اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں /مظہر اقبال کھوکھر

وہ جینا چاہتے تھے۔ اپنے لیے، اپنے خاندان کے لیے وہ ہر خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوگئے۔ وہ خاندان والوں کو خوش و خرم اور خوشحال دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی آنکھوں میں روشن مستقبل کے خواب تھے۔ وہ اپنے خوابوں کی تعبیر چاہتے تھے۔ مگر انہیں کیا معلوم بھوک غربت اور افلاس کی بے رحمی سے بچ بھی گئے تو سمندر کی بے رحم لہروں سے کیسے بچ پائیں گے۔ وہ زندگی کی سفاکیت سے بچ نکلنا چاہتے تھے مگر موت کی سفاکیت نے گھیر لیا۔ ان کے خواب بھی ڈوب گئے تمام امیدیں بھی ڈوب گئیں ان کا حال اور مستقبل بھی ڈوب گیا۔

بالآخر حکمرانوں کو بھی ان “کیڑوں مکوڑوں” کا خیال آگیا۔ یونان کے قریب سمندر میں کشتی ڈوبنے کے المناک سانحے کا نوٹس لیتے ہوئے اس کی تحقیقات کے لیے چار ركنی کمیٹی بنا دی ہے۔ یہ سانحہ دس روز قبل اس وقت پیش آیا جب لیبیا کے راستے اٹلی جانے والی غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی یونان کے قریب سمندر میں ڈوب گئی۔ غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق اس کشتی پر 750 لوگ سوار تھے۔ جن میں چار سو کے قریب پاکستانی تھے۔ اب تک بچ جانے والے 128 لوگوں میں سے 12 کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اب تک ملنے والی لاشوں کی شناخت نا ممکن ہے جبکہ سینکڑوں لوگ ابھی تک لاپتہ ہیں۔

غیر قانونی طور پر ملک چھوڑ کر یورپ جانے والوں کو پیش آنے والا حادثہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے قبل تركی کے راستے جنگلوں، پہاڑوں اور صحراؤں سے گزر کر لمحہ بہ لمحہ موت سے لڑنے اور پچھلے کچھ سالوں سے لیبیا کے راستے کھلے سمندر سے کشتیوں کے ذریعے اٹلی اور یورپ جانے والوں کو کئی بار حادثات پیش آ چکے ہیں۔ مگر اتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کا حادثے کا شکار ہونا پاکستان کی تاریخ کا سب سے المناک سانحہ ہے۔

حکومت نے نوٹس لے لیا، سوگ بھی منا لیا، پرچم بھی سرنگوں ہوگیا، کمیٹی بھی بن گئی مگر اس کے بعد کیا حکومت بری الزمہ ہے، کیا حکومت کا کام ختم ہوگیا؟ مگر شاید حکومتیں یہی سمجھتی ہیں کہ نوٹس لے لینا ہی ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ کیونکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستانی ایک طویل عرصے سے ڈنکی کے ذریعے یورپ جا رہے ہیں۔ ڈنکی کے ذریعے اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی انسانی سمگلنگ اداروں سے کیسے چھپی رہ سکتی ہے۔

مگر آج تک کوئی کاروائی نہ ہونا اس امر کا ثبوت ہے کہ سب کچھ اداروں کی ملی بهگت سے ہو رہا ہے۔ آج کل حکومتی ادارے مختلف ایجنٹوں کو گرفتار کرکے اپنی كاركردگی شو کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کارکردگی اس وقت کیوں نہیں دکھائی گئی جب اتنے وسیع پیمانے پر یہ غیر قانونی دهندہ ہو رہا تھا۔ کیا حکومتوں اور اداروں کو کارکردگی دکھانے کے لیے کسی بڑے سانحے کا رونما ہونا لازم ہوتا ہے؟

غور طلب پہلو یہ بھی ہے۔ اب تک کسی حکومتی وزیر، مشیر اور ترجمان نے اس المناک سانحے کے پس منظر پر بات نہیں کی اور نہ ہی کوئی کرنا چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر لوگ ملک چھوڑ کر جانے پر کیوں مجبور ہیں؟ ایک رپورٹ کے مطابق اس سال دس لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ گئے۔ صرف ایک سال میں ملک چھوڑنے والوں کی تعداد میں 300 فیصد اضافہ ہوا۔ اس سے قبل سالانہ اوسطاً 2 سے اڑھائی لاکھ لوگ ملک چھوڑتے تھے۔

مگر گزشتہ ایک سال میں یہ تعداد بڑھ کر 10 لاکھ ہو چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دسمبر تک 7 لاکھ پاکستانی روزگار کی خاطر ملک چھوڑ گئے جبکہ رواں سال کے پہلے چار ماہ میں دو سے تین لاکھ افراد ملک چھوڑ چکے ہیں۔ بیرون ملک جانے والوں میں ان پڑھ اور غیر ہنرمند افراد ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر، انجینیئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، زرعی ماہرین اور دیگر ہنرمند افراد شامل ہیں۔

ایک لمحے کے لیے سوچئے اگر کئی دہائیوں سے اس ملک پر حکمرانی کرنے والی اشرافیہ نے اس ملک اور قوم کے بارے میں سوچا ہوتا، اگر اس ملک میں عدل، انصاف اور میرٹ کی بالا دستی ہوتی، اگر اس ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کئے جاتے، اگر بہتر معاشی پالیسیاں بنائی جاتیں، اگر رشوت، سفارش اور چور بازاری کا خاتمہ کیا جاتا اگر لوگوں میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ اور غیر یقینی کو ختم کیا جاتا تو آج لاکھوں لوگ قانونی اور غیر قانونی طریقے سے ملک چھوڑنے پر مجبور نہ ہوتے۔

آج جب حکمران غیر قانونی انسانی سمگلنگ میں ملوث لوگوں کے خلاف بظاہر سخت کارروائی کر رہے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کیا ان لوگوں کے خلاف بھی کوئی كارروائی ہوگی جن لوگوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک اس نہج پر پہنچا کہ لوگ اپنے مال مویشی، جانور، زیور اور جائیدادیں بیچ کر اور دوسروں سے قرض اٹھا کر یورپ یا دیگر ممالک جانا چاہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور پاکستان کے حالات سے اس قدر تنگ اور بیزار ہیں کہ ایجنٹوں کے سبز باغوں کے بہکاؤں میں آ کر اپنی جمع پونجی ہی نہیں اپنی جانیں بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے۔ جب تک انسانی سمگلروں کے ساتھ ساتھ بھوک غربت بے روزگاری کی دلدل میں دهكیلنے والے سیاسی شعبدہ بازوں کے خلاف كارروائی نہیں ہوگی اس وقت تک اس قوم کا مستقبل زندگی کی امید پر موت کے منہ میں جاتا رہے گا۔

Facebook Comments

مظہر اقبال کھوکھر
لکھنے کے لیے جیتا ہوں اور جینے کے لیے لکھتا ہوں ۔۔۔! مظاہر قلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply