پیپر کا نامناسب سوال اور ہماری لغو گوئی

‎آجکل علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ایک پیپر کے سوال پر کافی شور ہے، جس میں میٹرک کے طالب علم سے ایک عجیب و غریب سوال گیا ہے جس میں اس کی بہن کے خدوخال کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔

‎‫میرا خیال ہے اور جتنی مجھے معلومات ہے، کسی بھی دنیا کی یونیورسٹی یا کالج یا اسکول میں اس قسم کا سوال پوچھنا، کسی مقدس رشتہ کے بارے میں، اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، میا خلیفہ کے پروفیشن کی عورتوں کے بارے میں بھی نہیں پوچھا جاتا۔ ایک واقعہ آپ کو سناتے ہیں، تھائ لینڈ کے کلچر کے بارے میں۔ ہمارے ایک کولیگ، پہلی بار تھائی لینڈ گئے، ان کا خیال یہ تھا کہ وہاں کی ساری آبادی کا بس ایک ہی “پروفیشن” ہوگا۔ ایک سیلز گرل سے وہ کچھ اسی قسم کا سوال پوچھنے کی جرات کر بیٹھے، نتیجہ یہ نکلا کہ بے چارے کافی عرصے تک سیاہ عینکوں کا محتاج رہے۔

‎
اب پاکستان میں جن کی بولی اردو، پنجابی یا ہندکو سے ملتی جلتی ہے، ان میں اس مقدس رشتے سے منسلک ایک ہزل بہت ہی عام اور تقریباً ہر موقعے پر بولی جاتی ہے۔ چاہے غصہ میں ہو، یا مستی میں۔ بے تکلف دوست تو اپنے دوستوں کے ساتھ گفتگو ہی اسی دشنام سے شروع کرتے ہیں۔ میرے خیال میں جس نے یہ پیپر بنایا ، شاہد وہ اسی ہزل کے ٹرانس میں تھا اور شاہد ہماری اسی کفیت کو جانتے ہوۓ امریکہ کے ایک وکیل نےہمارے ملک کے بارے میں کچھ اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا تھا۔ ‬

‎اس سوال کا تعلق لبرل یا آزاد خیالی یا کیمونسٹ نظریہ سے نہیں ہے۔ اس قسم کا سوال کسی بھی معاشرے میں قابلِ قبول نہیں ہے۔ حتی کہ افریکن زولو قبیلے میں بھی نہیں ملتا جہاں سب لباس سے آزاد ہوتے ہیں۔ آپ ایک بے لباس بیچ پر ایک نازنینِ بے پروا سے بھی یہ سوال نہیں پوچھ سکتے۔ اس بیچ پر آپ گھوری بھی نہیں مار سکتے کہ پولیس اسی وقت آ جاتی ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے، اچھے دنوں کا جب یہاں ٹورسٹ کی بھر مار ہوتی تھی۔ کہ پی سی ہوٹل کے سوئمنگ پول پر کچھ امریکی لڑکیاں جو بکنی میں ملبوس تھیں، اچانک شور مچانا شروع کر دیا کہ کچھ لوگ اوپر لوبی کے شیشے سے ان کو گھور رہیے ہیں۔ جب وہ لوگ سیکیورٹی کے زریعے ہٹائے گئے، تب انہوں نے سکون کا سانس لیا۔

‎اصل مسلہ جو سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ پیپر بنانے والے مکھی پر مکھی مارتے ہیں۔ اگر آپ کسی بھی مضمون کے امتحان کے چار پانچ سالوں کے پرانے پیپرز اٹھا کر دیکھیں تو بار بار ایک ہی سوال تھوڑی سی ردوبدل کے ساتھ پوچھا جاتا ہے۔ یہاں پر بھی یہی ہوا کہ پچھلے سال ممتحن نے بھائی کے اوپر سوال پوچھا تھا اور اس بار بغیر نیچے دیکھے بھائی کو مٹا کر بہن لکھ دیا، سوچے سمجھے بغیر۔ یقین مانیے، پاکستان میں ایسے بلنڈر ہر جگہ ہوتے ہیں۔ اس بار ذرا یہ معاملہ مشہور ہو گیا ہے۔‎ اس واقعے کے بارے میں سوال اٹھانے والے کو بے غیرت بریگیڈ میں شامل کرنا بھی مناسب نہیں۔ کہ ایک نانسنس سوال کو نظر انداز کرنا زیادہ بہتر تھا۔ مگر کاش ایک غیرت بریگیڈ اس وقت بن جاتی جب پہلا خود کوش دھماکہ ہوا اور قیمتی جانیں ضائع ہویں، تو شاید آج باقی کے ستر ہزار نہ مرتے۔ کاش

‎کہنے کا مطلب ہے کہ ہر معاشرہ چاہے، پاکستانی ہو، انڈین ہو ، امریکی ہو یا افریکی، اس قسم کی گرسنگیِ جنس برداشت نہیں کی جاتی۔ ‫بہرحال ہم سب کو روز مراہ کی زندگی میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور سرِ عام اس قسم کی حرکتوں کی بھی نہ صرف مذمت بلکہ سرزنش بھی کرنی چاہیے

Advertisements
julia rana solicitors

‎آئیے، آج ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ جتنا ممکن ہوگا اس ہزل سے اپنے آپ کو بچاہیں گے اور حکومت سے درخوست ہے کہ ہمارے تعلیمی سسٹم کو بہتر بناۓ۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply