شعور کیا ہے ؟ (3)-ڈاکٹر مختیار ملغانی

گزشتہ دو اقساط او ر  دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے لنک کھولیے

تیسری قسط

بیسویں صدی عیسوی میں نیچرل سائنسز نے کئی مغالطوں کو دور کیا، طب اور نفسیات کے میدان میں خوب ترقی ہوئی، experimental psychology اور cognitive science جیسے مضامین نے انسان کے رویوں کو نئے سرے سے دریافت کیا، یہ وہ دور تھا جب فلسفے کے میدان میں مابعدالطبیعیات آخری سانسیں لے رہی تھی، اسی صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائی میں خوب شہرت کمانے والے برطانوی فلاسفر گلبرٹ رائیل سامنے آئے ، انہوں نے شعور کو باطنی یا پُراسرار وجود ماننے سے انکار کرتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا کہ شعور انسانی جسم یا دماغ سے باہر کی کوئی چیز نہیں، بلکہ یہ ان دو کی باہمی مشقوں کا نتیجہ ہے، ان کا ماننا تھا کہ افلاطون سے ہیگل تک کی شعوری بحثوں میں زبان کی اہمیت کو سراسر نظر انداز کیا جاتا رہا، کسی بھی لفظ یا اصطلاح کو فوراً تخیلاتی مشق سے جوڑدیا جاتا اور یہ بھیانک غلطی تھی کہ اس سے کسی نامعلوم اندرونی دنیا یا باطنی شخصیت کا تصور سامنے آیا جو کہ خام خیالی تھا، لفظ کی افادیت انسانی جسم کی مشق سے متعلق ہونی چاہیے تھی کہ اس سے تصویر زیادہ واضح ہو سکتی ہے، اس کی بہتر وضاحت کیلئے کچھ مثالیں دیکھیے۔۔

ایک لفظ ہے، کھیل، اب اس لفظ کو سمجھنے یا اپنانے کیلئے آپ کو دماغ کے گھوڑے دوڑانے کی ضرورت نہیں، بلکہ آپ نے فٹبال یا بَلا لے کر گراؤنڈ میں اُترنا ہے اور اپنے پسندیدہ کھیل کی مشق کرنی ہے، شروع میں ممکن ہے کہ آپ کو کچھ ذہنی مشقت کرنی پڑے کہ شاٹ لگاتے وقت کتنی طاقت لگانی ہے، پاؤں کیسے دھرنا ہے، بلا کِس سمت میں اور کس وقت گھمانا ہے، لیکن یہ دماغی زحمت چند ایک بار ہی اٹھانا پڑے گی، کچھ دنوں کی مشق سے آپ کے دماغ میں موجود اعصابی خلیے  ایک خاص ساخت میں ڈھل چکے ہوتے ہیں اور آپ گویا کہ آٹومیٹک شاٹ اور کک لگاتے ہیں، اسی طرح موسیقی کے آلات بجانے کی مشق ہے، شروع میں سیکھتے ہوئے قدرے محنت درکار ہوگی، اس کے بعد ہاتھ خود بخود دھن کے مطابق چلتے چلے جاتے ہیں کہ دماغی خلیے مطلوبہ نتائج کیلئے اپنی مخصوص ساخت بنا چکے ہوتے ہیں۔

پکاسو سے جب پوچھا گیا کہ آپ کیسے ایسی پینٹنگز بنا لیتے ییں؟ تو ان کا جواب تھا کہ، ہاتھوں سے، ہاتھوں سے بناتا ہوں۔
رائیل کے مطابق تخلیقی اور علمی صلاحتیں بھی مشق کی مرہونِ منت ہیں، حتیٰ کہ مکالمے کا فن بھی تجربے کا متقاضی ہے، کمرۂ عدالت میں آپ ہزار کتابیں پڑھ کر کوئی ایک کیس بھی نہیں لڑ سکتے ، جب تک کہ آپ کئی دفعہ کی مشق نہ کر لیں، مشق ہر انسان اسی سمت کرتا ہے جہاں اس کی دلچسپی ہوتی ہے، پسندیدہ جھکاؤ کی مستقل مشق آپ کے دماغ کو اس سمت ترقی دیتی ہے اور آپ اپنے فن، ہنر اور علم میں دوسروں سے کہیں آگے نکل جاتے ہیں، جسم اور دماغ کی اسی ہم آہنگی کو انہوں نے شعور کا نام دیا، ان کے بقول شعور کو غیر مرئی پردوں میں ڈھونڈنا بے وقوفی ہے اور فلسفی کو بیوقوف نہیں ہونا چاہیے ۔

رائیل خالص فزیکل ازم کے علمبردار تھے ۔ سماجی رویوں کو وہ بالخصوص مشق کا ردعمل کہتے ہیں، جیسے عمومی سوالات ، کیسے ہیں ؟ کیا چل رہا ہے ؟ وغیرہ کے جواب میں فرد کو سوچنا نہیں پڑتا، بلکہ وہ اپنے ذہن میں پہلے سے کئی بار دہرائے ہوئے جملے کی صورت جواب دیتا ہے کہ، سب ٹھیک ہے، گزارہ ہے، کچھ خاص نہیں وغیرہ ۔ ان کے مطابق کسی بھی شخص کے شعور کو جانچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اس کی گفتگو اور فعل کی بنیاد کو پرکھا جائے، بنیاد جتنی مضبوط ہوگی، شعور اتنا بلند ہوگا، لیکن شرط یہ ہے کہ گفتگو اور فعل کے پیچھے کوئی کنٹرول یا دباؤ محسوس نہ ہو، جدید زبان میں اسے Symantec behaviorism کہتے ہیں ۔ گفتگو کی بنیاد کو لے کر یہاں یہ غلط فہمی نہیں رہنی چاہیے  کہ باہمی سمجھ بوجھ سے مراد ایک جیسی رائے رکھنا ہے، قطعاً نہیں، یہ نہ ہو کہ مختلف رائے رکھنے والے کو آپ بے شعور سمجھیں ، رائے مختلف بلکہ بعض اوقات نہایت غیر معقول بھی ہو سکتی ہے، البتہ مخالف فریق کی گفتگو میں ، رائے قائم کرتے وقت ،اگر ربط ہے تو رائیل کے مطابق فرد باشعور ہے۔ اور فعل کی بابت بھی فرد کے اقدام کو دیکھا جائے گا، اس کی کھوپڑی میں گھسنے کی ضرورت نہیں، اس نکتے کو وہ ایک مثال سے واضح کرتے ہیں کہ شطرنج کھیلتے وقت آپ مخالف کی چال مطابق ردعمل دیں گے کہ اس کی چال آگے کیا گل کھلا سکتی ہے، ایسے میں فرد کی شخصیت یا اس کا ذہن پڑھنے کی ضرورت نہیں، صرف چال ہی کافی ہے اسے سمجھنے کیلئے ۔

مختصر یہ کہ زبان اور رویہ ہی انسان کا شعور ہیں، اور یہ دونوں مسلسل مشق کے ذریعے سدھارے جا سکتے ییں، یعنی شعور حاصل کیا جا سکتا ہے کہ دہرائے جانے کا عمل دماغ میں موجود اعصابی خلیوں کو مخصوص ساخت دیتا ہے ۔

رائیل کی  رائے میں اہم اور عجیب نکتہ یہ ہے کہ شعور کو صرف باہر سے مشاہدہ کرنے والا ناپ سکتا ہے، یعنی دوسرا شخص، فرد خود اس پہ آبجیکٹیو رائے دینے سے قاصر ہے کہ بے شعور شخص کبھی نہیں مانے گا کہ وہ بے شعور ہے، فرد کی گفتگو اور فعل مشاہدہ کرنے والے کو اس کے شعور کا پتا دیتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply