دولے شاہ دے کھوتے۔۔۔ سلیم مرزا

کارپوریٹ کلچر کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں ،ہمارے ایک جاننے والے چلتا پرزہ دوست کسی پرائیویٹ کمپنی کے ملازم اور مالک کے چہیتے تھے، ان کی ہر نصابی اور غیرنصابی محفلوں میں ساتھ ہوتے، باس بھی ہر ایرے غیرے سے تعریف کرتے، دگنی تنخواہ اور چوگنی خصوصیات بتاتے، ہمارے دوست اکثر اتراتے ایک دن ملے تو بوتھی اتری ہوئی وجہ پوچھی تو بلک اٹھے “یارکیا بتاؤں اپنے باس سے اپنی دگنی تنخواہ اور بے جا تعریف کا سبب پوچھ بیٹھا ہوں۔۔

تو کیا کہا انہوں نے ؟۔۔۔ہمیں بھی تجسس تھا !روہانسے سے ہو کر بولے ۔۔۔انہوں نے کہا ہے کہ اپنے گدھے کوہمیشہ گھوڑا بتانے سے سننے دیکھنے والوں پہ رعب پڑتا ہے۔

یہی کام ضیاءالحق نے بھی کیا ہتھوڑا گروپ اور سر کٹے انسان کے بعد نجانے کس کے آئیڈیے پہ پیر سپاہی نکال لایا، آب پارہ پتہ نہیں کیسے ایسے اجوکا تھیٹر تخلیق کرتا ہے، پی آئی اے کی ائیربس کے دروازے پہ کھڑا پیر سپاہی، اور لاکھوں کا دھرنا، سوری مجمع پیر سپاہی کھلی بوتلوں پہ پانی دم کر رہا تھا اور لاکھوں ڈھکن بوتلیں پکڑے کھڑے تھے۔

سنا ہے بعد میں لوگ سالوں بعد سیانے ہو گئے۔ سیریل کلر فلموں کا دور آگیا، لہذا مشرف کسی سیریل کلر سے کم تھا، آتے ہی سو بچوں کا قاتل ڈھونڈ لیا، اب مسجدوں سے جوتے، لنڈے سے چھوٹے چھوٹے کپڑے اور قبرستانوں سے نکی نکی ہڈیاں لانا تو ڈائر یکٹر کا کام تھا نا ،جاوید اقبال تو ہیرو تھا ! سائلنس آف دی لیمب اور بون کولیکٹر جیسی فلم تھی، قوم مولا جٹ والی ، چنانچہ چربہ خوب چلا، ناگن ٹو  سے بھی زیادہ ،پھر بانس بھی غائب اور بانسری ایمرجنسی میں بجانا  منع  ہے، حالات  اوپر  سے نیچے تک قابل رحم ہیں، اور  ہم سب ایک نمبر  کے چینگڑ  بھالو ہیں، اب  اس کا مطلب مت پوچھیے  گا!

عجیب  قوم ہے  سسلین  مافیا کا، پتہ نہیں  شیرکا پتہ ہے، ابھی کل میں ایک ہومیوپیتھک کے ہتھے چڑھ گیا، اس نے تمام علامات کاغذ پہ لکھنے میں آدھا  گھنٹہ لگایا، حالانکہ وہ خودپورا گھنٹہ بلکہ گھنٹہ گھرتھا، پھر  ان علامات کو اس نے اپنے اس تھکےکمپیوٹرمیں فیڈ کیا،جس کی سکرین سے وہ اپنے ایمان کو تراوٹ بخش رہاتھا ۔

قبل از سلیم مرزا کمپیوٹر نے پتہ نہیں کیابتایا، اس نے ایک شیشی  میں چند سفید گولیاِ ں ڈالیں، اوراس پہ عرق سنی لیون اوربرانڈی لو کے کچھ قطرے ڈالے ،تین سو لے لیا، میں نے وہ دوا کھائی نہیں میرے کمپیوٹر کے سامنے رکھی ہے، اب جب بھی وی پی۔این کھولتا  ہوں  شیشی سونگھ لیتا  ہوں ،زکام سےافاقہ ہے۔

ابھی چند روز قبل ایک دربار پہ جانا ہوا، بزرگ کپڑوں سے بے نیاز پتہ نہیں کس سے رازونیاز کر کے آئے تھے، مجذوب عالم کہلاتے ہیں، بغور مطالعہ کرنے سے پتہ چلا کہ گیلانی اور حنیف عباسی تو یونہی بدنام ہیں پیر طریقت کے معدے میں ایفیڈرین کا مہینہ بھر کا کوٹہ تھا، جسے زبان زد عوام کپی کہا جاتا ہے، حالانکہ درویشوں کا یہ وطیرہ نہیں بھنگ سے بہت سے اسرار سیاست کھلتے ہیں،چیف منسٹر تک فلاح پاتے ہیں ،کپی تو نری ذلالت  ہے ۔ ساڑھے چار سال بعد ہوش آتا ہے، اور بندہ پوچھتا  پھرتا ہے  کہ پاجی! میں پی ایم سے  سڑک تک کیسے پہنچا ؟ کوکین بہر حال بہتر ہے ‘رسم دنیا بھی ہے،موقع بھی ہے اور ساتھ شاہراہ دستور بھی ہے۔

اور ویسے بھی اسٹیٹس کو کے خلاف اسٹیٹس ہو تو لڑا جاسکتا ہے ناں، چنانچہ اب وہ بزرگ فل ٹن تھے مگر ان کے ہوشیار، باش چیلے فل چوکنےتھے،ہر سوالی کا  سوال کان میں دہراتے، اور پیر صاحب حسن نثار  بن جاتے، سوالی کی ماں بہن ایک گرینڈر میں یوں یکجان کرتے کہ چیلے اسے ڈی کوڈ کر تے اورسوالی کی ایسے تشفی فرماتے کہ سواد آجاتا۔ ساتھ گالیاں ڈی کوڈ کرنے کا جرمانہ بھی وصول کرتے، یوں بھی ہزار ہزار روپےپہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت دونوں ہی متفق ہیں۔

میں نے اب حیران ہونا چھوڑ دیا ہے، ان پچاس سالوں میں میرے ساتھ جو ہوا اس پہ اب رضیہ بھی ترس کھائے، یہ دولے شاہ کے چوہے کسی کو بیٹا دے رہے ہیں کسی کو کاروبار میں برکت، سالے جبلول بٍغلول ، دنیا سادہ ہے، خود کو میری طرح سیانا سمجھتی ہے، حالانکہ ذراکچھ ہو جائے، میرے اپنے بچے ماں کو شکایتی نظروں سے دیکھتے ہیں “یہی ایک نمونہ ملا تھا”؟

بابے سنبھال کر رکھنے کی چیز ہیں، ہمارے ایک قریبی متمول خاندان میں ایک بابا جی کو روز تین ٹائم پیمپر لگتا ہے، ان کے چھ بیٹے دو بیٹیاں جوان بچوں والے ہیں، کوئی رشتہ آجائے ، کوئی ضرورت مند رشتہ دار آجائے تو” اباجی سے پوچھتے ہیں ” اور اباجی ہمیشہ انکار کر دیتےہیں کسی سے رشتہ کرنا ہو تو ” اباجی کا حکم تھا” اور تو اور اباجی کے نام پہ تیرہ سو اقوال زریں بناکے رکھے ہیں، جو فخریہ خاندانی تقریبات پہ سناتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہی حال امریکہ کا ہے، ایک مسکین سا سائنسدان جو بیماری سے معذور ہو گیا، اسے گوگل سے اٹیچ کیا، اب بزرگوار کی ہر بات آئین سٹائن کے برابر، پلک جھپکا کر  بتاتاہے “اماں کر لئی اے، دھو دو”۔۔۔ پوری دنیا کو ڈرامہ بنا کر دکھا رہا ہے، سر کٹا انسان دیکھو، چارلی ولسن  سٹوری دیکھو ،دی کنٹرککٹر دیکھو میرے محلے کا ڈاکٹر پورن پور جو سالوں سےگوگل کا ماما بنا ہوا ہے دولے شاہ کا ایفی ڈرین پیر منڈے بانٹ رہا ہے تو یار کیا قباحت ہے، مان لو کہ امریکہ کا ہر گدھا گھوڑا ہے اور ہمارا ہر گھوڑا گدھا ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply