ایک حرماں نصیب اسٹیشن کی داستان /عامر عثمان عادل

ایک حرماں نصیب اسٹیشن کی داستان !
جہاں کوئی ٹرین نہیں رکتی
یہ کھاریاں شہر کا ریلوے اسٹیشن ہے جس کے درودیوار پہ ایک عجب سی سوگواری چھائی ہے
یہاں سے روزانہ کم و بیش 26 سے زائد ٹرینوں کا گذر ہوتا ہے لیکن رکتی ایک بھی نہیں
آخری بار 2010 میں ایک آدھ ٹرین کا سٹاپ ہوا کرتا تھا
وجہ پوچھنے پر پتہ چلا کہ مسافروں کی عدم دلچسپی کے باعث یہاں سٹاپ ختم کرنا پڑا کیونکہ محکمے کو خسارہ ہوتا تھا
سرسبز درختوں میں گھری انگریز کے دور کی نشانی ایک بارعب عمارت
اسٹیشنوں کی تو ساری رونق ہی ٹرینوں کے رکنے پہ موقوف ہوتی ہے
انجن کی کوک ، قریب آتی ریل کی مخصوص چھک چھک مسافروں میں ہلچل چائے پکوڑے بیچنے والوں کی آوازیں
ایسا کچھ بھی تو اس اسٹیشن کی قسمت میں نہیں
ایک ریل سے کس قدر خوبصورت تشبیہات استعارے وابستہ ہیں
ہجر و وصال کی کتنی کہانیوں نے اس سیٹی سے جنم لیا جو دم رخصت کلیجہ چیرتی محسوس ہوتی ہے
بقول منیر نیازی
صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا
اور پروین شاکر نے اسے اپنے انداز میں یوں بیان کیا
ریل کی سیٹی میں کیسی ہجر کی تمہید تھی
اس کو رخصت کر کے گھر لوٹے تو اندازہ ہوا
افسوس اے ساکنان کھاریاں شہر !
آپ اتنے کور ذوق واقع ہوئے ہیں کہ اس اسٹیشن کی قدروقیمت کا اندازہ ہی نہیں
محض چند فرلانگ کے فاصلے پر ایک صدی پرانی پرشکوہ عمارت ، تاحد نظر پھیلی ہوئی پٹڑی ، سرسبز پیڑ کیا یہ سب آپ کو دعوت نظارہ نہیں دیتے
اور آپ کو اندازہ ہے کہ یہاں ٹرینوں کے نہ رکنے سے آپ زندگی کی کتنی شوخیوں ، حدتوں سے محروم چلے آ رہے ہیں
کسی اپنے کے آنے کی خوشی ، کسی پیارے سے بچھڑنے کا ملال سیٹی بجتے ہی دل جیسے مٹھی میں آ جائے آنکھوں میں اشکوں کا سمندر چھپائے دور تک ہاتھ ہلاتے ہوئے چلتی ٹرین کے ساتھ ساتھ بھاگنا
کوئی ہے جو اس اسٹیشن کی رونقیں لوٹا دے
یہ سوالی ہے پنجاب کی امیر ترین تحصیل کے باسیوں سے
جن اسٹیشنوں پہ کوئی ٹرین نہ رکتی ہو ان کا عالم بھی اس ویران گھر جیسا ہوتا ہے جہاں مدت سے کوئی آیا نہ گیا
اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے۔ (جمال احسانی )

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply