوق ہے اور بس ! اس شوق اور بغض میں انھوں نے صرف ایک جماعت کے لیڈرز کو زبردستی پھنسانے کی کوششیں کیں ۔ اصل قاتلوں اور ذمہ داروں سے دھیان ہٹا لیا ۔ ماڈل ٹاؤن سانحہ کی ایف آئی آر انہی مریضوں کے قائدین کی پسند کے مطابق دو بار درج ہوئی ، انہی کی پسند کے مطابق جے آئی ٹی بنی اور انہی کی پسند کے جج صاحب اس جے آئی ٹی کے سربراہ بنائے گئے اور انہی کی فرمائش پر اس جے آئی ٹی کی رپورٹ عوام کے لیے شائع کی گئی ۔ جب مذکورہ سیاسی لیڈرز کو پھنسانے کے سب حربے جھوٹے ثابت ہو گئے تو سالانہ احتجاج اور برسیاں بند کر دی گئیں ۔ سانحہِ ماڈل ٹاؤن میں وہ لیڈرز ملوث نہیں تھے تو “مجبوراً” عمران کو اپنے پونے 4 سالہ دور حکومت میں ان کے خلاف منشیات کے جعلی مقدمات بنوانا پڑے ۔

اسی طرح 2017 میں قصور میں زینب نامی ایک بچی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ ہوا تو چار جماعتوں نے بہت شور مچایا ۔ یقیناً احتجاج ہونا بھی چاہیے تھا ۔ ان چار جماعتوں میں سراج الحق کی جماعت اسلامی ، عمران خان کی تحریک انصاف ، طاہر القادری کی عوامی تحریک اور پرویز الہٰی کی ق لیگ شامل تھیں ۔ اب آپ تحقیق کیجیے تو انتہائی شرم ناک حقائق سے آپ کے دل دہل جائیں گے ۔ 2018 میں عمران کو وزیراعظم بنوایا گیا اور اپریل 2022 میں آئین کے عین مطابق تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اسے وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا ۔ عمران کے پونے چار سالہ دور حکومت میں خیبر پختونخوا  ، پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی گلیوں ، بستیوں، محلوں اور دیہات میں بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے مجموعی طور پر کئی ہزار واقعات ہوئے۔

جی ہاں، کئی سو نہیں ، بلکہ کئی ہزار واقعات کی ایف آئی آرز درج ہوئیں لیکن اخبارات میں اندرونی صفحات میں کہیں کونوں کھدروں میں چند سطری خبریں چھپیں ۔ انٹرنیٹ پر اس حوالے سے اعداد و شمار موجود ہیں ۔ موٹر وے پر معصوم بچوں اور بچیوں کے سامنے ان کی جوان ماں کو ننگا کیا گیا اور غنڈوں کے گینگ نے جو ریپ کیا ، وہ ان اعداد شمار میں شامل نہیں۔ عمران کے دور میں الیکٹرانک میڈیا پر بہت پابندیاں تھیں، اور بچوں اور بچیوں کے ساتھ درندگی کے ان واقعات کی تشہیر منع تھی ۔ بے شمار ایسے واقعات بھی ہوئے جن کی ایف آئی آرز تو عزت کے ہاتھوں مجبور والدین نے درج ہی نہ کروائیں ۔

لیکن قارئین دِلوں پہ ہاتھ رکھ کے سوچیں کہ کیا 2017 میں زینب واقعے کے بعد آج تک اس طرح کے کسی اور واقعے پر آپ نے سراج الحق یا جماعت اسلامی کو حتجاج کرتے دیکھا؟ کیا طاہر القادری کی عوامی تحریک ، عمران خان کی تحریک انصاف اور ق لیگ نے کوئی احتجاج کیا؟ اگر نہیں ۔۔۔۔ تو پھر یقین کر لیجیے کہ ان جماعتوں کو آپ کے بچوں اور بچیوں کی عزت و عصمت سے کوئی غرض نہیں ۔ ان کی ہوس صرف اقتدار ہے ، اور ان کا مسئلہ صرف نواز لیگ ہے ۔ چوں کہ سانحہِ ماڈل ٹاؤن اور زینب واقعے کے وقت پنجاب میں نواز لیگ کی حکومت تھی، اس لیے وہ واقعات ان لوگوں کو آج تک یاد آتے ہیں ۔ لیکن عمران کے دور حکومت میں جتنا خون بہا ، جتنے بچے اور بچیوں کے ساتھ درندگی ہوئی، ان کی تکالیف سے ان قائدین اور ان کی جماعتوں کو کوئی مسئلہ نہیں !

Advertisements
julia rana solicitors london

پانامہ لیکس میں 446 پاکستانیوں کے نام تھے ۔ نواز شریف کا نام نہیں تھا ۔ لیکن سراج الحق ، شیخ رشید اور عمران خان صرف بیٹے سے تنخواہ نہ لینے والے باپ کو سزا دلوا کر خاموش ہو گئے ۔ باقیوں سے انھیں کوئی مسئلہ نہیں ۔ ذہنی مریضوں کو اس ملک میں غربت اور مہنگائی کے خاتمے، اسلام کے نفاذ، انصاف، امن، ترقی اور خوشحالی سے کوئی غرض نہیں ۔ ان کا مسئلہ صرف “نواز شریف” ہے ۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply