جاگا مورا موہن رے۔۔فاخرہ نورین

گھسا پٹا سہی مگر خاصا حقیقی لطیفہ ہے کہ ایک نے دوسری سے پوچھا
یہ لڑکے کیا باتیں کرتے ہیں؟
دوسری نے کہا وہی جو ہم لوگ کرتی ہیں ۔
پہلی کے کان لال ہو گئے دھواں اس کے کانوں سے نکلااور وہ معصومہ منہ پر ہاتھ رکھے بولی
ہائے اللہ کتنے گندے ہیں لڑکے۔

لطیفہ سن کر زبیر کا تبصرہ میں نے اعتراف فن کے زمرے میں شمار کیا ۔اس کا کہنا تھا کہ،گندے لڑکوں کے کانوں میں اگر وہ گفتگو پڑ جائے جو تعلیم یافتہ اور خصوصاََ تدریس سے وابستہ عورتیں آپس میں کرتی ہیں تو دھواں نکاسی کی ہر ممکن جگہ سے نکلنے کے امکانات روشن ہیں ۔

زبیر کا اپنا ذہن اور دل باکرہ تھے ، ان کی رسم افتتاح ہماری شادی سے پہلے کی گفتگو میں میری لسانی کاوشوں سے ہوئی۔اسے اچھا لگتا تھا، کھلی کھلی باتیں کرتی، بے باکی سے قہقہے لگاتی، ذومعنی جملے اچھالتی شوخ و شنگ پڑھی لکھی ایسی بیو ی کا تصور، جو تعلیم کے مقدس پیشے سے وابستہ تھی۔ پیغمبری پیشے کے ساتھ ایک خواہ مخواہ کی عقیدت کے ہالے میں رکھے وہ اس مجموعہ اضداد لڑکی کی قربت کا نہایت خواہش مند ایک مرتبہ پھر شادی کے کھونٹے سے بندھ گیا ۔اسے امید نہیں یقین تھا کہ،کولیگز اور دوستوں میں فقرے اچھالتی کھیلتی کھالتی شریر بیوی قربت اور رفاقت کو رنگین بنائے رکھے گی،زندگی میں ادبیت اور تہذیب شرارت کی تازگی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے آئے گی۔اس نے وعدہ لیا کہ میں یونہی ہنستی ہنساتی رہوں گی ۔
میں خود رشتے کی روایتی شکل و صورت سے سخت بیزار ہوں ۔

ہر شادی اپنی مباشرتی اور معاشرتی شکل میں اتنی یکساں اور یکسانیت کا شکار ہوتی ہے کہ میرے جیسے تنوع پسند شادی سے متنفر ہو جاتے ہیں ۔
روز مونگ کی پتلی دال وہ بھی کئی سال کھانی ہو تو چٹنی اچار سلاد مربے کا وافر اور تازہ دم ذخیرہ ساتھ رکھنا ضروری ہے ۔ میں نے سرکہ اور تیل مسالہ جات اچار کے ساتھ ساتھ کچھ خفیہ اجزائے ترکیبی بھی ساتھ رکھ لیے اور۔۔

ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا۔۔

گاتی اس کے سنگ ہو لی۔وہ البتہ مونگ کی پتلی بے نمک دال کھاتا اور ان جانے میں اسلامی شرعی حدود کی پابندی اور عذاب و ثواب کے چکروں میں الجھا یہی سمجھے بیٹھا تھا کہ اب مونگ کی جگہ ماش کھائی جائے گی ۔اس نے ماش کی لیس اور اینٹھنا نہیں سنا تھا اور میں اس کو بتانے والی تھی کہ ماش دال کو فرائی کرنے سے اس کی لذت کتنے گنا بڑھ سکتی ہے ۔
یہ پہلا سبق تھا کتابِ بیاہ کا۔۔

شادی ثواب نہیں سواد کا معاملہ ہے ، لڑائی میں رفیق حیات کا منہ بند کرنے کے خوبصورت طریقے بھی موجود ہیں، حظ اور رومان جگہوں اور اعضاء کے پابند نہیں، جنگ کو محبت سے کیسے جیتا جا سکتا ہے، محبت کو میدان جنگ سمجھنا بھی ایک پر لطف تجربہ ہو سکتا ہے ۔
میاں بیوی ہونا ازلی دشمنی اور ابدی دوستی کا حسین تضاد ہے
شادی کا مطلب ہر بات کو بری بات کہنا نہیں بلکہ بری بری باتیں کرنے کاموقع اور شریک جرم مہیا ہونا ہے ۔ یہ اور دیگر بے شمار ایسے اصول جو دراصل ایک روایتی شادی کی کسوٹی اور لغت میں بے اصولیاں قرار دیے جاتے ہیں، ہماری شادی کا دستور قرار پائے ۔

اس سادہ کو شوخ بناتے اور بے راہ روی کی راہ پر لاتے ہر چند میرے ہاتھ قلم ہوئے، کئی بار تلخ جام پینے پڑے، اس کو سمجھانا پڑا، لیکن اس سارے عمل میں چس کی اچھی خاصی مقدار ہم دونوں کے حصے میں آئی۔ جب دال ماش زیادہ پھیکی ہو جائے اور تازه مسالہ دستیاب نہ ہو ہم یادوں کے ہاون دستے میں اس چس کو مل کر گھوٹتے ہیں، اسے چھانتے ہیں، دو ایک قہقہوں اور آنکھوں کی چمکتی شرارت میں ایک آدھ جام بھی شکر دوپہرے بھنڈی کے ساتھ لسی کی کیفیت طاری کر دیتا ہے

شادی کے چند دن بعد فیس بک پر ایک تصویر کسی دوست کی وال پر دیکھی۔۔
گردن سے لے کر نصف رانوں تک کا مجسمہ جس کے اعضائے تناسل کی جگہ دماغ بھرا تھا
آہا واقعی میرے ذاتی دماغ کی تو یہی حالت تھی، سو رومان پرور جذبات سے مغلوب ہو کر تصویر فیس بک سے اتار کر واٹس ایپ پر چڑھا دی۔لیکن زبیر کی بے اعتنائی سے لگا کہ اس نے کہیں بھی نہیں چڑھائی ۔
تصویر موصول ہونے کے بعد ملاحظہ بھی کر لی گئی لیکن کال نہ میسج ، زیرو رسپانس ۔
ابے کیا دھنیا پی کر بیٹھا ہے
میں نے دل ہی دل زبیر کو لائن حاضر کر کے اپنے ٹپوری انداز میں گلہ کیا اور اس سرد مزاجی کی وجہ پوچھی۔اسی دوران اس کی کال آ گئی اور روٹین کی بات چیت، حال احوال اور مزاج پُرسی کے بعد مصروف ہوں کہہ کر بند ہو گئی تو میں نے بے صبری سے دوبارہ ملا لی۔
جی بولیں، وہ روٹھا روٹھا، خشک خشک سا بولا۔
تو نے تصویر دیکھی؟ میں نے زبان کے ساتھ لہجے کو بھی لسوڑا کیا ۔
میں مصروف ہوں، آپ سے بعد میں بات کرتا ہوں ۔ اس نے لسوڑے کو گرم لہجے سے اتارنے کی کوشش کی ۔
کیا مصروف مصروف کی رٹ ہے، تم کچھ زیادہ مصروف نہیں آج؟
میں نے چمک کر کہا ۔میں نے تصویر بھیجی، تم نے دیکھی بھی اور منہ بند کر کے بیٹھے ہو، رائے تو دے نا مڑا ۔
میں نے دوستانہ میچ شروع کیا مگر ادھر سے باؤنسر میری ناک کا بانسا توڑ گیا ۔
میں اس قسم کی گندی بات پسند نہیں کرتا، مجھ سے اس طرح کی کسی فضول بات کی توقع نہ رکھیں اور آپ بھی شرافت کی حد پار نہ کریں ۔
ابے تیری تو
گندی بات؟ تم آرٹ کو گندی بات کہتے ہو اور جنس کو بے ہودہ کہتے ہو، خود ہی کہا تھا مجھ سے ہر بات کرنا ۔اب کی یہ  تو گندی لگ رہی ہے۔اتنی گندی سوچ میرے شوہر کی نہیں ہو سکتی ۔
میں نے اسے یک جنبش زبان منصب شوہری سے معذول کر دیا ۔( پنڈ میں لوگوں کی اخلاقیات کے ٹھیکیدار تیرا بیڑہ غرق، تجھے اپنے من پسند ازدواجی تعلقات کی تبلیغ کے لئے یہی آدمی ملا تھا کیا ۔اور خود مجھ پر شرم کی بارش کہ مجھے بھرے زمانے میں یہی آدمی شادی کے لئے ملا).

آپ میری بیوی ہیں اور آپ کی تربیت میری ذمہ داری ہے، کل کلاں کو مجھ سے پوچھا جائے گا ۔
اس نے پنڈت سے پڑھا سبق دوہراتے ہوئے خاصی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ میرے تو تلوؤں سے لگی تو پھر بجھتی کاہے۔
او ہیلو کس زمانے کی باتیں کر رہے ہو؟ میں ضرورت سے زیادہ عاقل بالغ تعلیم و تربیت یافتہ ہوں ۔اور تمہاری بیوی ہوں، اولاد نہیں ۔ کون پوچھے گا تمہیں؟ نا بھائی جی قبر آپنی آپنی ۔ شادی کی ہے میں نے، مدرسہ جوائن نہیں کیا ۔
میں نے منہ سے کہے بغیر اس کی اپنی تربیت کی اشد ضرورت واضح کی۔

میں ادب اور آرٹ کی دلدادہ ہوں، ہمارے ہاں کوئی بات بھی گندی بات نہیں، بس بات ہے ۔اور اگر یہ گندی بات ہے بھی تو میں تو کروں گی ۔تم نہیں کرو گے تو کسی اور سے کروں گی مگر کروں گی ضرور ۔اب بتاؤ  تم سے کروں یا ۔۔۔۔۔۔

مجھ سے، مجھ سے، مجھ سے کرو کسی اور سے نہیں ۔مجھے ابھی صرف جملوں کی سمجھ آنا شروع ہوئی ہے یہ تصویریں وغیرہ میرے بس میں نہیں سادہ آدمی ہوں ،مگر سیکھ جاؤں گا، تم سکھاؤ مجھے سمجھاؤ۔بس شروع میں ہتھ ہولا رکھنا، مجھے عادت نہیں ہے نا۔
وہ میری بات کاٹ کر آمادگی سے زیادہ خود سپردگی کے مقام پر تھا ۔
پس میں نے اس کی تربیت شروع کر دی ۔

تربیت کا اگلا مرحلہ تصویری اور زبانی حدود سے نکل کر ہتھالی حد میں داخل ہو گیا ۔

ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، یہ پڑھتے سنتے میں ادھیڑ عمری کی دہلیز تک آ پہنچی لیکن نہ تو کوئی کامیاب مرد میرے ہاتھ کا محتاج و منتظر ملا نہ میں اپنی ہینڈی طاقت کا اندازہ لگا پائی۔ شادی کے ابتدائی دنوں ہی سے زبیر مالی نقصان کی وجہ سے شدید ناکام ہونے کے پیریڈ سے گزر رہا تھا ۔یہ وہ دن تھے جنھیں یاد کر کے جھرجھری آتی ہے، اسے بھی اور مجھے بھی ۔احباب اس کی مالی حالت اور میرے حالات کو دیکھتے ہوئے اس شادی کی ناکامی کی پیش گوئیاں کیے جا رہے تھے، ملنے ملانے والیاں میرے گلے کان اور خالی بازوؤں کو دیکھتیں، اور اپنے اپنے انداز سے روایتی سوال پوچھتیں۔
ہیں نی کی پایا سو
نی کڑیے کی دتا سو

میں انھیں کھل کر بلکہ ڈایا گرام بنا کر بھی بتا سکتی تھی کہ اس نے کیا پایا اور کیا دیا لیکن اس میں نقص امن کا خطرہ تھا سو چپ رہتی۔ البتہ کبھی کبھی اس سماجی کتیاپے کی نذر ہو کر اپنے شوہر کو ضرور یہ سنا کر اذیت میں مبتلا کرتی کہ شادی میں جو کچھ اس نے مجھے دیا تھا وہ عموماً دیگر تام جھام کے ہمراہ دیا جاتا ہے ۔غیر روایتی شادی کی خواہش رکھنے کے باوجود میں روایتی مطالبات اور اطوار اختیار کرنے پر شرمندہ ہوتی لیکن سماجی جانوروں کی نسل سے ہونے کی وجہ سے اس سب سے بچنا بھی مشکل ہو گیا تھا ۔مجھے احساس ہوتا رہتا کہ اس مشکل وقت میں مجھے زبیر کا ساتھ دینا ہے کیونکہ میرا شوہر ہونے سے پہلے وہ میری محبت اور میرا دوست ہے ۔

میں لاڈ پیار، اس کے ناز اٹھانے اور ہنسی مذاق سے اس عف عف عف کی تلافی کی کوشش کرتی جو فرسٹریشن اور سماجی دباؤ کی دخل در معقولات و ذاتیات کی بدولت پڑے دوروں کے دوران میں اکثر کرتی رہتی۔

ہم زبیر کے کزن اور بھائی کے ساتھ ایک مارکیٹ کی ایلیویٹر میں کھڑے تھے ۔زبیر اپنی مالی مشکلات میں گھرا انتہائی سنجیدہ اور خاموش کھڑا تھا ۔نوید اور عامر اس کی گمبھیر خاموشی کے احترام میں چپ تھے جب یہ انوکھا خیال میرے دماغ میں آ کودا ۔

یہ سنہری موقع ہے فاخرہ، تمہارا شوہر اس وقت ایک ناکام آدمی ہے، تمہارا ہاتھ اسے کامیاب بنا سکتا ہے ۔
میرا ہاتھ اس کے پیچھے جانے لگا تو ایک وسوسه میرے دماغ میں آن رینگا۔
اور اگر تمہارا ہاتھ اس کے لئے زیادہ مناسب ثابت نہ ہوا تو پھر؟
اوکے چلو پورا ہاتھ نہیں، انگلی پیچھے رکھ کر دیکھتی ہوں ۔
انگلی پر ناچتے مرد کا مجھے نہیں پتہ لیکن میرا اپنا مرد انگلی پر اچھلتا میں نے خود دیکھا ۔ساتھ ہی اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔
زوبیر پاؤں پر زیادہ زور تو نہیں پڑا ، سوری بے دھیان کھڑی تھی میں ۔
میں نے تسلی دینے کے انداز میں اس کی پشت سہلائی اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔وہ اس کے بغیر بھی چپ ہی رہتا، البتہ غصہ اس نے چھپا لیا ۔مہمانوں کی رخصتی کے بعد اس نے مجھے کٹہرے میں کھڑا کر لیا ۔
یہ کیا بدتمیزی تھی بے بو، شرم نہیں آتی ہر بار عجیب سے عجیب کام کرتی ہو۔اپنے شوہر کے ساتھ کوئی ایسا کرتا ہے کیا؟

اچھا، شوہر سے نہیں کرتے؟
میں نے ایسی صورت بنائی جس میں سوال سے زیادہ ارادہ پوشیدہ تھا کہ شوہر سے نہیں تو پھر اگلی باری کسی دوست کی ہو گی۔
وہ بھی مجھے پڑھنے لگ گیا تھا سو فوراً  بول اٹھا۔
نہیں نہیں شوہر ہی سے کرو لیکن موقع محل دیکھ لو، سب کے سامنے، پبلک میں، مطلب حد ہے یار
اچھا چلو ادھر تم اور میں ہی ہیں ادھر تو میں تمہاری کامیابی کی کوشش کر سکتی ہوں نا

میں نے اس کی طرف انگلی اٹھائی عہ پہلے تو شوہرانہ غصہ اور خبرداری شکل لیے کھڑا رہا لیکن پھر اپنی ناکامی بچانے کیلئے گھر بھر میں بھاگنے لگا۔لیکن عورت کی یہ ادا بھی تو خاص ہے کہ بھلے آدمی جتنا بھاگے اسے اگر کسی کے پیچھے ہاتھ رکھ کر کامیاب بنانا ہو تو پھر وہ ہاتھ رکھ بغیر نہیں ٹلتی۔
اس کامیاب آدمی کے پیچھے میرا ہاتھ ایک طویل عرصے سے گاہے بگاہے رہتا ہے ۔ شروع شروع میں یہ ہاتھ بے خبری میں اسے جا لیتا وہ احتجاج کرتا تو گینگ آف واسے پور کا ڈائیلاگ سنا دیا جاتا۔
یہ وسے پور ہے، یہاں کبوتر بھی جب اڑتا ہے تو ایک پنکھ ہلاتا ہے، دوسرے سے اپنی ناکامی چھپاتا ہے ۔
فلیٹ نمبر پانچ ایسے ہی کامیابی بانٹتے اور ناکامی پکڑتے ہاتھ کی وجہ سے زبیر کے لئے واسے پور بن گیا ہے ۔البتہ اب فرق یہ پڑا کہ وہ عموماً حملے کے لئے تیار، اور پیش بندی کے طور پر مورچہ بند ملتا ہے۔

شروع شروع میں تو اس کے کانوں سے دھواں نکلتا اور آنکھوں میں شرم کی

لالی اترتی لیکن کچھ ہی مہینوں بعد وہ رواں بلکہ چالو ہو گیا اور پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا، ایسا کھلا ۔
فرانس میں سٹوڈیو اپارٹمنٹ کے دروازے پر کھڑا زبیر کمرہ لاک کر رہا تھا جب اس کی آنکھ میں خارش ہونے لگی۔کارڈ کی کو ہاتھ میں پکڑے وہ دوسرے ہاتھ سے آنکھ ملنے لگا تو میری مامتا ایک بار پھر جاگ اٹھی ۔
کیا ہے زبیر آنکھوں کو کیا ہوا؟
کچھ نہیں بے بی خارش ہو رہی ہے، دیکھیں کچھ پڑ گیا ہے شاید بال ہے ۔
اس نے اپنی منی منی آنکھیں بند بند میرے سامنے پیش کیں ۔میں نے پلکوں کی چھدری جھالر اٹھا کر دیکھا
ایک چھوٹا سا بال، غالباََ پلک ٹوٹ کر اندر گری تھی ۔ میں نے اسے چن کر نکال دیا ۔رڑک ختم ہوئی تو اس نے پوچھا
کیا تھا؟

بال ہے لیکن سور کا تو نہیں لگ رہا، میں نے پلک کو بغور دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے سنجیدگی سے شرارت کی ۔
نہیں سور کا نہیں ہو گا، میں آپ کے اتنے قریب نہیں ہوا آج صبح سے ۔
اس نے مجھ سے زیادہ سنجیدہ لہجے میں کہا اور جب تک مجھے سمجھ آتی وہ کوریڈور میں بھاگنے کی پوزیشن لے چکا تھا ۔
رک تو، ٹھہر ذرا۔
میں اس کے پیچھے بھاگی اور وہ آگے آگے ۔ہم ہنستے ہنستے تب تک بھاگتے رہے جب تک سیڑھیوں پر کھڑے محوِ چوم چام جوڑے کی مصروفیات میں خلل پیدا ہونے کا ڈر پیدا نہ ہو گیا ۔
ایک ذرا سی میری ہمت اور اس کی سمجھداری اور وسعت قلبی سے
ہمارا رشتہ ان تمام حرکات اور سکنات سے بھر گیا ہے جو صرف حرام اور ناجائز میں روا سمجھی جاتی ہیں چنانچہ ہم بری بات اور اچھی بات کے چکر سے نکل کر نکاحی رشتے میں بے نکاحے مزے بھی لیتے ہیں ۔ہر حجاب اور صنفی امتیاز تقریباً ختم کرنے کا فایده سب سے زیادہ زبیر کو ہوا ہے ۔وہ بیوی کی خدمت اور گرل فرینڈ کی راحت دونوں خانہ ساز انجوائے کرتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

شادی کے تین سال میں ہی زبیر چالو سے چلتر بن چکا ہے، میں اس کی سپیڈ پر کبھی کبھی مشکوک ہو جاتی ہوں،
تم یہ سب پہلے سے جانتے تھے نا. ،ڈرامہ کر رہے تھے سادگی کا؟
نہیں یار آپ نے سکھایا ہے یہ سب، بس اتنا ہے کہ میں اچھا سٹوڈنٹ ہوں ۔
نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ اپنی کمینگی اور ذاتی فحاشی کا الزام بھی میری تدریسی خدمات کو دیتا ہے ۔
ایک صبح جب ابھی ہم بستر ہی میں تھے اور فیس بک پر وہ پوسٹ ٹو پوسٹ پھدکتا پھر رہا تھا، سلام ٹیچر کے عنوان سے ٹیچرز ڈے منانے کی اطلاعات دیکھ کر اس نے مجھے بھی ٹیچر ڈے کی شبھ کامنا پہنچائی ۔
میں تمہاری ٹیچر تھوڑی ہوں پاگل، یہ صرف میرے سٹوڈنٹ مجھے وش کر سکتے ہیں ۔ میں ایک دم ٹیچر بن گئی اور اچھی بات، بری بات کھیلنے لگی۔
ہاں تو تم میری ٹیچر ہو نا، یہ سب فحاشی اور گندی گندی باتیں تم ہی نے تو سکھائی ہیں مجھے ۔
اس نے صدق دل سے مجھے کریڈٹ دیا جو تھوڑا سوچ کر میں نے قبول کر لیا کہ مجھے یاد آ گیا یہ کیسا کنوارا ذہن تھاجومجھ ایسے گبھر کے ہاتھ لگ گیا تھا ۔
البتہ ہر ہونہار طالب علم کی طرح زبیر جب میرے سکھائے سے ایک قدم بھی آگے نکلتا ہے تو میری بھنویں ماضی شکیہ کی عملی تصویر بن جاتی ہیں ۔
ریت سے بنائے مجسموں کی کسی عالمی نمائش کی منتخب تصویریں دیکھتے ہوئے جب میں نے ایک مادر زاد ننگی براؤن عورت کی تصویر بڑی کر کے بیڈروم میں لگوانے کی بات کی تو زبیر نے ماہرانہ بے نیازی سے ایک اور تصویر پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔
یہ والی اچھی ہے یہ آپ والی کا جسم دیکھو بالکل فارغ، ڈھیلا ۔
آوارہ آدمی، تمہیں شرم نہیں آتی عورتوں کو اس طرح دیکھتے ہو، ان پر ایسے غلیظ مردانہ تبصرے کرتے ہو۔
یار ، میں نے تو بس ایک رائے دی، کھول کر تو آپ بیٹھی ہیں یہ سائیٹ۔
تم عورتوں کے جسم پر رائے کیوں دیتے ہو،
آپ بھی تو دیتی ہیں رائے، راہ جاتیوں پر بھی ۔اس نے آئینے کا منہ میری طرف کیا ۔
تو؟ میں تو عورت ہوں، تم عورت تھوڑی ہو۔
میں فیمینسٹ بن گئی، میری پسندیدہ جائے پناہ یہی ہے ۔
لیکن یار آپ تو مردوں کو بھی دیکھ کر تبصرے کرتی ہیں وہ بھی پتہ نہیں کیا کیا، میں نے تو کبھی منع نہیں کیا ۔
اس نے اپنی صفائی کی کوشش کی لیکن میں صفایا کرنے پر تلی بیٹھی تھی ۔
کیوں کرو گے منع، میں تو عورت ہوں، میں تو بس ایک فن پارے کے طور پر دیکھتی ہوں لیکن تم،،،،، تم گندی نظر سے دیکھتے ہو کیونکہ تم آدمی ہو ۔
میں نے آدم کے بیٹے کو کیچڑ میں پھینکا اور وہ
چیختا چلاتا رہا کہ یہ زیادتی ہے، مرد کا بھی کردار ہوتا ہے، وہ ایسا ویسا نہیں ہے، نیز یہ سب وہ پہلے نہیں کرتا تھا، میں نے اس کو یہ سب سکھایا ہے وغیرہ وغیرہ ۔لیکن کہا نا میں بھی سماجی جانور ہوں، سٹیریو ٹائپنگ سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔ اور پھر کیا پتہ یہ بھی ماش کی پھیکی دال کا ذائقہ بدلنے کے لئے ہو۔ کہا تھا نا کہ کچھ اجزائے ترکیبی خفیہ بھی ساتھ لے کر چلی تھی ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”جاگا مورا موہن رے۔۔فاخرہ نورین

  1. انعام کی طرف سے لکھے گئے بلاگ نے آپ کو یہ تحریر لکھنے پر مہمیز کیا اور ہمیں کیا عمدہ شذرہ پڑھنے کو نصیب ہوا۔ بہت عمدہ لکھا ہے ۔

Leave a Reply