آنہ روٹی، دال مفت/ناصر خان ناصر

ہمارے بچپن میں سبھی دیہاتوں میں تندور ہر گھر میں موجود ہوا کرتے تھے۔ ان کو گھر کے دالان یا برآمدے جن کو ویڑھا کہا جاتا تھا، کے ایک کونے میں یا چھت پر اونچا کر کے بنایا جاتا تھا۔
ہمارے سرائیکی وسیب میں سردیوں میں کپاس کی فصل چننے کے بعد اس کی مضبوط لکڑیاں کاٹ کر گھر کے صحن کے ایک کونے میں جمع کر لی جاتی تھیں۔ انھیں ویراٹھیاں کہا جاتا تھا۔ پھر یہ تقریبا ًسارا سال ہی تندور جلانے کے کام آیا کرتی تھیں۔ تندور میں گوبر کی تھاپیوں سمیت ان ویراٹھیوں سے آگ جلا کر اس پر کسی ساگ، دال یا سبزی کے سالن کی پتیلی چڑھا دی جاتی تھی۔ سالن بھی پکتا رہتا اور تندور بھی تپ جاتا یعنی اس کی کچی مٹی کی دیواریں تپش سے سرخ ہو جاتی تھیں۔ تب اس پر روٹیاں لگائی جاتی تھیں جن کے لیے کافی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔
روٹیاں پکا کر انہی جلتے ہوئے انگاروں پر دودھ کو بھی ابال لیا جاتا تھا۔ ہر تندور اک اونچائی پر بنایا جاتا تھا تاکہ آگ بجھنے کے بعد اس کی راکھ بآسانی نکالی جا سکے۔
اس راکھ سے بے شمار کام لیے جاتے تھے۔ گھر کے سارے گندے برتن راکھ مل مل کر دھوئے جاتے تھے۔ ان جلے کوئلے سے سبھی لوگ اپنے دانت بھی صاف کیا کرتے تھے۔ اس کام کے لیے نیم یا اخروٹ کی لکڑی کے مسواک بھی استعمال کر لیے جاتے تھے۔ راکھ کو گندگی صاف کرنے کے علاوہ کھیتوں میں بطور کھاد بھی ڈال دیا جاتا تھا۔ گائے بھینسوں اور بیلوں کی گوہر میں راکھ اور کوئلے ملا کر جلانے کے لیے بطور ایندھن تھاپیاں بھی بنائی جاتی تھیں۔
قصبوں اور شہروں میں بھی تندور والیاں بٹھیارنیں موجود ہوتی تھیں۔ یہ بچوں کو مکئ کے دانے، چنے، چاول اور بھٹے بھی بھون دیا کرتی تھی۔ سرائیکی موضع جات میں انھیں تتڑی کہا جاتا تھا۔
ہمیں اپنے بچپن میں گرم دوپہروں میں ان تندور والیوں سے روٹیاں لگوا کر لانے کی ڈیوٹی یاد ہے۔
ہمارے گھر میں گندم گاؤں سے آ جایا کرتی تھی۔ والدہ محترمہ اسے ایک بار پھر دھو کر سکھا لیتی تھیں۔ پھر یہ گندم مقامی چکی سے پسوا لی جاتی تھی۔
والدہ محترمہ آٹے کو اچھی طرح گوندھ کر اس کے پیڑے بنا کر مٹی کی ایک پرات میں رکھ دیتی تھیں۔ انھیں اوپر سے گیلے دسترخوان یا رومال سے ڈھانپ دیا جاتا تھا تاکہ یہ خشک نہ ہو جائیں۔
گھر سے کچھ دور ہی چند گلیاں چھوڑ کر تندور والی “دائ اماں” کا ڈیرہ تھا۔ گھنے سایہ دار درختوں تلے دو چار چارپائیاں بچھی رہتی تھیں۔ ایک سائبان تلے دائ اماں تندور میں روٹیاں لگایا کرتی تھیں۔ بچے ایک قطار میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کیا کرتے تھے۔ وہ بے حد سستے زمانے تھے، دائ اماں پانچ روٹیاں لگانے کا “بھاڑہ” ایک آنہ لیا کرتی تھیں۔ جو بچے پیسے نہیں دیتے تھے ان سے پانچ پیڑے لگانے کے معاوضے میں ایک پیڑا لیا جاتا تھا۔ اس مزدوری میں ملے آٹے کو ملا کر دائ اماں علحیدہ روٹیاں بنا کر مسافروں کو بیچا کرتی تھیں۔ یہ روٹیاں اس وقت صرف ایک آنے میں عام مل جاتی تھیں۔ ان دنوں مزدوروں کے لیے سستے ہوٹلوں پر “آنہ روٹی، دال مفت” کے سائن لگائے جاتے تھے۔ وہ روٹیاں بھی بڑی بڑی اور خاصی موٹی ہوا کرتی تھیں۔ کسی عام شخص کا پیٹ ایک روٹی اور سالن سے ہی بھر جایا کرتا تھا۔
تندور سے آئ گرم گرم روٹیوں کو خالص دیسی گھی یا مکھن سے “چوپڑ” لیا جاتا تھا۔ پیاز اور ہری مرچ کا کچومر بنا کر دو گرم گرم روٹیوں کے درمیان رکھ دیا جاتا تو وہ بھاپ کی حدت سے ہی کچھ نرم اور میٹھے ہو جاتے تھے اور بہت مزےدار لگتے تھے۔
تندور میں بینگن بھون کر ان کا بے حد سوندھی خوشبو والا بھرتہ بنایا جاتا تھا۔ تندور کی ہلکی آنچ پر پکی ہوئی خالص دودھ کی کھیر ہمیں آج تک نہیں بھولتی۔ خالص دودھ کو بھی ہلکی آنچ پر ابالا جاتا تھا تو اس پر ایک بے حد موٹی بالائی کی تہہ آ جاتی تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply