تابوت سکینہ،،، لعلونہ خان

مصریوں سے غلامی کے بعد کے بعد جب صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کو موسی علیہ السلام کے ذریعے باقاعدہ شریعت دی گئی،تو ساتھ میں موسیٰ علیہ السلام کو یہ ہدایت بھی دی گئی۔کہ وہ بدنی اور مالی عبادت کی مختلف رسوم ادا کرنے کے لئے خیمے کی شکل میں بنی اسرائیل کے لئے ایک خیمہ گاہ بنائیں۔تورات میں اس خیمے کو “خیمہ اجتماع” “مقدس” “مسکن”اور شہادت کا خیمہ کے مختلف ناموں سے کیاگیا ہے۔حضرت موسیٰ کو یہ حُکم بھی دیا گیا۔کہ وہ ایک خاص وضع کا صندوق بناکر اس میں تورات کی الواح محفوظ کردیں۔اور اسے”خیمہ اجتماع” میں ایک مخصوص مقام پر مستقل طور پر رکھ دیں۔تورات میں اس کو”عہد کا صندوق” کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔

تابوت لفظ توب سے مشتق ہے،جسکے معنی رجوع کرنے کے ہیں۔اور اسے تابوت اس لئے کہتے ہیں،کہ جو چیزاس سے نکالی جاتی تھی،وہ واپس اسی میں چلی آتی تھی۔سکینہ سے مطلب وہ اطمینان جو اللہ اپنے بندے کے دل میں اُس وقت ڈال دیتا ہے،جب وہ ہولناکیوں کی شدت سے مضطرب ہوجاتا ہے۔اور اس کے بعد جو بھی اُس پر گُزرے وہ اُس سے گھبراتا نہیں ہے۔یہ اس کے لئے ایمان میں زیادتی،یقین میں قوت اور استقلال کو ضروری کردیتا ہے۔تابوت سکینہ میں حضرت موسی اور حضرت یونس علیہ السلام کے تبرکات تھے۔اس تابوت کو اُن کے دُشمن عمالقہ چھین کر لے گئے تھے۔اللہ تعالی نے نشانی کے طور پر یہ تابوت فرشتوں کے ذریعے حضرت طالوت کے دروازے پر پُہنچا دیا،جسے دیکھ کر بنی اسرائیل بُہت خوش ہوئے۔اور اسےمن جانب اللہ طالوت کی بادشاہی کی نشانی بھی سمجھا۔اور اللہ تعالی نے بھی اس تابوت کو اُن کی فتح و شکست کا سبب قرار دیا۔

حضرت موسی علیہ السلام وغیرہ لڑائی میں اس تابوت کو آگے رکھتے،اور اللہ تعالی اس کی برکت سے فتح دیتا۔جب جالوت غالب آیا ان پر،تو یہ صندوق بھی اپنے ساتھ لے گیا۔جب اللہ تعالی کو اس صندوق کا پُہنچانا مقصود ہوا،تو یہ کیا کہ وہ کافر جہاں وہ صندوق رکھتے تو وہاں وبا اور بلا آتی۔پانچ شہر ویران ہوگئے،ناچار ہوکر دو بیلوں پہ اس کو لاد کر ہانک دیا،دو فرشتے بیلوں کو ہانک کر حضرت طالوت کے دروازے پر پہنچاگئے۔بنی اسرائیل اس نشانی کو دیکھ کر طالوت کی بادشاہت پر ایمان لے آئے۔

تابوت سکینہ مسلمانوں کے لئے صرف ایک صندوق جتنی اھمیت رکھتا ہے،جبکہ عیسائی اور یہودیوں کا عقیدہ ہے،کہ تابوت سکینہ موسی علیہ السلام نے خدا کے حُکم پر بنایا تھا،اور اس میں پتھر کی وہ لوحیں لا کر رکھی ہوئی تھیں،جو ان کو اللہ نے کوہ سینا پر دی تھیں،اور جن میں یہودی مذھب کی تعلیمات بیان کی گئی تھیں۔مزید یہ بھی کہاجاتا ہے کہ اس میں تورات کی اصل کتاب حضرت موسی کا عصا اور خاص قسم کا ایک برتن جو من وسلوی لانے کے لئے استعمال ہوتا تھا،بھی رکھاہوا تھا،جو کہ بنی اسرائیل کے لوگوں پر اللہ نے آسمان سے نازل فرمایا تھا۔یہ بُہت مقدس تابوت شمار کیا جاتا تھا،اور ہمیشہ مذھبی رہنما اس کو اُٹھاتے تھے،اور اس کی حفاظت کے لئے فوج کا ایک دستہ بھی ہمیشہ ساتھ رہتاتھا۔نیز یہ بنی اسرائیل کے لئے فتح و برکت کی علامت تھا۔اس کو جنگوں کے دوران لشکر سے آگے رکھا جاتا،اور یہ سمجھا جاتا کہ اس تابوت کی برکت کی وجہ سےجیت ہمیشہ بنو اسرائیل کی ہی ہوگی۔جب بنی اسرائیل اللہ کے حُکم کی نافرمانی کرنے لگے،اور کُھلم کُھلا وہ کام کرنے لگے،جن سے اللہ نے منع فرمایا تھا۔تو یہ تابوت ایک جنگ کے دوران ان سے کھو گیا۔اور اُن کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ تابوت جب تک مشرکین کے پاس رہا،اُن کو مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔آخرکار تنگ آکر انہوں نے اسے بیل گاڑی پر رکھ پر رکھ کر اُنھیں اپنے علاقے سے باہر ہانک دیا،جس کو فرشتے حضرت طالوت کے دروازے پر چھوڑ گئے۔

حضرت داؤد کے زمانے تک اس تابوت کے رکھنے کے لئےکوئی خاص انتظام نہیں تھا۔اور اس کے لئے پڑاؤ کی جگہ پر ایک الگ خیمہ لگا دیا جاتا تھا۔حضرت داؤد نے خدا کے حُکم سے خدا کا گھر بنانا شروع کیا،جو عین اُسی مقام پر تھا،جہاں آج مسجد اقصی ہے،لیکن یہ عالی شان گھر اُن کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں مُکمل ہوا،اور ہیکل سُلیمانی کے نام سے مشہُور ہوا۔اس گھر کی تعمیر کے بعد تابوت سکینہ یہاں کو پُورے احترام کے ساتھ رکھاگیا۔اور اس طرح یہ مُقام یہودیوں کامقدس ترین مقام بن گیا۔

بعد کے زمانے میں ہونے والی جنگوں نے اس ہیکل کو بُہت نقصان پہنچایا،لیکن بابل کے بادشاہ بخت نصر نے اس کو مُکمل طور پر تباہ کردیا۔اور اس کو آگ لگا دی۔مال غنیمت کے ساتھ ساتھ وہ یہاں سے تابوت سکینہ کو بھی اپنے ساتھ لے گیا۔اس تباہی کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ اصلی ہیکل کی کوئی چیز سلامت رہی،بلکہ تابوت سکینہ بھی غائب ہوگیا،اور اس کا کوئی نشان نہیں ملا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج بھی بُہت سے آثار قدیمہ کے ماہر،خصوصاً یہودی مذھب سے تعلق رکھنے والے ماہرین اس کوشش میں ہیں،کہ اس تابوت کو ڈھونڈ کر واپس اپنی اُس روحانیت کو پا سکیں،جو کبھی اُن کو عطا کی گئی تھی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply