شاہنوازعرف شاہن شر۔۔عزیز خان

جیونا شر پر ریڈ کرنے سے تھانہ کوٹ سبزل کے وہ لوگ جوسند ھ پنجاب بارڈر کیساتھ ساتھ آباد تھے میں کچھ حوصلہ آیا۔ذوالفقار چیمہ ایس پی کی ہدایت پر میں نے علاقہ میں لوگوں کے پاس جاکر “کھلی کچہری “لگانا شروع کی تو پتہ چلا کہ ان مظلوم لوگوں کیساتھ سندھی جرائم پیشہ افراد کبھی بھی آکر واردات کرتے ان کے گھر سے کھانا کھاتے، ان کی عورتوں سے زیادتی کرتے اور چلے جاتے۔ان میں اتنی ہمت اور جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ پولیس کو اطلاع دیتے بلکہ یہ کسی وڈیرے کو لے کر ان جرائم پیشہ افردا کے پا س جاکر منت سماجت کرتے اور بھونگا دے کر اپنا مال مویشی واپس لے آتے۔چیمہ صاحب نے ان لوگوں کو بغیر لائسنس اسلحہ رکھنے کی بھی اجازت دی۔صرف ایک شرط تھی کہ یہ لوگ اس اسلحہ کے بارے میں اپنے متعلقہ SHOکو بتانے کے پابند ہوں گے کہ ان کے پاس کونسا اسلحہ بغیر لائسنس ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کچھ دن آرام اور سکون سے گزرے کوئی واردات نہ ہوئی۔ایک شام تقریباََ سات بجے ایک موٹر سائیکل سوارنے مجھے اطلاع دی کہ موضع ڈھنڈی کے علاقہ میں کچھ لوگ ایک گھر میں واردات کی نیت سے ابھی ابھی گھسے ہیں۔میں اس وقت 40/RDپر چیک پوسٹ چیک کر رہا تھا۔میرے ساتھ چار جوان تھے۔کچھ پولیس ملازمین میں نے چیک پوسٹ سے لیے اور ڈھنڈی کی طرف روانہ ہوگیا وائرلیس پہ تھانہ کو اطلاع دی کہ دوسری گاڑی اور ملازمین بھی میر ے عقب میں بھجوادیں۔موٹرسائیکل سوار کو بھی ساتھ لے لیا تاکہ اس جگہ کی نشاندہی کرسکے جہاں ڈاکو گھر کے اندر داخل ہوئے۔تقریباً 20منٹ بعد ہم اس گھر کے قریب پہنچ گئے۔گاڑی کی لائٹ دیکھ کر کچھ مسلح افراد میں نے بھاگتے دیکھے۔ہم نے ان کا پیچھا کیا تو ملزمان نے ہم پر فائرنگ شروع کردی۔چاندنی رات تھی ملزمان ہمیں نظر آرہے تھے۔ملزمان کی کوشش تھی کہ وہ سندھ کے علاقہ میں داخل ہوجائیں شور اور فائرنگ سن کر ساتھ ساتھ کی آبادیوں کے لوگ بھی اکٹھے ہونا شروع ہوگئے۔ہم نے دو ملزمان کو گھیرا ڈال لیا جبکہ باقی کچھ دور نکل گئے۔میرے ساتھ نذیر نیازی، غلام قاسم، انور شیخ ہیڈ کانسٹیبل بھی تھے جنھوں نے میرے ساتھ مل کر بہادری سے مقابلہ کیا۔۔تھوڑی دیر بعد ملزمان کی طرف سے فائرنگ رک گئی تو نذیرنیازی اور انور شیخ آہستہ آہستہ اس جگہ پہنچ گئے جہاں سے فائرنگ ہورہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد فائرنگ رک گئی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ملزمان ہلاک ہوگئے ہیں یا ان کا اسلحہ ختم ہو گیا۔۔؟ہم نے چاروں طرف سے گھیرا ڈالنا شروع کیا تو جھاڑیوں میں دو ملزمان چھپ کر بیٹھے ہوئے تھے جن کو گرفتار کر لیا۔۔ جن میں سے ایک کا نام شاہنواز عرف شاہن شر جبکہ دوسرے کا نام حضور بخش شر تھا۔یہ دونوں بھی تھانہ کوٹ سبزل کے مقدمہ 175/90بجرم 302کے مجرم اشتہاری تھے۔ان کے قبضہ سے ایک کلاشنکوف اور ایک بندوق بارہ بور برآمد ہوئی۔گولیاں ختم ہونے کی وجہ سے یہ جھاڑیوں میں چھپ گئے تھے۔ یہ میری بہت بڑی کامیابی تھی ملزمان کو تھانہ پر لے آئے اور اپنے افسران کو تمام حالات بتائے۔ان ملزمان کی گرفتاری جیونا شر اور اس کے ساتھیوں کے لیے بہت بڑا جھٹکا تھا اور مجھے یہ بھی امید تھی کہ وہ بہت جلد جوابی کارروائی کرسکتے ہیں۔
مقدمہ 175/90، 24/92کی تفتیش محمد انور سب انسپکٹر کے سپرد تھی۔محمد انور نے ان کا ریمانڈ جسمانی حاصل کیا مقدمہ نمبر 24/92جوکہ ڈکیتی اور قتل کا تھا۔اس مقدمہ میں مال مسروقہ کی برآمدگی کی جانی تھی۔مورخہ 04/10/1992کو ملزمان نے انکشاف کیا کہ چوری کا مال اور اس واردات میں استعمال ہونے والااسلحہ انھوں نے اپنے گھر میں چھپایا ہوا ہے برآمد کرواسکتے ہیں چنانچہ محمد انور سب انسپکٹر نے ملزمان کو ہتھکڑیا ں لگوائیں اور برآمدگی کے لیے روانہ ہوگیا۔انور اپنے ساتھ چھ کانسٹیبلز بھی ساتھ لے گیا۔ میں تھانہ پر موجود نہ تھا ورنہ میں اسے اتنی کم نفری کے ساتھ اس علاقہ میں نہ جانے دیتا۔ پھر وہی ہوا جسکا ڈر تھا مجھے صادق آباد میں اطلاع ملی کہ موضع ڈھنڈی میں ملزمان جیونا شر، جاڑا شر اور مور شر وغیرہ نے پولیس پارٹی پرحملہ اور فائرنگ کی ہے جس سے وہ حضور بخش اور شاہن کو پولیس حراست سے چھڑوا کر لے گئے ہیں۔میں صادق آباد ASPکے دفتر میں موجود تھا میں فوری طور پر وہاں سے تھانہ کی طرف روانہ ہوگیا۔تھانہ پر پہنچا تو محمد انورSI اور ملازمین نے ساری آپ بیتی سنائی میں نے مقدمہ نمبر 158/92بجرم 324/353/224/225ت پ رجسٹر ڈکیا۔تھانہ کی تمام نفری کو ساتھ لیا اور ملزمان کی تلاش میں روانہ ہوگئے۔
رات کو تقریباََ دو بجے میں چک نمبر 217/Pمیں موجود تھا نفری بھی میرے ہمراہ تھی کہ میرے ایک مخبر نے مجھے آکربتایا کہ موضع گونجی میں دربار پیر میرن شاہ کے تھوڑے سے فاصلہ پر غیر آباد رقبہ میں مفرور ملزمان شاہن و حضورا شر چھپے ہوئے ہیں اگر مناسب حکمت عملی سے ریڈ کیا جائے تو پکڑے جاسکتے ہیں۔ان کے ساتھ جیونا، جاڑا شر بھی ہیں۔چنانچہ میں روانہ ہوگیا دربار پیر میرن شاہ سے ایک کلومیٹر پہلے اپنی سرکاری گاڑیاں اکٹھی کردیں اور پیدل روانہ ہوگئے۔مخبر کی نشاندہی پر دربار سے دور ایک ٹیلہ پر جھونپڑی موجود تھی جوں ہی ہم جھونپڑی کے قریب پہنچے تو اچانک جھونپڑی میں سے حضوراشر مسلح کلاشنکوف، شاہن مسلح بارہ بور دو نالی، جیونا شر مسلح کلاشنکوف، جاڑا مسلح رائفل باہر آگئے اور پولیس پر فائرنگ کرنی شروع کردی۔ہم نے بھی جوابی فائرنگ کی چاند کی روشنی میں ملزمان صاف نظر آرہے تھے۔آدھے گھنٹے تک فائرنگ ہوتی رہی نذیر نیازی جوکہ سرکاری گاڑی کا ڈرائیور تھا لیکن میرے ساتھ بطور گن مین بھی رہتا تھا اس کے علاوہ غلام قاسم، محمد نواز کانسٹیبلز و دیگر ملازمین نے بھی بہادری سے مقابلہ کیا شروع میں ہی حضورا ملزم زخمی ہوکر گر پڑا تھا۔تھوڑی دیر بعد شاہن بھی زخمی ہوگیا ان کے زخمی ہوتے ہی جاڑا شر اور جیونا شر فائرنگ کرتے ہوئے ٹیلوں کی طرف بھاگ گئے حضورا اور شاہن تھوڑی دیر بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگئے۔ان کے قبضہ سے کلاشنکوف و بارہ بور بندوق بھی برآمد ہوئی۔لاشوں کو قانونی کاروائی کے بعد صادق آباد ہسپتال بھجوا دیا گیا۔
اتنی دیر میں وائرلیس پر مقابلے کی اطلاع پورے ضلع میں ہوگئی تھی۔سرکل کے مختلف تھانوں سے بھی پولیس کی نفری میری مدد کے لیے روانہ کی گئی تھی اسے بھی میں نے روک دیا۔میں نے سکھ کا سانس لیا اس طرح دیدادلیری سے ملزمان کو پولیس کی حراست سے چھڑا لینا باعث شرم تھا لیکن اسی طرح فوری طور پر ملزمان کو تلاش کرنا اور پھر ان کو پولیس مقابلہ کے بعد ہلاک کردینا بہت بڑی بات تھی۔۔SSPذوالفقار چیمہ بہت خوش تھے وہ خود تھانہ پر آئے اور تمام ملازمین پولیس کو شاباش دی عوام میں بھی اعتماد کی فضاء بحال ہوئی اور میری نیک نامی میں اضافہ ہوا۔
اب میرے اور سندھی جرائم پیشہ افراد کے درمیان جنگ کا آغاز ہوچکا تھا۔اس طرح پولیس مقابلے میں دو مجرمان اشتہاریوں کا مر جانا جرائم پیشہ افراد کے لیے ایک چیلنج تھا اب وہ دوبارہ کوئی بڑی واردات کرسکتے تھے۔سندھی ثقافت میں یہ جرائم پیشہ افراد ہمیشہ اپنے پیاروں کے قتل کا بدلہ لینے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور اکثر یہ سامنے آکر لڑنے کی بجائے چھپ کروار کرتے ہیں۔میں نے SSPذوالفقار چیمہ سے سے جیونے شر کے گھر پر ریڈ کرنے کی اجازت طلب کی۔کیونکہ ایک صوبہ سے دوسر ے صوبہ میں ریڈ کے لیے اپنے ضلعی افسر کو اعتماد میں لینا ضروری ہوتا ہے۔سارا دن قانونی کاروائی اور پوسٹ مارٹم میں گزر گیا۔
رات بڑی مشکل سے کٹی میں نے سرکل کے تمام SHO’sکو اپنی نفری کیساتھ تھانہ کوٹ سبزل بلا لیا۔اگلی صبح میں نے دوبارہ جیونا شرکے گھر پر ریڈ کیا مگر وہاں پر کوئی بھی موجود نہ تھا۔ہم نے جیونا شر کے گھر کو دوبارہ آگ لگا دی۔ملازمین نے وہاں ہوائی فائرنگ کی اور واپس آگئے اب ان افراد کے خلاف ہماری کھلی جنگ تھی۔جیسا کے میں قبل ازیں بتاچکاہوں کہ آغاشر اور اس کا بھائی کاکا شر دونوں ان جرائم پیشہ افراد کی مدد کرتے تھے۔کاکا شر اپنے کچھ معزیزین کے ہمراہ ASPاللہ ڈینو خواجہ سے ملا کہ اب ان شانا اور حضور بخش کی لاشیں پوسٹ مارٹم کے بعد ان کے حوالے کردیں جائیں۔مجھے اس بات پہ اعتراز تھا مگر افسران کا حکم ماننا پڑتا ہے وہ لاشیں تو لے گئے مگر تین دن بعد مجھ پر ASPاللہ ڈینوخواجہ اور دیگر ملازمین پرتھانہ ڈھرکی میں قتل کا مقدمہ درج کروا دیا گیا FIR میں میرے ہاتھ میں کلاشنکوف اور ASPصاحب کے ہاتھ میں سیمی آٹو میٹک رائفل دکھائی گئی تھی۔میں اکثر ASPسے مذاق بھی کرتا تھا کہ کلاشنکوف تو آپکے ہاتھ میں دکھانی چاہیے تھی کیونکہ آپ سنیئر ہیں۔ ان ڈاکوؤں کے مرنے کی جوڈیشل انکوئری صادق آباد میں مجسٹریٹ نے کی اور ہمیں بے گناہ کردیا گیا اس بنیاد پر بلاخر کچھ عرصہ بعد یہ مقدمہ خارج ہو گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply