فضائلِ حلال میٹرو

جب سے مہاتما بنی گالوی صاحب نے پشاور میں حلال میٹرو کے قیام کا اعلان فرمایا ہے، انصافیوں کی جانب سے شوشل میڈیا پر اس کے فضائل پر مبنی پوسٹس کی تعداد اس قدر بڑھ گئی ہے کہ کبھی کبھار تو دل کرتا ہے ایسی بچکانہ اور احمقانہ پوسٹس کرنے والوں کو بلاک کردیا جائے مگر پھر سوچتا ہوں رہنے دو، ایک سستی تفریح ختم ہو جائے گی۔ انصافیوں کی ذہنی غلامی کا عالم یہ ہے کہ بنی گالہ سے دیہاڑی کی بنیاد پر چلنے والے سوشل میڈیا پیجز پر اگر یہ دعویٰ بھی کر دیا جائے کہ پشاور میٹرو کے اسٹیشن کے دروازے کو ہاتھ لگانے سے اولاد نرینہ حاصل ہوتی ہے تو یہ بلا توقف اس کو نہ صرف شیئر کر رہے ہوں گے بلکہ اس کے دفاع میں ’’تاریخی‘‘ حوالے بھی ڈھونڈ لائیں گے! سو پشاور میٹرو بس کی لاگت اور افادیت کا اندازہ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پیجز سے لگانا ایسا ہی ہے جیسے نائی کی دکان پر بیٹھے ’’تبصرہ نگاروں‘‘ سے امریکی خارجہ پالیسی سمجھنا! مثلاً ایک پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پشاور میٹرو سے روزانہ تقریباً 480،000 لوگ سفر کریں گے جبکہ اسی پوسٹ میں لاہور میٹرو کے مسافروں کی تعداد 80،000 یومیہ بیان کی گئی ہے اور پھر اسی بنیاد پر بنی گالہ کے دیہاڑی دار مالیاتی ماہرین فی مسافر لاگت نکال کر بتا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ پشاور شہر کی کل آبادی 18 لاکھ کے قریب ہے (ایشیائی ترقیاتی بینک کی پشاور میٹرو کے حوالے سے پراجیکٹ رپورٹ کے مطابق۔ آگے چل کر ہم اس رپورٹ کے مزید حوالے دیں گے)۔ جبکہ لاہور شہر کی آبادی حالیہ تخمینے کے مطابق ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے! لاہور میٹرو شہر کے گنجان ترین علاقوں سے گزرتی ہے۔ اب آپ آبادی کے اس تقابل سے اندازہ لگا لیں کہ اگر پشاور میٹرو 18 لاکھ آبادی والے شہر میں روزانہ 480،000 ہزار مسافروں کا بار اٹھا سکتی ہےتو لاہور میٹرو، جس کے روٹ پر غالباً پشاور شہر کی مکمل آبادی سے زیادہ انسان بستے ہیں (جبکہ کراچی میں صرف گلشن اقبال ٹاؤن کی آبادی 20 لاکھ سے زیادہ ہے)، کتنے مسافر روزانہ کی بنیاد پر ڈھو رہی ہوگی۔یقیناً یہ تعداد 80 ہزار سے کہیں زیادہ ہوگی۔ کیونکہ فقہ بنی گالویہ میں سیاسی مقاصد کے لئے بے دھڑک جھوٹ بولنا ایک مستحسن امر ہے ، اس لئے اسی قسم کے شگوفوں کی آج کل سوشل میڈیا پر بھر مار ہے اور انہیں لطیفوں کی کثرت سے تنگ آکر میں نے سوچا کہ اس منصوبے کا تجزیہ تحریک انصاف کے شوشل میڈیا پیجز کے بجائے اصل حقائق کی روشنی میں کیا جانا اشد ضروری ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ فی الوقت مسئلہ کسی کو بھی پشاور میٹرو کے قیام سے نہیں۔ جہاں تک میری ذاتی رائے کا تعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ معیاری ٹرانسپورٹ تک رسائی ، صحت اور تعلیم کی طرح عوام کا بنیادی حق ہے اور اگر اس مد میں عوام کے ٹیکسوں سے جمع شدہ سرکاری خزانے سے سبسڈی دینی بھی پڑے تو اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ چلانا ایک مہنگا مگر لازمی سودا ہے۔ اسی لیئے دنیا بھر میں تقریباً ہر بڑا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم حکومتی سبسڈی پر کافی حد تک انحصار کرتا ہے۔ مثلاً لندن کا مشہور زمانہ ٹیوب سسٹم ہی دیکھ لیں۔ لندن ٹیوب سسٹم کی مجموعی سالانہ آمدنی کا تقریباً 23 فیصد سبسڈیز کی مد میں حاصل ہوتا ہے جس کی مالیت 2.4 ارب برطانوی پاؤنڈ بنتی ہے ۔ اگر اس کو پاکستانی روپوں میں تبدیل کیا جائے تو اس کی مالیت آج کے ایکسچینج ریٹ کے حساب سے تقریباً 315 ارب روپے بنتی ہے ۔ یہ اس ملک کی روداد ہے جہاں کی اوسط سالانہ فی کس آمدنی 28،000 ہزار امریکی ڈالر سے زیادہ ہے جبکہ لندن شہر میں یہ 58،000 ہزار ڈالر فی کس بنتی ہے! اسی طرح نیویارک کے سب وے کا جائزہ لیا جائے تو اس کے منتظم ادارے ایم ٹی اے کی ویب سائٹ پر موجود مالیاتی رپورٹس کے مطابق سال 2015 میں ادارے کو تقریباً 4.9 ارب ڈالر سبسڈی کی مد میں حاصل ہوئے جو پاکستانی روپوں میں 513 ارب بنتے ہیں۔ یقیناً امریکہ میں فی کس سالانہ آمدنی بیان کرنے کی ضرورت نہیں جبکہ اگر لاہور میڑو کا جائزہ لیا جائے تو خود تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق یہ 27 ارب روپے سالانہ سے زیادہ نہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب پبلک ٹرانسپورٹ کو چلانے اور عوام کی پہنچ میں رکھنے کے لیئے برطانیہ جیسے ملک میں، جس کی فی کس سالانہ آمدنی ہماری فی کس سالانہ آمدنی سے 1800 گنا زیادہ ہے ، 300 ارب روپے کی سبسڈی دینی پڑتی ہے تو پاکستان میں بغیر کسی حکومتی امداد کے کس طرح عوام کی اس تک رسائی ممکن بنائی جاسکتی ہے؟ اگلی سطور میں ہم بھی پرکھیں گے پشاور میٹرو پر کسی قسم کی سبسڈی نہ دینا کس قدر ممکن اور قابل عمل ہے۔
جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا، میں ذاتی طور پر میٹرو جیسے منصوبوں کا حامی ہوں اور پشاور میٹرو میرے لئے کوئی سوتیلی نہیں کہ میں اس کی مخالفت کروں۔ بدقسمتی سے اس قسم کے منصوبوں کی مخالفت خود تحریک انصاف کے چیئرمین کرتے رہے ہیں۔ موصوف نے لاہور میٹرو کو کیا کیا القابات عطا نہیں کئے؟ کون سی پھبتی ایسی ہے جو انہوں نے اس پر نہ کسی ہو۔ چار سال پنجاب حکومت کا میٹرو سسٹم پر مذاق اڑانے کے بعد جب ان کی نظر اپنے صوبے پر پڑی، جہاں سوشل میڈیا اور فوٹو شاپ کے باہر کوئی قابل ذکر ترقیاتی کام دکھانے کے لیئے نہیں تھا ، تو جناب کو الیکشن سے پہلے حکومت کے آخری سال میں میٹرو بنا نے کی سوجھی۔ جب ان کو ان ہی کے گزشتہ بیانا ت اس حوالےسے یاد دلائے گئے تو حضرت نے فوراً لاگت کا شوشہ چھوڑا کہ پنجاب کے کرپٹ حکمرانوں نے مہنگی میٹرو بنائی، ہم صرف 13ارب روپے میں اس سے اچھی میٹرو بنا کر دکھائیں گے۔ پھر جب کوکین کا نشہ اترا تو ان پر منصوبے کی اصل لاگت منکشف ہوئی جو خیر سے منصوبہ شروع ہونے سے قبل ہی 57 ارب روپے تک جا پہنچی ہے! اب کیا کریں؟ تو کپتان نے رہی سہی عزت بچانے کے لیے حسب سابق خود سامنے آنے کے بجائے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو اس منصوبے کے فضائل بیان کرنے پر لگا دیا ۔ اب ان کی سوشل میڈیا ٹیم جھوٹ بولنے میں روز افزوں ترقی کر رہی ہے۔ ذیل میں ہم تحریک انصاف کی جانب سے کیے جارہے چیدہ چیدہ دعوؤں کا حقائق کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں اور سچائی کو افسانے سے الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
1۔شوشل میڈیا پر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ منصوبے کی لاگت 33 ارب روپے ہے۔ یہ ایک ایسا سفید جھوٹ ہے کہ یقین نہیں ہوتا کوئی دن دہاڑے اس قدر ڈھٹائی سے دروغ گوئی کر سکتا ہے! منصوبے کی کل لاگت تقریباً 57 ارب روپے ہے جس میں سے ایشائی ترقیاتی بینک تقریباً 486.5 ملین ڈالر یعنی 50 ارب روپے بطور قرضہ فراہم کرے گا، جبکہ 7 ارب خیبر پختونخوا حکومت فراہم کرنے کی پابند ہے۔ مزید تفصیل ایشائی ترقیاتی بینک کی ویب سائٹ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔ پشاور میڑو کا پراجیکٹ نمبر 002-48289ہے۔ یاد رہے کہ خود تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق لاہور میٹرو 34 ارب کی لاگت سے تعمیر ہوئی تھی۔
2۔دعویٰ کیا جارہا ہے کہ منصوبے پر حکومت کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہوگا بلکہ ایشائی بینک اسے اپنے خرچ پر تعمیر کرے گا اور دس سال تک منافع 25-75 فیصد کے حساب سے پختونخوا حکومت سے بانٹے گا اور دس سال بعد مکمل منافع پختونخوا حکومت کی ملکیت ہوگا! اب آتے ہیں حقیقت کی جانب۔۔ اول یہ کہ منصوبے کے لئے پختونخوا حکومت کا ایک پیسہ بھی خرچ نہ ہونے کا دعویٰ سفید جھوٹ ہےجس کی حقیقت اوپر بیان کی جاچکی ہے۔ دوسرے یہ کہ منصوبے کے لئے ایشائی بینک گرانٹ نہیں، قرضہ فراہم کر رہا ہے ، جو کہ پانچ سال میں سود سمیت واپس کیا جانا ہے۔ ایشائی بینک کی اپنی پراجیکٹ دستاویزات کے مطابق ( جو ان کی ویب سائٹ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں) اس قرضہ پر شرح سود لائی بور (لندن انٹر بینک آفر ریٹ) جمع 0.6فیصد سالانہ ہوگی، جبکہ کمٹمنٹ چارجز کی مد میں سالانہ 0.15 فیصد بھی وصول کیے جائیں گے۔ آج کے لائی بور ریٹ کے حساب سے اس قرضہ پر موثر شرح سود 2.51 فیصد بنتی ہے۔ یوں نہ صرف اصل قرضہ کے واجبات کی مد 486.5 ملین ڈالر پختونخوا حکومت کے ذمہ ہیں بلکہ اس قرضے پر 64.5 ملین ڈالر سود کی مد میں بھی حکومت کو ہی ادا کرنے ہوں گے۔ اب یہ کہ اس منصوبے سے منافع کمانا قابل عمل ہے بھی کہ نہیں؟ اس کا جائزہ آگےچل کر لیتے ہیں!
3۔دعویٰ کیا جارہا ہے کہ حکومت ایک پیسے کی بھی سبسڈی فراہم نہیں کرے گی، جبکہ منصوبہ اس کے باوجود نہ صرف قابل عمل ہے بلکہ منافع بخش بھی! جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا کہ منصوبے کی کل لاگت تقریباً 57 ارب روپے ہے۔ جس میں اگر قرض پر سود کی ادائیگی کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ 63.76 ارب روپے بنتی ہے ۔ ہم مسافروں کی تعداد تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق ہی تسلیم کرکے حساب لگاتے ہیں، یعنی 480،000 مسافر روزانہ۔ اب منصوبے کی کل لاگت کو فی مسافر 5 سال کے عرصے پر تقسیم کرتے ہیں (5سال اس لئے کیونکہ یہ قرض کی واپسی کی مدت ہے)۔ تحریک انصاف کے اپنے تخمینے کے مطابق 480،000 مسافر روز کے حساب سے 5 سال میں پشاور میٹرو سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد 864 ملین بنتی ہے۔ اس حساب سے اگر 5 سال میں منصوبے کی صرف لاگت وصول کرنی ہو تو فی مسافر روزانہ تقریباً 74 روپیہ کرایہ وصول کرنا پڑے گا۔ یاد رہے کہ یہ صرف منصوبے کی لاگت کی وصولی کے لئے ہے۔ منصوبہ چلانے کے لئے جو رواں اخراجات آئیں گے ، مثلاً بسوں کے لئے ایندھن، ملازمین کی تنخواہیں، مرمت و دیکھ بھال وغیرہ، وہ اس کے علاوہ ہیں! انصافی ذرائع کے مطابق منصوبے میں 450بسیں چلیں گی جن کا مجموعی روٹ (آن کاریڈور اور آف کاریڈور ملا کر) 170 کلومیٹر کے قریب ہے ۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ ایک بس ایک کلو سی این جی میں (یہ تفصیل آنا باقی ہے کہ بسیں ڈیزل پر چلیں گی یا سی این جی پر)10 کلومیڑ سفر کرے گی، تو ایک دن کا ایندھن خرچ تقریباً (دوطرفہ چکر ملا کر) 11لاکھ 94ہزار روپے ہوگا، جو تقریباً 2.5 روپے فی مسافر بنتا ہے۔ اگر یہی حساب ڈیزل کے مطابق (6 کلومیٹر فی لیٹر)کیاجائے تو فی مسافر ایندھن کی لاگت 4.60روپے ہوجاتی ہے۔ ہم فی الحال سی این جی کا تخمینہ ہی استعمال کرتے ہیں تو اب فی مسافر کرایہ 76.5 روپے ہوجاتا ہے۔ اب آتے ہیں ملازمین کی تنخواہوں کی جانب۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ منصوبے کو چلانے کے لئے فی 500 مسافر ایک ملازم درکار ہوگا۔ اس طرح ملازمین کی کل تعداد تقریباً 960 بنتی ہے، ہم آسانی کے لئے اسے 1000 کرلیتے ہیں۔ اگر ان ملازمین کو اوسط 30،000 روپے ماہانہ کے حساب سے تنخواہ دی جائے تو فی مسافر لاگت تقریباً 2.08 روپے بنتی ہے۔ مرمت اور دیکھ بھال کے لئے بھی ہم 2 روپے فی مسافر فی دن فرض کر لیتے ہیں۔ سو یہ موٹے موٹے اخراجات ملا کر فی مسافر یومیہ کرایہ کم از کم 80.58 روپے بنتا ہے۔ دیگر اخراجات کا تخمینہ لگانا مشکل ہے مگر ہم یہ تقریباً 3.5 روپے فی مسافر یومیہ فرض کر لیتے ہیں۔ پھر مزید یہ کہ خود تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق ایشائی بینک اس منصوبے پر 10سال تک منافع کمائے گا۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ مجموعی شرح منافع انتہائی مناسب 15فیصد مقرر کی جاتی ہے، اور خالص منافع 10سے 11 فیصد کے درمیان رکھا جاتا ہے تو فی مسافر یومیہ کرایہ کم ازکم 95 روپے مقرر کرنا پڑے گا، جو آگے چل کر افراط زر کے باعث 100 روپے سے بھی زائد ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ خود تحریک انصاف کے دعووں کے مطابق لاہور میٹرو میں 20روپے کے ٹکٹ پر 40روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے ، سو اس کی کل لاگت 60روپے فی مسافر ہوئی ! سو کس منہ سے تحریک انصاف کی جانب سے پشاور میٹرو کو دنیا کی سستی ترین سواری قرار دیا جارہا ہے، میری سمجھ سے تو باہر ہے۔
4۔اب آپ اندازہ لگائیں کہ تقریباً 100 روپے فی مسافر لاگت والا منصوبہ عوام کی جیب پر کتنا بوجھ ڈالے گا ، اس شہر میں جہاں فی کس سالانہ آمدنی 1500 ڈالر یا تقریباً 430 روپے یومیہ ہو۔ اس صورتحال میں کیا اسے عوامی منصوبہ قرار دیا جاسکتا ہے جو شہریوں کی اوسط یومیہ آمدنی کا قریب قریب ایک چوتھائی ہڑپ لے؟منافع کا مارجن رکھے بغیر بھی فی مسافر کرایہ تقریباً80 روپے بنتا ہے، جبکہ اوپر بیان ہوچکا کہ لاہور میٹرو سبسڈی سمیت فی مسافر 60 روپے لاگت رکھتی ہے! کیا ایسی صورتحال میں حکومت کا اس منصوبے پر منافع کمانے کا سوچنا بھی اخلاقیات کا جنازہ نکالنے کے مترادف نہیں؟
جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں ، میں میٹرو منصوبوں کا مخالف نہیں۔ میری رائے میں اگر ان پر حکومت کو سبسڈی دینی بھی پڑے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کرنے والا معاملہ ہے، کوئی احسان نہیں۔ مقصد یہاں صرف انصافی دوستوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ چیزوں کو اپنے گم گشتہ لیڈر کی بڑھکوں کے بجائے ان کے اصل تناظر میں دیکھنے کی عادت ڈالیں۔ اگر آپ سب نے خان صاحب کی اندھی تقلید میں 4 سال میٹرو پر پھبتیاں نہیں کسی ہوتیں تو آج آپ کو عوامی مفاد کے ایک منصوبے کے جواز کے لئے نہ تو جھوٹ بولنا پڑ رہا ہوتا نہ ہی احمقانہ جواز تراشنے پڑ رہے ہوتے۔

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply