روس اور یوکرین کی جنگ کا 230 واں دن/فرزانہ افضل

روس اور یوکرین کی جنگ شروع ہوئے آج 230 واں روز ہے۔ یہ جنگ فروری 2022 میں چھڑی جب روس نے یوکرین پر قبضہ کرنے کی نیت سے حملہ کیا۔ امریکہ اقوام متحدہ یورپی یونین تقریباً تمام بڑی طاقتوں نے مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنا چاہے تاکہ جنگ بند کرائی جا سکے۔ مگر روس کے صدر پیوٹن کے اپنی ضد پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا ۔ پیوٹن کا اولین مقصد یوکرائن پر قبضہ کرکے اس کی حکومت کو معزول کرنا تھا ۔ روس کی ہمیشہ سے خواہش تھی کہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا ممبر بنے مگر اس کے یوکرائن پر حملے کے اقدام سے اس کا نیٹو ممبر شپ کے حصول کا خواب ہمیشہ کے لئے ٹوٹ گیا۔ لہذا روس نے یوکرائن کے دارالحکومت کیف پر قبضہ کرنے کی ایک ماہ تک کوشش کی۔ مگر پھر ارادے کو بدل کر اپنے عزائم کا رخ یوکرائن کے مشرقی اور جنوبی علاقوں کی طرف موڑ دیا اور اس برس 24 فروری 2022 کو حملے کا آغاز کیا۔ اور اپنے روسی عوام کو اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ اس حملے کا مقصد یوکرائن کو غیر فوجی بنانا اور ڈی نازی کرنا ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کی حفاظت کرنا ہے اور یوکرین کی حکومت کو آٹھ سال سے جاری غنڈہ گردی اور نسل کشی کا نام دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ جلد ہی ایک اور مقصد کا اضافہ کر لیا گیا جو یوکرائن کی غیرجانبدارانہ حیثیت کو یقینی بنانے کا تھا۔ یہ جنگ جو دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک بڑی جنگ ثابت ہو رہی ہے۔ اس کے اثرات یوکرائن کی تباہی اور اس کے عوام اور معیشت پر ہی نہیں پڑے بلکہ پورا یورپ اور برطانیہ اس سے متاثر ہو رہا ہے۔ اور اس کا نتیجہ مہاجرین کا بحران گیس اور بجلی کے بحران کی شکل میں ان ممالک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ چند ہفتے قبل روس نے گیس کی سپلائی لائن نوڈ سٹریم ون بند کر دی تھی۔ یورپ میں قدرتی گیس کی 40 فیصد فراہمی روس سے آتی ہے۔ اس پائپ لائن کو بند کرنے کے بعد روس کی جانب سے گیس کی سپلائی میں 89 فیصد کمی آ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے گیس کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہو گیا ہے۔ بجلی اور گیس کے بحران کی وجہ سپلائی کا ڈیمانڈ سے بہت کم ہونا ہے۔ لہذا برطانیہ کے گیس کے ریگولیٹر نے خبردار کیا ہے کہ اس موسم سرما میں گیس کی تین گھنٹے تک کی سپلائی کٹ یا لوڈشیڈنگ متوقع ہے۔ دونوں ممالک کی جنگ میں یورپ برطانیہ امریکہ اقوام متحدہ اور نیٹو سب روس کے مخالف اور یوکرائن کی حمایت میں ہیں ۔ اور یوکرائن کو اپنے دفاع کے لئے اسلحہ بھی مسلسل فراہم کر رہے ہیں۔ اور روس پر ان ممالک نے پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔ لہذا روس انتقامی کارروائی کے طور پر گیس کی سپلائی بند کر رہا ہے، جس سے خصوصاً جرمنی فرانس اور برطانیہ کی گیس سپلائی شدید متاثر ہوئی ہے۔ جبکہ یورپی یونین امریکہ کینیڈا اور برطانیہ نے روس سے تیل نہ خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ روس ، ہندوستان ، چین اور دوسرے ممالک کو بڑی مقدار میں سستے داموں تیل بیچ رہا ہے۔ ان ممالک میں سعودی عرب بھی شامل ہے جو روس سے خام تیل خریدتا ہے اور صاف کر کے دوسرے ملکوں کو فراہم کرتا ہے۔ جنگ کے ساتھ ساتھ روس مشرق وسطٰی کے ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کر رہا ہے۔ خاص طور پر سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اب روس کی حمایت کے طور پر سعودی عرب نے دوسرے ملکوں کے لئے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے جو کہ نہایت تشویش کن ہے۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ صدر پیوٹن ایک عقلمند اداکار ہے مگر اس نے یوکرین پر حملہ کرتے ہوئے بے وقوفی کا ثبوت دیا ہے۔ اور یوکرین کو اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا ہے ، صدر جوبائیڈن یوکرین کے صدر زیلنسکی کی درخواستوں پر یوکرین کو فوری طور پر دو عدد جدید فضائی دفاعی نظام بھیج رہا ہے۔ تاکہ یوکرین کی جنگ میں مدد کی جا سکے ۔ گروپ آف سیون ، جی -7 کے حالیہ اجلاس میں صنعتی ممالک نے روس کی حمایت کا وعدہ کیا ہے۔ اور روس کے حملوں کی وجہ سے اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا معصوم شہری آبادی کو نشانہ بنانا ایک جنگ ہے۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ وہ پیوٹن کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گا۔ گزشتہ دو سے تین دن کے دوران روس نے یوکرائن پر تقریباً 36 میزائل گرائے ہیں۔ اور اب تو روس نیوکلیئر حملے کی دھمکیوں پر اتر آیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشمکش اور جنگ طول پکڑتی جارہی ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ دونوں ممالک مذاکرات پر تیار نہیں اور روس کی پوزیشن اس جنگ میں ویسے ہی مضبوط ہے۔ اس جنگ میں ہار جیت کا فیصلہ بہت مشکل دکھائی دے رہا ہے یوکرائن کی جیت ممکن ہے اگر روس اس کے علاقوں سے نکل جائے جو فی الحال تو ناممکن نظر آرہا ہے۔ جبکہ پیوٹن کی جیت ظاہر ہے اگر وہ مشرقی یوکرائن پر قبضہ کر لے، یوکرائن کے صدر زلنسکی سے استعفٰی لے کر اور یوکرائن سے نیٹو میں شمولیت کبھی نہ اختیار کرنے کے معاہدے پر دستخط کروا لے۔ یا پھر یہ جنگ ایک اور صورت میں ختم ہوسکتی ہے کہ روس کے حملوں سے یوکرائن کا دفاعی نظام مکمل طور پر غیر موثر ہو جائے اور روس یوکرائن پر مکمل قبضہ کر لے۔ روس پر یوکرائن کی فتح بھی ممکن ہے اگر روسی فوج اور آبادی کو مکمل طور پر یوکرائنی علاقے سے بے دخل کر دیا جائے۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا اگر یوکرائن کو مغرب کی جانب سے اسلحہ اور گولہ بارود کی فراہمی جاری رہے گی۔ یوکرائن کو اسلحے کی مسلسل سپلائی کی وجہ سے 230 روز گزر جانے پر بھی بجائے کسی حل کی طرف جانے کے یہ تنازع  اور فوجی تعطل طوالت پکڑتا جا رہا ہے اور روسی میزائل کا حملہ جاری ہے۔ روس واضح طور پر جنگی جرائم کا مرتکب ہے انٹر نیشنل ہیومنیٹیرین لاء، آئی ایچ ایل کے تحت عالمی عدالتوں کو روس پر مقدمہ چلانا چاہیے اور دونوں ممالک کے اختلافات کا تصفیہ کر کے جنگ کو بند کروانا چاہیے۔ حکومتوں کی لڑائیوں میں اگر کوئی متاثر ہوتا ہے تو صرف عوام جن کی جانیں چلی جاتی ہیں ، خاندان بکھر اور اجڑ جاتے ہیں، کچھ جنگی حملوں سے زخمی ہو کر معذور ہو جاتے ہیں جو زندہ بچ جائیں گھر سے بے گھر ہو جاتے ہیں مہاجرین کی حیثیت میں دوسرے ممالک میں پناہ ڈھونڈتے ہیں نئے سرے سے زندگی کا آغاز کرنا کس قدر مشکل ہے اس کا اندازہ ہمیں اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے ہوئے نہیں ہو سکتا جنگ کے صدمات کے اثرات ان کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں جن سے زندگی بھر چھٹکارا پانا اکثر اوقات نا ممکن ہو جاتا ہے ۔ اکیسویں صدی کے مہذب اور ترقی یافتہ دور میں بھی اگر اختلافات اور معاملات میز کے گرد بیٹھ کے حل نہیں کیا جا سکتے تو پھراس تمام سائنسی، اخلاقی ، تہذیبی ترقی پر نوع انسانی شرمسار ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply