• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پارلیمنٹ کے بڑے پن پر قوم سراپا احتجاج/ڈاکٹر ابرار ماجد

پارلیمنٹ کے بڑے پن پر قوم سراپا احتجاج/ڈاکٹر ابرار ماجد

چند دن قبل پارلیمان نے ایک قانون سیلریز اینڈ پریویلیج آف سینٹ ایکٹ 2023 کے نام سے پاس کیاہے۔ یہ ایکٹ نو صفحات پر مشتمل ہے۔ جس پر پورے ملک میں عوام اور صحافی برادری کے اندر ایک تشویش پائی جارہی ہے۔ جس کے چند چیدہ چیدہ نکات درج ذیل ہیں۔

بارہ ملازم، آٹھ گارڈز، وی وی پی آئی سیکیورٹی اس کے علاوہ جہاں بھی وہ جائیں گے ان وفاقی یا صوبائی حکومت سیکیورٹی دینے کی پابند ہوگی، اپنے اور اپنی فیملی کے سفر کے لئے جہاز بھی مانگ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سینٹ کی فنانس کمیٹی، جو چئیرمیں سینٹ خود بناتا ہے، جو بھی فیصلہ کرے گی وہ مراعات دی جاسکتی ہیں۔

اسی ایکٹ کی دفعہ 21 ان کی رہائش پر 6 مستقل سیکیورٹی گارڈز اور 4 حکومت کی طرف سے اور اس کے علاوہ پولیس کی طرف سے بھی سیکیورٹی مہیا کی جائے گی۔ اسی طرح سیکشن 16 کی رو سے فنانس کمیٹی بارہ تک پرسنل سٹاف مستقل بنیادوں پر یا کنٹریکٹ کی بنیاد پر دے سکتی ہے۔ پھر سیکشن 20 فنانس کمیٹی کو ان مراعات کو بڑھانے کا اختیار بھی دیتا ہے۔ سالانہ آٹھ لاکھ تک اس کی حد رکھی گئی ہے مگر کمیٹی اس کو ضرورت کے مطابق بڑھانے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری یا پرائیویٹ ہسپتال سے علاج یا وہ گھر پر سہولت چاہتے ہوں تو اس کے لئے حکومت اخراجات برداشت کرے گی۔

سفر کے لئے وہ اگر چاہیں تو حکومت کے اخراجات پر حکومتی یا پرائیویٹ جہاز بھی وہ لے سکتے ہیں اور ان کا پروٹوکول ریاست کے ڈپٹی ہیڈ کا ہوگا۔ اور وہ ایک سے چار ممبران تک ساتھ لے کر جاسکتے ہیں۔ اسی طرح اگر سرکاری گھر میں رہیں تو ٹیلی فون اور گاڑیاں مفت ہونگی اوراگر اپنے گھر میں رہیں گے تو ڈھائی تین لاکھ تک کرایہ بھی ملے گا۔ اس کے علاوہ الاونسز میں بھی کافی اضافہ کیا گیا ہے۔

اس بارے پیپلز پارٹی کے حکومتی وزیر سے صحافیوں کی طرف سے سوال کیا گیا اور انہوں نے جواب میں کہا کہ چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر کو مراعات ملنی چاہئیں۔ اس میں کیا مسئلہ ہے؟

انہوں نے صحافیوں اور عوام پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ دوسروں کو مراعات ملیں تو اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ آپ کی وہاں پہنچ نہیں ہوتی۔ خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پارلمینٹ سب سے بڑا فورم ہے، چیئرمین اور اسپیکر کی مراعات پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے 35 سال میں آج تک ٹرانسپورٹ الاؤنس (ٹی اے) ڈیئرنیس الاؤنس (ڈی اے) اور مفت ادویات نہیں لیں۔

جہاں تک ان کے ذاتی طور پر الاونس نہ لینے کی بات ہے وہ قابل ستائش ہے اور اگر وہ اس وقت ملک کی معاشی صورتحال کے پیش نظریہ قانون منظور نہ کرتے تو اس میں بھی قوم کی تکلیف کی جھلک ہوتی اور اگر وہ اس پر قوم کے احتجاج پر اس کو ختم کر دیں تو یہ اور بھی زیادہ قابل ستائش ہوگا۔

مگر ان کا یہ کہنا قابل افسوس ہے”دوسروں کو مراعات ملیں تو اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ آپ کی وہاں پہنچ نہیں ہوتی” ان کے بقول اگر پارلیمان بڑا فورم ہے توان کی پہنچ تو وہاں تک ہے جہاں عوام اور صحافیوں کی پہنچ نہیں کیونکہ عوام نے اپنی طاقت ان کو سونپ کا بڑے فورم میں بھیجا ہے اور یہ ان کی ذمہ داری ہے کے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سے چھوٹوں میں امتیازی سلوک کو ختم کیا جائے اور سب کو عوام کی منشاء کے مطابق بنادے

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

بڑے پن کی نشانی تو یہ ہے کہ سب کو برابر ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے چہ جائے کہ جس پر تنقید کریں، جس کے عمل کو ظلم کے مترادف کہیں اسی کے نقش قدم پر چل پڑیں۔ اس کا تو مطلب ہوا کہ عدلیہ کے پاس بھی اختیار تھا تو انہوں نے اپنی تنخواہیں بڑھا لیں اور ان کو دیا ہوا اختیار بھی پارلیمان کا ہی ہے اور پارلیمان ہی ان سے یہ اختیار واپس لے سکتی ہے اور پارلیمان نے ان سے اختیار واپس لینے کی بجائے عوام کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اپنی مراعات کو بڑھانا شروع کر دیا ہے۔

مزید حکمراں اتحاد میں اختلاف پر بات کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ تو ان سے گزارش ہے کہ اگر ان کو اختلاف نہیں تو عوام کو تو ہے اور وہ اس پر احتجاج کر رہے ہیں اور یہ مت بھولیے کہ آپ کے اختلافات اتنی اہمیت نہیں رکھتے جتنے عوام کے اختلافات رکھتے ہیں۔ کیونکہ عوام ہی اصل سرچشمہ طاقت ہیں اور وہ کسی بھی وقت آپ کو سونپے ہوئے اختیارات واپس بھی لے سکتے ہیں اور بعض دفعہ یہ اختیارات ہوتے ہوئے بھی بے فائدہ ہوجاتے ہیں جب عوام کی طاقت پیچھے نہ ہو۔ پتا نہیں آپ اقتدار مل جانے کے بعد یہ سب کچھ بھول کیوں جاتے ہیں؟ اور پھر مکافات عمل کا شکار ہوئے رہتے ہیں۔

آج دنیا میں جو نظام حکومت میں محکموں کا ماڈل ہے اس کا آغاز حضرت عمر فاروقؓ نے شروع کیا اور ان کا ایک واقعہ ہے۔ آپ کے غلام نے بازار سے گھی کا کنستر اور دودھ کا مشکیزہ آپ کے لیے چالیس (درہم) میں خرید لیا۔ بعد ازاں غلام نے آپ کو یہ بتایا کہ آپ کا کیا ہوا عہد پورا ہوگیا اور وہ آپ کے لیے بازار سے گھی اور دودھ کا کنستر خرید لایا ہے، اس پر حضرت عمر نے فرمایا

فتصدق بهما، فانی اکره ان آکل اسرافا، کيف يعنينی شان الرعية اذا لم يمسسنی ما مسهم۔ (المنتظم، 4:250)

“تم ان دونوں چیزوں کو خیرات کر دو، کیونکہ مجھے یہ بات نا پسند ہے کہ میں اسراف کے ساتھ کھاؤں، مجھے رعایا کا حال کیسے معلوم ہوگا اگر مجھے وہ تکلیف نہ پہنچے جو تکلیف انہیں پہنچ رہی ہے”۔ حالانکہ یہ چیزیں خزانے سے خریدی بھی نہیں گئی تھیں۔

اور جن قاضیوں کی طرف اشارہ کرکے موصوف نے فرمایا ہے اس بارے تو حضرت عمر فاروقؓ کا فرمان ہے “قضاء (عدالتی فیصلہ) محکم فریضہ اور اتباع کی جانے والی سنت ہے۔ پس سمجھ لے کہ جب تیرے سر پر کوئی فیصلہ ڈالا جائے تو محض ایسے حق بتا دینے سے کوئی نفع نہیں جس کو نافذ العمل نہ کیا جائے “۔

حضرت عمر فاروقؓ نے قاضیوں کے انداز اور کردار سے متعلق فرمایا: آس بين الناس في مجلسک وفي وجهک وعدلک حتی لا يطمع شريف في حيفک ولا ييأس ضعيف۔ (نميري، اخبار مدينة، 1: 411، رقم: 1325)

“لوگوں کے درمیان اپنے چہرے سے، اپنی نشست و برخاست سے اور اپنے فیصلے سے امید دلائے رکھو تاکہ کوئی معزز آدمی تیرے ظلم کی وجہ سے بری طمع نہ کرے اور کوئی کمزور آدمی تیرے عدل سے مایوس نہ ہو”۔

ان کے بارے ان کا ایک اور واقعہ بہت ہی مشہور ہے کہ حضرت عمرؓ اور حضرت ابی بن کعبؓ کے درمیان کسی چیز سے متعلق آپس میں جھگڑا تھا، حضرت عمرنے فرمایا: آپ اپنے اور میرے درمیان کسی کو ثالث مقرر کر لیں، چنانچہ دونوں نے حضرت زید بن ثابتؓ کو اپنا فیصل مقرر کر لیا۔ پھر دونوں ان کے پاس چل کر آئے۔ حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا: ہم تمہارے پاس اس لئے آئے ہیں تاکہ تم ہمارے درمیان فیصلہ کردو۔ جب دونوں حضرات حضرت زید بن ثابتؓ کے پاس پہنچ گئے تو آپؓ نے اپنے بچھونے پر حضر عمرؓ کے لئے جگہ چھوڑ دی اور بولے: اے امیر المومنین! یہاں آئیے، حضرت عمر بے شک خلیفہ وقت تھے مگر اس وقت ایک سائل کی طرح حاضر تھے۔ حضرت زید کے اس طرز عمل پر حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا:

هذا أول جورک جرت فی حکمک أجلسنی وخصمی۔

“یہ پہلا ظلم ہے (جو تم نے اپنے فیصلے میں ظاہر کیا ایسی صورت میں) میں اپنے فریق کے ساتھ بیٹھنا پسند کروں گا”۔ (ابن جعد، المسند، 1: 260، رقم: 1728)

اس کے بعد آپ دونوں حضرات حضرت زید بن ثابتؓ کے سامنے بیٹھ گئے۔ حضرت ابی بن کعب نے کسی چیز کے متعلق دعوی ظاہر کیا، حضرت عمر نے انکار کر دیا۔ قاعدہ کے مطابق ابی بن کعبؓ پر گواہ اور حضرت عمرؓ پر قسم آتی تھی لیکن حضرت زید بن ثابت نے حضرت ابی بن کعبؓ کو فرمایا: امیر المؤمنین کو قسم اٹھانے سے تم معاف رکھو اور ان کے علاوہ میں کسی اور کے لئے ایسا مطالبہ کبھی نہ کرتا۔ مگر حضرت عمر نے از خود قسم اٹھا لی۔ معاملہ حل ہوجانے کے بعد حضرت عمرؓ نے قسم کھائی کہ جب تک عمر زندہ ہے زید کبھی عہدہ قضاء پر فائز نہیں ہوسکتا کیونکہ عمر کے نزدیک تمام مسلمانوں کی عزت و آبرو برابر ہے۔

آپ کے دور حکمرانی میں کیسے ججز تعینات ہورہے ہیں اس کے بھی آپ حکمران لوگ ذمہ دار ہیں۔ آپ لوگوں کے ادوار میں کسی طرح اپنے سیاسی کارکنان کو ججز کی نشستوں پر تعینات کیاگیا تھا جن کو افتخار چوہدری نے نکالا تھا وگرنہ آج عدلیہ کا اس سے بھی برا حشر ہوتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ ان کے فیصلوں سے بہت متاثر ہیں تو پھر الیکشن بارے فیصلے پر بھی عمل کرتے۔ آپ نے تو ان کی عزت کا رشک کھاتے ہوئے پارلیمان کے لئے توہین عزت کا قانون بھی منظور کر لیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں ان ہی کی طرز پر آپ کتنی عزت کماتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply