ٹانگ فریکچر ہونے سے سرجری تک/غیور شاہ ترمذی

مؤرخہ 27 جون 2023ء بروز منگل کو دن 11 بجے کے لگ بھگ راقم الحروف مین مارکیٹ گلبرگ میں موٹر سائیکل کی ہلکی سپیڈ میں ابر آلود موسم کو انجوائے کرتے ہوئے فوارہ چوک کی طرف رواں دواں تھا کہ بائیں ہاتھ سے نکلنے والی سائیڈ روڈ سے ایک تیز رفتار رکشہ نے مین روڈ پر آتی ٹریفک کو دیکھے بغیر رکشہ چڑھا دیا۔ راقم کو صرف یہ یاد ہے کہ جب اس کے رکشہ کی اگلی سائیڈ موٹر سائیکل ہینڈل کے بائیں طرف ٹکرا رہی تھی تو چیخ کر اسے کہا تھا کہ اوئے کہاں دیکھ رہے ہو، مار رہے ہو مجھے۔

پھر راقم کی موٹر سائیکل نے رائیٹ لیفٹ زگ زیگ کی اور راقم موٹر سائیکل کے اوپر سے اڑتا ہوا اس کے آگے جا گرا ،جبکہ رکشہ موٹر سائیکل سے کم از کم 15 فٹ پیچھے کھڑا ہوا تھا۔ ہیلمٹ پہنا ہوا تھا تو سر کسی بڑی چوٹ سے محفوظ رہا لیکن شدید ترین درد کی لہر دائیں ٹانگ میں گھٹنے کے عین نیچے شروع تھی اور ٹانگ سیدھی نہیں ہو رہی تھی۔ باقی جسم پر بھی ہلکی پھلکی خراشیں تھیں لیکن ٹانگ میں گھٹنے کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ ٹیڑھا ہے۔

رکشہ والے کے علاوہ وہاں 2/3 نوجوان بھی کھڑے ہو گئے تھے اور ان میں سے ایک نے فون کر کے ریسکیو 1122 والوں کو بھی بلوا لیا جو 3/4 منٹ میں ہی وہاں موٹر سائیکلوں پر پہنچ گئے۔ اس موقع پر رکشہ والا مسلسل یہ کہہ رہا تھا کہ میں نے اس کے رکشہ کو پیچھے سے hit کیا ہے حالانکہ میری بائیک اس کے رکشہ سے 15 فٹ آگے زمین پر گری ہوئی تھی۔ اس موقع پر ایک اور ادھیڑ عمر شخص بھی رکشہ والے کی طرح یہی کہہ رہا تھا کہ بچت ہو گئی ہے اور کوئی چوٹ نہیں لگی۔ اپنی ٹانگ پر تھوڑا وزن ڈال کر دو چار قدم چلیں تو یہ درد ٹھیک ہو جائے گا۔

ریسکیو 1122 والوں نے زخموں اور خراشوں پر مرہم لگایا اور سہارا دے کر راقم کو کھڑا کرنے کی کوشش کی لیکن جیسے ہی انہوں نے کھڑا کیا تو راقم دھڑام سے زمین پر گرنے لگا جسے انہوں نے بمشکل پکڑ کر سنبھالا۔ پھر ریسکیو 1122 والوں نے ہی ایمبولینس کو فون کر کے بلوایا جبکہ راقم نے فون کر کے اپنے ساتھ کام کرنے والے جوانوں طلحہ صاحب اور نعمان صاحب کو بلوا لیا۔ ایمبولینس پہنچنے کے 5/6 منٹ بعد ہی طلحہ صاحب اور نعمان صاحب بھی پہنچ گئے۔ طلحہ صاحب نے راقم کی موٹر سائیکل کو اپنے قبضہ میں لیا جبکہ نعمان صاحب راقم کو ریسکیو 1122 کی ایمبولینس میں ڈال کر سروسز ہسپتال لے آئے۔

سروسز پہنچنے پر ایمرجنسی کے باہر کوئی سٹریچر بھی موجود نہیں تھا اور نہ ہی کوئی وہیل چیئر۔ نعمان صاحب نے شناختی کارڈ جمع کروا کے وہیل چیئر حاصل کی اور ایمبولینس سے مجھے نکال کر وہیل چیئر پر منتقل کیا۔ اس موقع پر ریسکیو 1122 والے جوان نے ایک عجیب و غریب بات یہ کی کہ نعمان صاحب کو کہا کہ وہ خود راقم کو اندر لے کر جائیں اور ہرگز بھی ہسپتال والوں کو یہ نہ بتائیں کہ راقم کو ریسکیو 1122 والے لائے ہیں ورنہ علاج نہیں ہو سکے گا۔ اس عجیب بات کو سن کر راقم ابھی تک حیرت زدہ ہے اور جیسے ہی صحت مند ہو گا تو اس بارے جاننے کی کوشش ضرور کرے گا۔

سروسز ہسپتال کے سٹاف اور نعمان صاحب کے درمیان معاملات بہت ہی سست روی کا شکار تھے اور ایمرجنسی وارڈ اٹینڈنٹس سب سے بےغرض ہو کر سٹیل کے ایک اونچے سے کنٹینر نما ڈبہ پر بیٹھے ہوئے گپیں ہانک رہے تھے یا اپنے اپنے موبائل فونز میں غرق تھے۔ سٹاف نرس اور ڈاکٹر بھی اپنی الگ الگ ٹولیاں بنا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک آدھ ڈاکٹر اور ایک آدھ سٹاف نرس ہی زخمی مریضوں سے بھرے ہوئے اس ایمرجنسی وارڈ کو دیکھ رہے تھے جبکہ باقی وہاں یوں بیٹھے ہوئے تھے کہ جلد از جلد ان کی خلاصی ہو اور وہ اپنے اپنے گھروں کو جائیں۔

اس وقت راقم کا چھوٹا بھائی اور بڑا بیٹا بھی طلحہ صاحب کی طرف سے اطلاع ملنے کے بعد ہسپتال پہنچ گئے اور انہوں نے معاملات کو ہینڈل کرنا شروع کر دیا۔ نعمان صاحب میرا ایکسرے کروانے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن اس کے بعد مزید علاج وغیرہ کے سلسلہ میں بےبس نظر آ رہے تھے۔ چھوٹے بھائی اور بیٹے نے آتے ہی جب نوٹوں کے درشن کروانے شروع کئے تو وہی طبی سٹاف جو مکمل لاتعلق بنا بیٹھا تھا وہ راقم کے اردگرد اکٹھا ہو گیا۔ راقم کو فوری طور پر درد کش ٹیکے بھی لگ گئے اور ڈرپ بھی لگا دی گئی۔ بلڈ پریشر بھی چیک ہو گیا اور دیگر تمام فارمیلٹیز کو بائی پاس کرتے ہوئے راقم کو آپریشن تھیٹر لے گئے۔ وہاں ایکسرے کا معائنہ کرنے کے بعد یہ بُری خبر کنفرم کر دی گئی کہ یہ گھٹنے کا گوشت نہیں پھٹا بلکہ باقاعدہ فریکچر ہے اور اس کی سرجری ہی ہونی ہے۔

چونکہ یہ واقعہ 27 جون کو وقوع پذیر ہوا تھا اور 29 جون کو عید تھی لہٰذا سینئر سرجن چھٹی پر نکل چکے تھے اس لئے آپریشن ہونے کا کوئی چانس نہیں تھا ورنہ بھائی اور بیٹے نے جس طرح نوٹ تقسیم کرنے شروع کئے تھے تو یہ سرجری بھی تب ہی مکمل ہو جاتی۔ البتہ سروسز والوں نے راقم کی ٹانگ کو پکڑ کر کھینچ کر گھٹنے کو سیدھا کر دیا (جی ہاں دیسی پہلوانی طریقہ سے جس میں اذیت بھرا درد موجود تھا)۔ پھر اسی ٹانگ کے نیچے پاؤں تک اور گھٹنے سے اوپر بیک سپورٹ لگا کر عارضی پلاسٹر لگا دیا گیا جبکہ سرجری کے لئے عید کے بعد آنے کا کہا گیا۔

سروسز ہسپتال سے گھر پہنچنے تک دوپہر کے 3:30 بج  چکے تھے اور ٹانگ میں درد انتہا کا تھا۔ شام میں راقم کی ڈاکٹر بہن خبر سن کر گھر آ گئیں اور انہوں نے ایکسرے دیکھنے اور درد کا اندازہ لگانے کے بعد کہا کہ اس عارضی پلستر میں کوئی گڑبڑ ہے اور اسے فوراً تبدیل ہونا چاہیے۔ راقم کا خیال تھا کہ جیسا کہ سروسز ہسپتال کے لوئر سٹاف نے کہا ہے کہ یہ فریکچر 2/3 ہفتوں میں ایسے ہی ٹھیک ہو جائے گا تو مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن بہن چونکہ خود سینئر ڈاکٹر چائلڈ سپیشلسٹ ہے لہذا وہ اس خیال سے متفق نہیں تھی۔ اس نے کچھ درد کش ادویات دیں اور کہا کہ اگر ان سے افاقہ نہ ہوا تو فوراً کسی آرتھو پیڈک سرجن کو دکھانا چاہیے بلکہ انہوں نے ایکسرے کی فوٹوز اپنے ایک کولیگ ڈاکٹر سبطین رضا    یونیورسٹی آف لاہور، ٹیچنگ ہسپتال ڈیفنس روڈ لاہور کے ساتھ شیئر بھی کر دیں۔

ڈاکٹر سبطین صاحب راقم کے بہت پرانے دوست حسنین رضا لنگاہ صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں اور 20 سال سے آرتھو پیڈک سرجن ہیں۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ اس کی سرجری کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے اور وہ عید کی چھٹیوں کے فوراً  بعد ہی ممکن کو سکے گی۔

ڈاکٹر سبطین صاحب نے رات 9 بجے تک راقم کے گھر کے نزدیک واقع ایک پرائیویٹ کلینک میں فوری معائنہ کا بندوبست کر دیا۔ وہاں ڈاکٹر عامر صاحب نے نئے ایکسرے کروائے، انہیں دیکھا اور راقم کو فوراً ہی آپریشن تھیٹر منتقل کر دیا جہاں اس عارضی پلستر کو گھٹنے کے پاس سے کھولا گیا اور سرنجوں کی مدد سے گھٹنے میں جمع ہونے والا 50 ملی لٹر خون کھینچ کر باہر نکال دیا جس کے بعد راقم کو شدید ترین درد سے بہت زیادہ نجات مل گئی اور راقم کو واپس گھر پہنچا دیا گیا۔

پھر 27 جون کی اس رات سے لے کر اتوار 2 جولائی دوپہر تک درد کی ٹیسوں سے لڑتے ہوئے زندگی گزرتی رہی۔ اس دوران درد کش ادویات کی وجہ سے کچھ دیر تک سکون مل جاتا وگرنہ ہائے ہائے کرتے ہی وقت گزرا۔ اتوار کو راقم کو یونیورسٹی آف لاہور ٹیچنگ ہسپتال میں دوپہر کے وقت پہنچا دیا گیا جہاں کچھ میڈیکل ٹیسٹوں کے بعد پیر 3 جولائی کی صبح کے لئے سرجری کا وقت فائنل ہو گیا۔ ہسپتال آنے سے لے کر پیر کی صبح تک درد کش ادویات نے راقم کو زیادہ درد محسوس نہیں ہونے دیا اور جب آپریشن تھیٹر میں سپائنل اینستھیزیا (ریڑھ کی ہڈی میں انجیکشن) دیا گیا تو پھر پہلی دفعہ جسم میں سکون ہی سکون محسوس ہوا اور درد غائب ہو گیا۔

راقم نیند کی وادیوں میں ایسے گم ہوا کہ جب آنکھ کھلی تو سرجری مکمل ہو چکی تھی جس میں پنڈلی کی ہڈی کے اوپری جوڑ (tibia bone) میں موجود 3 فریکچرز کو 3 عدد سٹین لیس سٹیل کے نٹ ڈال کر فکس کر دیا گیا اور سرجری کے زخم والے حصہ میں ایک ونڈو بنا کر باقی ٹانگ پر پلاسٹر آف پیرس والا پکا پلستر لگ چکا تھا۔ وہاں سے راقم کو سٹریچر پر ڈال کے آرتھو پیڈک وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ کچھ دیر بھی ہی درد نے بےچین کرنا شروع کیا لیکن ادویات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ منگل 4 جولائی کو آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر سبطین کے وزٹ اور فزیو تھراپسٹ کی طرف سے واکر (Walker) پر کچھ قدم چلنے کی ٹریننگ دی گئی۔ شام گئے راقم کو ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا اور اس وقت راقم اپنے گھر پر موجود ہے۔ درد ہے لیکن قابل برداشت ہے یا یہ کہہ لیں کہ ڈھیٹ بن کر برداشت کر رہا ہوں۔ کہتے ہیں کہ یہ پلستر 4 سے 6 ہفتوں تک لگا رہے گا اور تب تک ہڈی جڑ چکی ہو گی اور پھر آہستہ آہستہ ٹانگ پر وزن ڈالنے کی پریکٹس شروع کروائی جائے گی۔ ان سٹیل نٹ بولٹس کو نکالنے والے وقت والی مکمل صحت یابی میں سال بھر کا وقت لگ سکتا ہے لیکن چھڑی کے ساتھ چلنے پھرنے کا سلسلہ 4 مہینوں تک شروع ہونے کے امکانات روشن ترین ہیں (آپ سب سے دعاؤں کی درخواست ہے)۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ آرتھو پیڈک سرجری وارڈ میں راقم کے علاوہ 2 اور مریض بھی ٹانگ تڑوا کر داخل تھے اور وہ بھی راقم کی طرح رکشہ ڈرائیور کے ہاتھوں ظلم کا شکار تھے۔ ان رکشہ ڈرائیوروں کے خلاف سخت ترین کاروائی ہونی چاہیے جو سائیڈیں کرواتے ہیں، تیز رفتاری سے رکشے چلاتے ہیں اور آہستہ آہستہ موٹر سائیکل سواروں کو بےرحمانہ طریقوں سے شدید زخمی کر جاتے ہیں۔
 اختتامیہ-صحت کارڈ ایک بہت بڑی سہولت ہے
اس لمبی تحریر کا اختتامیہ یہ ہے کہ اگر راقم کا نام صحت سہولت کارڈ کے لئے اہل نہ ہوتا تو پرائیویٹ سیکٹر سے یہ سرجری کروانے میں کم از کم اڑھائی لاکھ روپے لگ سکتے ہیں جو کہ راقم کے پاس نہیں تھے۔ گورنمنٹ سیکٹر میں یہ سرجری جیسے ہونی تھی اس کا احوال تحریر کے شروع میں درج ہے۔
لہذا ذاتی طور پر صحت سہولت کارڈ سے مستفیذ ہونے کے بعد راقم سمجھتا ہے کہ عمران خاں کی تحریک انصاف حکومت کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے صحت سہولت کارڈ جیسی سہولت عام آدمی کو مہیا کی جس کی وجہ سے اتنی مہنگی سرجری مفت کروانے کا  اہل ہو سکا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply