• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ٹائی ٹینک کا ملبہ دیکھنے کا مہنگا ترین جنون/غیور شاہ ترمذی

ٹائی ٹینک کا ملبہ دیکھنے کا مہنگا ترین جنون/غیور شاہ ترمذی

بہادری کی تعریف مختلف لوگوں کے لئے مختلف ہو سکتی ہے لیکن عام طور پر بہادری وہ جذبہ ہے جو حوصلہ مند اور بہادر لوگوں کو کسی مشکل یا خطرناک صورتحال سے نمٹنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اپنے شوق کی تکمیل میں جان لیوا کھیلوں یا سرگرمیوں میں حصہ لینے کو بھی بہادری سمجھاجا سکتا ہے، ایسے کھیلوں اور سرگرمیوں میں حصہ لینے والے لوگ خطرناک یا مشکل مواقع کا سامنا کرتے ہیں اور اپنے شوق کو پورا کرنے کے لئے جان لگا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ لوگ برف سے ڈھکے اونچے بلند و بالا پہاڑوں کو فتح کرتے ہیں تو کئی ایک گہرے سمندروں میں سنورکلنگ کرتے ہیں یا خطرناک جانوروں کے ساتھ جنگلوں میں سفر کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں جیسے کہ پیراگلائڈنگ، بانجی جمپنگ، اسکائی ڈائیونگ یا کار ریسنگ وغیرہ۔ یہاں پر یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ بہادری اور بے وقوفی میں نہایت باریک فرق ہوتا ہے۔ بہادر شخص خطرات کا سامنا کرتے ہوئے ذمہ دارانہ رویہ اور اعمال اختیار کرتا ہے، وہ جوابدہی کے ساتھ مشکلات کا سامنا کرتا ہے اور ممکنہ خطرات کا مقابلہ کرتا ہے۔ دوسری طرف بےوقوف شخص بغیر سوچے سمجھے یا ضروری تدابیر اور تحقیق کے بغیر خود کو اور دوسروں کو خطرات میں مبتلا کر سکتا ہے۔بہادر شخص خطرناک صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے مکمل تدبیر و حساب کرتا ہے۔ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتا ہے، تربیت حاصل کرتا ہے اور ضرورت کے مطابق ترجیحات کا استعمال کرتا ہے جبکہ بےوقوف شخص عموماً تدبیر و حساب کتاب کو نظرانداز کرتے ہوئے خطرات میں کود کر خود کو اور خود سے وابستہ دوسرے لوگوں کو مشکلات میں ڈال دیتا ہے۔ نیز بہادری عموماً کسی مقصد یا ہدف کو پورا کرنے کے لئے کی جاتی ہے، یہ ممکنہ خطرات یا چیلنجز کو قبول کرتی ہے تاکہ اپنے شوق کو پورا کر سکے۔ بےوقوفی لیکن اس کے برعکس کسی مقصد اور ہدف کے بغیر ہوتی ہے۔ بہادر لوگوں کو اپنی بہادری کی وجہ سے عموماً مثبت نتائج ملتے ہیں اور بہادروں کی عزت لوگوں کی نظر میں سر بلند رہتی ہے جبکہ بےوقوفی کے نتائج اکثر و بیشتر منفی ہی ہوتے ہیں اور بےوقوف شخص اپنی بےوقوفی کی وجہ سے زندگی یا صحت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے اور دوسروں کی نظر میں بھی احمق ہی تصور کیا جاتا ہے۔

دنیا میں اس وقت جہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو ایلون مسک، رچرڈ برانسن اور جیف بیزوس کی طرف سے انسانوں کو خلائی سفر میں بھیجنے کے مشن میں بہت پُرجوش ہیں تو ایک قابلِ ذکر تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو سمندر کے کئی ہزارفٹ نیچے والے ماحول کو سمجھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ ایسا ماحول ہے کہ جو سب سے زیادہ پھیلا ہوا ہے اور اس پر سب سے کم تحقیق ہو پائی ہے۔ یاد رہے کہ زمین کے تقریباً 70 فی صد سے بھی زیادہ رقبہ پر پھیلے ہوئے سمندروں کے ماحول میں تبدیلی عالمی سطح پر تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے۔ کینیڈا کے شہر سینٹ جانز سے 400 میل دور شمالی بحر اوقیانوس کی تیز لہروں والے پانیوں میں وہ جگہ واقع ہے جہاں تاریخ کا ایک بڑا سانحہ ہوا تھا۔ اسی پانی کے 3،800 میٹر نیچے ٹائٹینک کا ملبہ ہے جو اپریل 1912ء میں اپنے پہلے سفر کے دوران برف کے تودے سے ٹکرانے کے بعد غرق ہوا تھا۔ سٹاکٹن رش ایک کمپنی اوشن گیٹ کے مالک ہیں اور انہوں نے کئی سال پہلے ایک پشین گوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ایک وقت آئے گا جب لوگ باقاعدگی سے کم خرچے پر خلا میں جایا کریں گے اور مجھے لگتا ہے کہ سمندر کے نیچے جانا بھی ایسا ہی ایک ایڈونچر ہوگا۔ رش کو یہ بھی امید رہی ہے کہ ان کی کمپنی زیر سمندر ایسی تحقیق کر سکے گی جیسی ایلون مسک، رچرڈ برانسن اور جیف بیزوس خلائی سفر میں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ رش کی کمپنی سمندر کی تہوں میں سفر کرنے کو عام لوگوں کے لئے ممکن بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔خصوصاً اُن لوگوں کے لئے جو یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے سب سے مشہور بحری جہاز ٹائی ٹینک کے ملبے کو دیکھنے کے لئے زیر آب جانا ایک زبردست ایڈونچر ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ انگلش زبان کے وہ 3 الفاظ جو پوری دنیا میں پہچانے جاتے ہیں وہ کوکا کولا، گاڈ (God) اور ٹائی ٹینک ہیں۔

ٹائی ٹینک کے ملبہ کو دیکھنے کے خواب کو حقیقت بنانے کے لئے رش نے نئے طرز کی آبدوز بنائی جس میں ہلکے لیکن نہایت مضبوط مٹیریل کا استعمال کیا گیا۔ اس پر سوار 5 لوگ سمندر کی تہہ میں جا کر ٹائی ٹینک کو دیکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ کئی لوگوں کا خیال تھا کہ ایسا ہونا ناممکن ہے لیکن رش نے ایسا کر دکھایا۔ وہ گذشتہ سال اس آبدوز پر ٹائی ٹینک جہاز کے ملبے تک پہنچ گئے۔ اُس سفر پر آبدوز کے پائلٹ، اوشن گیٹ کا عملہ، سائنسدان اور پیسوں کے عوض آنے والے مسافر موجود تھے جنھیں ’مشن سپیشلسٹ‘ کہتے ہیں۔ ان مسافروں نے فی کس اڑھائی لاکھ ڈالر ادا کئے تھے تاکہ وہ قریب سے ایک بار ٹائی ٹینک کو دیکھ سکیں۔ اُس سفر کے بعد بھی مزید 3 دفعہ سٹاکٹن رش نے ٹائی ٹینک دیکھنے کا یہ زیرِ سمندر سفرکیا جس میں اُن کے ساتھ سائنسدان بھی شامل تھے جو زیر سمندر حیاتیاتی تنوع کی تصاویر اور ویڈیوز جمع کرتے تھے اور زیر سمندر ماحول پر تحقیق کرنے کے علاوہ ٹائی ٹینک کے ملبے کے آس پاس پانی کے نمونے جمع کر نے اور کیمرے کی آنکھ میں سمندری حیات کو قید کر سکتے ہیں۔  سٹاکٹن رش کے ان 4 عدد کامیاب ایڈونچرز کی خبر جب میڈیا میں نشر ہوئی تو وہ سلیمان داؤد کی نظر سے بھی گزری جو سائنس فکشن لٹریچر کے بڑے مداح رہے ہیں اور انھیں نئی نئی چیزیں سیکھنے کا بہت شوق بھی ہے۔ اُن کے اس شوق کی آبیاری میں اُن کے والد شہزادہ داؤد کے علاوہ اُن کی ماں کرسٹین اور اُن کی بہن علینا کی حوصلہ افزائی بھی شامل رہی ہے۔ اینگرو کارپوریشن کے بورڈ ممبر، داؤد ہرکولیس کارپوریشن لمیٹڈکے بورڈ میں وائس چیئرمین، داؤد لارینس پور لمیٹڈ کے بورڈ میں ڈائریکٹر اور اِن باکس بزنس ٹیکنالوجیز (ایک انٹرپرائز ڈیجیٹل سروس فرم) کے چیئرمین کے طورپر خدمات انجام دینے والے 48 سالہ شہزادہ داؤد صرف پاکستان کے ایک بڑے کاروباری خاندان کے رکن ہی نہیں بلکہ وہ برطانیہ میں ’پرنس ٹرسٹ چیریٹی‘ کے بورڈ ممبر بھی ہیں۔ماحول دوست بجلی بنانے کے لئے شہزادہ داؤد کی تجویز پر ہی اُن کے گروپ نے کچھ سال پہلے REON ریون سولر انرجی گروپ میں سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔

یہ صرف سلمان کی ہی خواہش نہیں تھی کہ وہ اوشن گیٹ کمپنی کے مالک سٹاکٹن رش کے ساتھ ٹائی ٹینک کا ملبہ قریب سے دیکھنے کی مہم میں شامل ہوں بلکہ خود شہزادہ داؤد بھی ایسے ایڈونچر کرنے کے بارے میں پُر جوش تھے- اوشن گیٹ کی آبدوز میں سمندر کے نیچے کا یہ 8 دنوں کا سفر عام زندگی سے نکل کر کچھ غیر معمولی دریافت کرنے کا موقع ہوتا ہے لیکن یہ بہت مہنگا بھی تو ہے۔ اڑھائی لاکھ ڈالرز فی کس یعنی دونوں باپ بیٹے کے لئے تقریباً 14 کروڑ پاکستانی روپوں میں ایسا مہنگا اور خطرناک شوق پورا کرنے کے لئے اتنے پیسے خرچ کرنا بڑے دل  گردے کی بات تو ہے ہی لیکن اس سفر کے ساتھ منسلک خطرات کا سامنا کرنے کے لئے بہت بہادری کی ضرورت ہوتی ہے۔ شہزادہ داؤد نے اس سفر میں سلمان کے ساتھ جانے کا فیصلہ اس لئے تو نہیں کیا تھا کہ وہ بیٹے کے ہمراہ رہیں کیونکہ کسی حادثہ کی صورت میں اتنے گہرے سمندر میں کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اس لئے صاف ظاہر ہے کہ خود شہزادہ داؤد بھی اپنے 19 سالہ نوجوان بیٹے سلمان کی طرح ٹائی ٹینک کے ملبہ کو دیکھنے کی خواہش میں اس سفر کے راہی ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ ہر سال اوشن گیٹ اس طرح کی 2 مہمات کا انتظام کیا کرتی ہےلیکن نیو فاؤنڈ لینڈ میں 40 سال کے بدترین موسم سرما کی وجہ سے اس سال کا یہ پہلا اور آخری مشن تھا۔البتہ سنہ 2024ء میں بھی کمپنی نے ایسی ہی 2 مزید ٹائی ٹینک مہمات بھیجنے کا منصوبہ بنایا تھا جن کی بکنگ مکمل ہو چکی ہے۔ ٹائی ٹینک کے ملبہ تک لے جانے والی اس چھوٹی سی آبدوز میں ایک پائلٹ کے علاوہ 3 مہمان مسافر ہوتے ہیں جو ٹکٹ کی ادائیگی کرتے ہیں جبکہ ان کے علاوہ ایک ماہر بھی آبدوز میں سوار ہوتا ہے۔ اس سفر میں ماہر اور پائیلٹ کے طور پر اوشن گیٹ کمپنی کےمالک سٹاکن رش خود شامل تھے جبکہ سمندری سائنسدان کے طور پر 73 سالہ پال ہنری نرجیولیٹ شامل تھے۔ اس کے مسافروں میں شہزادہ داؤد، اُن کے بیٹے سلمان داؤد اور برطانوی ارب پتی بزنس مین اور مہم جو ہمیش ہارڈنگ شامل تھے۔ اس مہم کا آغاز نیو فاؤنڈ لینڈ میں سینٹ جونز سے ہوتا ہے۔ کمپنی اوشن گیٹ کے پاس 3 آبدوزیں ہیں جن میں سے صرف لاپتہ ہونے والی آبدوز ٹائٹن ہی اتنی گہرائی تک جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس آبدوز ٹائٹن کا وزن 10،432 کلو ہے اور یہ 13،100 فٹ کی گہرائی تک جا سکتی ہے جبکہ اس آبدوز میں 96 گھنٹے تک کے لئے لائف سپورٹ موجود ہوتی ہے۔

آج سے 3 دن پہلے والے اتوار کے دن سفر کے آغاز کے ایک گھنٹہ 45 منٹ بعد ہی ٹائٹن نامی اس آبدوز سے کمپنی اوشن گیٹ اور حکام کا رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ٹائٹن آبدوز تقریباً 900 میل (1,450 کلومیٹر) مشرق اور نیو فاؤنڈ لینڈ کے دارالحکومت سینٹ جانز سے 400 میل (643 کلومیٹر) جنوب میں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ لاپتہ آبدوز نے ہنگامی صورتحال پیش آنے کے بعد ’’اضافی وزن‘‘ گرا دیا ہو تاکہ سطحِ آب پر آیا جا سکے۔ اگر بجلی یا کمیونیکیشن کی خرابی ہوئی ہے تو ممکن ہے کہ ایسا ہُوا ہو، اور پھر آبدوز اپنے مل جانے کے انتظار میں سطح پر ہی گھوم رہی ہو گی۔ ایک دوسرا امکان یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس آبدوز کے تلے یا نچلے حصے میں خرابی ہوئی ہو جس کے نتیجے میں لیکیج ہو گئی ہو لیکن یہ کوئی اچھا خیال نہیں ہے کیونکہ اگر آبدوز سمندر کی تہہ میں چلی گئی ہوئی اور اپنے زور پر واپس آنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہو تو پھر بہت ہی کم آپشن بچتے ہیں۔ اگر آبدوز کا ڈھانچہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور 200 میٹر سے زیادہ کی گہرائی میں موجود ہے تو بہت کم ہی جہاز ایسے ہیں جو اتنی گہرائی تک جا سکتے ہیں اور یقینی طور پر غوطہ خور تو بالکل نہیں جا سکتے۔نیوی کی آبدوز ریسکیو کرنے کے لئے بنائی گئی گاڑیاں یقینی طور پر اس گہرائی کے قریب کہیں بھی نہیں اتر سکتیں جہاں ٹائٹینک کا ملبہ موجود ہے۔ ممکنہ طور پر اس آبدوز سے رابطہ کرنے کا کوئی طریقہ بھی موجود نہیں ہے کیونکہ پانی کے نیچے ریڈیو یا جی پی ایس کام نہیں کرتا لیکن جب کوئی جہاز اس آبدوز کے بالکل اوپر پہنچ جائے تو پھر پیغامات کا تبادلہ ہو سکتا ہے لیکن بظاہر ابھی تک ایسی کوششوں کا کوئی جواب نہیں مل رہا۔ یاد رہے کہ آبدوز سے نکلنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے اس لئے آبدوز میں موجود لوگوں کو صرف باہر سے ہی کوئی نکال سکتا ہے۔

دوسری جانب اس آبدوز کی تلاش میں مزید اضافہ کے لئے اور امداد بھی فراہم کی جا رہی ہے جس کے لئے رائل کینیڈین نیوی شپ ایچ ایم سی ایس گلیس بے نامی بحری جہاز جمعرات یعنی کل مقامی وقت کے مطابق دن 12 بجے پہنچے گا۔ اس بحری جہاز میں ایسی ٹیم موجود ہے جو زیرِ آب پیش آنے والے طبی مسائل سے نمٹنے میں مہارت رکھتی ہے اور 6 اشخاص پر مشتمل ’ہائپر بیرک ری کمپریشن‘ نامی چیمبر بھی موجود ہو گا جسے زیرِ آب بھیج کر تلاش میں مدد لی جا سکتی ہے۔جب ڈائیورز کو آبی دباؤ میں تیزی سے ہونے والے اضافے کا سامنا ہوتا ہے تو نائٹروجن خون اور ٹشوز میں ببلز پیدا کرتی ہے تو اس چیمبر کا استعمال کیا جاتا ہے۔اِس وقت ٹائٹن نامی آبدوز کی تلاش میں کینیڈین کوسٹ گارڈ شپ ’دی ٹیری فاکس‘ پہلے ہی موقع پر موجود ہے اور یہاں وہ تلاش اور ریسکیو سے منسلک آلات اور افراد کو لادنے کے لئے تیار ہے۔ اس سے پہلے امریکی کوسٹ گارڈ نے تصدیق کی ہے کہ آبدوز کے سرچ آپریشن میں شامل کینیڈا کے پی تھری طیارے نے تلاش کے علاقے میں 30 منٹ کے وقفے سے متعدد ایسی تیز آوازیں سنی  ہیں جہاں آبدوز لاپتہ ہوئی ہے۔ امریکہ کے میرین ایئر کرافٹ پی ایٹ کے نظام نے بھی آبدوز کے لاپتہ ہونے کے مقام کے قریب سے ہر آدھے گھنٹے بعد زور دار تیز آوازیں سنیں جس کے 4 گھنٹے بعد وہاں اضافی سونر ( وہ تکنیک جس سے پانی کی تہہ میں آواز یا فاصلے کو جانچا جاتا ہے) کا استعمال کیا گیا ہے جہاں سے ابھی تک تیز آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ اس وقت نیو فاؤنڈ لینڈ میں ٹائٹینک کے ملبے تک جانے والی آبدوز کی تلاش اور امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے کے لئے امریکہ کی جانب سے تین سی 17 فوجی طیارے بھی تعینات کیے گئے ہیں جبکہ امریکی کوسٹ گارڈ کے کمانڈر بذاتِ خود تقریباً 20 ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر آبدوز کی تلاش کے پیچیدہ آپریشن کی قیادت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کینیڈا کی بحریہ، فضائیہ اور کوسٹ گارڈ کے ساتھ ساتھ نیو یارک سٹیٹ ایئر گارڈ کی ریسکیو ٹیمیں بھی اس سرچ آپریشن میں مدد کر رہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ٹائٹن آبدوز کی تلاش میں ممکنات کے اضافہ کی خبریں ملنے کے بعد پاکستان اینگرو کے وائس چیئرمین شہزادہ داؤد کی فیملی نے آبدوز کے مسافروں کی بحفاظت واپسی کے لئے دعاؤں کی اپیل کی ہے۔ داؤد فیملی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بیٹے شہزادہ داؤد اور اُن کے بیٹے سلیمان سمیت تمام مسافروں اور عملہ کی بحفاظت کے لئے کئی ممالک کی طرف سے مشترکہ کوشش کی جا رہی ہے تاکہ آبدوز سے رابطہ بحال کیا جاسکے۔ قوم سے درخواست ہے کہ ان کوششوں کی کامیابی کے لئے دعا کریں۔ شہزادہ داؤد کی بہن سبرینہ داؤد نے بھی سکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی پوری توجہ صرف ریسکیو پر ہے اس لئے کسی سوال کا جواب نہیں دے سکتے لیکن وہ اس انتہائی مشکل وقت میں نیوز چینل کی دلچسپی پر شکر گزار ہیں جن کی کوریج کی وجہ سے دنیا کو اس واقع کی تفصیلات مل رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی فیملی عالمی سطح پر ریسکیو میں دلچسپی کے لئے سب کے شکر گزار ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply