فرانس میں 17سالہ مسلمان نوجوان کا قتل/محمود اصغر چوہدری

فرانس میں ان دنوں پُرتشددمظاہرے جاری ہیں ۔ ساڑھے سات سو کے قریب لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور پینتالیس پولیس والے زخمی ہیں ۔ مظاہرین نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور شہر وں میں جلاؤ گھیراؤ  کا سلسلہ گزشتہ تین چار دن سے جاری رکھا ہوا ہے۔ ایک شہر کے مئیر کے گھر پر گاڑی سے حملہ کیا ہے ۔ جسے پولیس نے ناکام بنایا ہے ۔ پُرتشدد مظاہرین کو روکنے کے لئے 45ہزار کی نفری تعینات کی گئی ہے ۔ مختلف شہروں میں کرفیو کی صورت حال ہے ۔ یہ ہنگامے ایک سترہ سالہ الجزائری نژاد نوجوان ناہیل مارزوکی کی فرانسیسی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد پھوٹے ہیں۔ سترہ سالہ ناہیل اپنے دو دیگر دوستوں کے ساتھ ایک مرسیڈیز کار ڈرائیو کر رہا تھا ۔ فرانسیسی پولیس آفیسر نے اسے روکنا چاہا لیکن اس کی مزاحمت پر پولیس آفیسر نے گولی چلا دی اور وہ نوجوان جاں بحق ہوگیا۔

پولیس کاکہنا ہے کہ ناہیل کی عمر سترہ سال تھی ۔ اس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں تھا ۔ پولیس نے اس کی گاڑی کو روکا اور انٹرنیٹ پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس نے گاڑی سے باہر آنے کی بجائے گاڑی کو آگے بھگانے کی کوشش کی جس پر ایک پولیس آفیسر نے فائر کر دیا ۔ وہ اس سے پہلے بھی تین چار دفعہ پولیس کی جانب سے روکا جا چکا تھا لیکن اسکے خلاف کسی جرم میں ملوث ہونےکا کوئی کیس موجود نہیں تھا ۔ فرانس ویسے تو گزشتہ کئی مہینے سے حکومت کی سخت کاروائیوں کے نتیجے میں اور پیلی جیکٹ پہننے والے محنت کشوں کے احتجاج کی وجہ سے پوری دنیا میں زیربحث رہا ہے ۔ جس میں ایک امیر حکمران محنت کشوں کی پنشنوں میں کٹوتی جیسے اقدامات کا حامی ہے ۔لیکن اب ناہیل کے قتل کے بعدلگاتارتین چار دنوں سے پورا ملک ایک دفعہ پھرخانہ جنگی کا ماحول بنائے ہوئے ہے ۔
فرنچ پولیس آفیسر جس نے ناہیل کو گولی ماری ہے اسے گرفتار کر لیا گیا اور اس پر جان بوجھ کر قتل کا مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے ۔ اس نے ناہیل کی ماں مونیا سے معافی کی درخواست بھی کی ہے لیکن اس ماں کے کلیجے کو کون سہار ادے ،ناہیل جس کا اکلوتا بیٹا صرف گاڑ ی نہ روکنے کے جرم میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ فرنچ پولیس کو سال 2017ءسے ایسی کسی بھی گاڑی پر فائرنگ کی قانونی اجازت دی گئی تھی جس کے تحت ڈرائیور پولیس کے حکم پر گاڑی کو نہیں روکتا اور اس سے دیگر مسافروں یا راہگیروں کو نقصان کا خطر ہ ہو ۔لیکن اگر ہم حکومتی اعداد وشمار دیکھیں تو ان ہنگاموں کی وجہ کھل کر سامنے آجاتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

سال 2020ءسے لیکر آج تک ایسے واقعات جس میں پولیس کے ہاتھوں گاڑی نہ روکنے کے جرم میں لوگ قتل ہوئے ان میں اٹھارہ شہری شامل تھے ۔ اور اس سے بھی زیادہ حیران کُن بات یہ ہے کہ ان کی اکثریت سیاہ فام یا عرب نژاد شہریوں کی تھی ۔ تو یہ اس بات کی واضح نشانی ہے کہ فرانس میں مسلمانوں کے خلاف تعصب عروج پر ہے ۔ ان مظاہروں میں مسلمانوں اور دیگر غیر ملکی شہریوں کی اکثریت اصل میں اس بات کی نشانی ہے کہ عوام اس نسل پرستی کے خلاف سراپا احتجاج ہے ۔ دوسری  جانب فرانسیسی حکومت نے ٹویٹر سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پر اتنی سخت پالیسی اپنائی ہے کہ ناہیل کے جنازے میں شرکت کرنے والے مسلمانوں پر فون استعمال کرنے یا ویڈیو بنانے کی مکمل پابندی تھی۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقو ق کمشن نے بھی  فرانس میں نسل پرستی کے فروغ پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔فرانس میں ایک سیاسی بحث تو چھڑ گئی ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ناہیل کا ناحق قتل فرانس میں نسل پرستی کے فروغ کو روکنے کا باعث بنے گا یا نہیں ۔ اور کیا فرانسیسی حکومت اپنی پالیسیوں کو  از سر نو مرتب کرتی ہے یا نہیں ۔ کب تک انسان مختلف رنگ، مذہب یا نظریات کی بنا پر قابل نفرت ٹھہرتے رہیں گے ؟

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply