غالب علیہ الرحمۃ کہتے ہیں، ہر قطرے کے دل میں اناالبحر کا ساز مائل بہ ترنگ ہے۔ ہمیں یقین ہے۔ غالبؔ کو اک گونہ مشاہدہِ وجود الوجود میسر ہو گا۔ یہ ساز ”جس تن لاگے سو تن جانے“ کے مصداق سرتاپا حال کا نغمہ ہے، قیل و قال پر مبنی کوئی مقالہ نہیں۔ معلوم نہیں غالبؔ کا دن کیوں منایا جاتا ہے اور عرس کیوں نہیں۔ ایسے مکالمات و شطحیات بالعموم صاحبانِ اعراس ہی کی ہاں ملتے ہیں۔ بھلے روحانیت کے اسباق و نصاب کے معلم نہ سہی، غالب ان کیفیاتِ ہمہ اوست کے بحر میں غوطہ زن تو ضرور ہیں۔ جب مغلوب الحال ہوتے تو ایسے اشعار کہے دیتے ہیں۔
دلِ ہر قطرہ ہے، سازِ اناالبحر
ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا
پہلا مصرع اگر جذب سے مرصع ہے تو دوسرا مرقعِ سلوک! بس کسی ”تُو“ کی دریافت ہونے کی دیر ہے کہ ”میں“ کا پیکر ایک نئے قالب میں ڈھل جاتا ہے۔ ”میں“ کو زمین و زمن کے اقطار سے باہر نکلنے کی جستجو لاحق ہو جاتی ہے۔ یہ محدود ”میں“ کسی لامحدود ”تُو“ کے قربِ جمال میں ہمیشہ کے لیے رقصاں ہونے کی تڑپ میں مچل مچل جاتا ہے۔ معاشرے نے اس ”میں“ کے گرد جو مصنوعی تعریف و تعارف کی حد بندیاں قائم کر رکھی ہوتی ہیں، وہ ان سے فرار کی راہ ڈھونڈتا ہے۔ اس راہِ فرار میں، جسے حریتِ فکر بھی کہتے ہیں، اسے بصد اندازِ رسوائی کوچہِ ملامت سے بارہا گزرنا پڑے تو وہ بے دھڑک گزرتا ہے۔
قطرہ بہرحال اپنے قلزم کے روبرو ہونا چاہتا ہے…… وہ بے پردہ قلزم کا دیدار کرنا چاہتا ہے۔ قطرے کو اس سفر میں بطور زادِ راہ شفافیت درکار ہوتی ہے۔ کوئی گدلا، اپنے مسلک، حسب نسب کے تعصب میں لتھڑا ہوا، نرگسیت کے جوہڑ میں اترا ہوا، قطرہ اس تمنا سے اتنا ہی دور ہوتا ہے جتنا مشرق مغرب سے۔ بہرطور اگر وہ اپنے کل سے واصل ہونے کی تمنا کو اجالنا چاہتا ہے تو اسے شفاف ہونا پڑے گا…… اس شفافیت میں اترنے کے عمل کو تزکیہ کہتے ہیں۔ جب اسے تزکیے کی خو لاحق ہوتی ہے تو یہ اپنے سے بہتر، اپنے سے شفاف تر کسی قطرے کی طرف رجوع کرتا ہے۔ وہاں دیکھتا ہے کہ وہ اکیلا نہیں، بلکہ یہاں تو تمنائے وصالِ قلزم میں گرفتار قطروں کا ایک میلہ بپا ہے۔ اس میلے میں وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر تقویت پکڑتے ہیں اور اپنا
گدلا پن دور کرتے ہیں۔ اپنے ہم نوالہ و ہم پیالہ قطروں کے سنگ وہ سنگت کے آداب میں ڈھلتا ہے۔ رفعت کے لیے پر تولتا ہے…… ترفیع اجتماعی ہے، وصل انفرادی اور ذاتی!!
سنگت کی ہمراہی میں وہ رفعت پذیر ہوتا ہے تو ابرِ رحمت کی صورت مخلوق پر چھتر چھاؤں کرتا ہے۔ قافلہ ابر میں شامل ہر قطرہ الگ نصیب لے کر آتا ہے۔ کوئی قطرہ نیساں بنتا ہے، تو کوئی براہِ راست قلزم سے واصل ہو جاتا ہے، کوئی دریا برد ہو جاتا ہے تو کوئی قطرہِ شبنم بن کر کسی گلشن کی تزئین کا سامان کرتا ہے۔ بہر طور دریا برد ہونے والا بھی بالواسطہ واصلِ قلزم ہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ من جانبِ قلزم رواں ہے۔
صاف شفاف، معطر و مقطر قطرہ جب خیال کے آسمان پر رفعت پذیر ہوتا ہے تو وہ محسوسات کی دنیا میں رہنے والوں کے ہاں بے نام و نشاں ہوتا ہے۔ وہ مرسلات کے رحم و کرم پر ہے…… رحمت کی ہوائیں اسے جس اور بھی لے جائیں وہ بہ تسلیم و رضا چل پڑتا ہے۔ قلزم موجود ہے، لیکن قطرے کی رسائی سے دور، بہت دور ہے۔ وہ قلزم کی موجودگی کی دلیل سے بے نیاز ہے…… شاید وہ دلائل و شواہد کی ضرورت سے بے نیاز ہو چکا ہے۔ اسے شواہد سے زیادہ مشاہدے پر بھروسہ ہے اور دلیل سے زیادہ دل کی بات ماننے میں وہ زیادہ سکون محسوس کرتا ہے۔ وہ خارج میں متحرک ہے، باطن میں ساکن ہے۔ ساکنانِ باطن اس کی راہ تک رہے ہوتے ہیں۔ زمین سے زیادہ آسمانی سفر میں وہ زیادہ سہولت میں ہے۔ اسے شرح صدر حاصل ہو چکا ہے، اس لیے آسمانی پرواز میں اس کا دم نہیں گھٹتا۔
رفعتِ خیال کے آسمان کی بے پناہ وسعتیں جب اسے سفر کی طولانی سے ڈراتی ہیں تو من جانبِ باطن بشارات و اشارات اسے نیا عزم و حوصلہ دیتے ہے۔ اسے اشارہ ملتا ہے کہ اپنے من میں جھانک کر دیکھو! وہ ذرا سی گردن جھکا کر دیکھتا…… اسے تصویر یار دکھائی دیتی ہے۔ عجب بات ہے، اسے قلزم دکھائی نہیں دیتا…… لیکن وفورِ شوق میں جو کچھ بھی دکھائی دیتا ہے، وہ واصلِ قلزم کسی قطرے کی صورت ہوتی ہے۔ محدود محدود ہی کا مشاہدہ کرے گا، محدود لامحدود کے سنگ تو ہو سکتا ہے، اسے دیکھ نہیں سکتا۔ ”جنس باہم جنس پرواز“ کے مصداق باز کسی شہباز کی ہمراہی میں لامحدود وسعتیں طے کرتا رہتا ہے۔ وہ جس آسمانِ خیال پر ہوتا ہے، اس آسمان سے پرے ایک اور آسمان اس کے لیے فرشِ راہ ہوتا ہے۔
قطرے کو قلزم دریافت کرنے سے پہلے اپنا دل دریافت کرنا ہوتا ہے۔ دل …… جو مکاں کے اندر لامکاں کا سماں ہے۔ دل …… جو محدود کے اندر لامحدود پہنائی کا پتہ دیتا ہے۔ قطرہ جب بصورتِ دل اپنے اندر لامحدود امکان دیکھتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ قلزم نہ سہی عکسِ قلزم ضرور دیکھتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ اس کے باہر بھی لامحدود پہنائی ہے اور اندر بھی ان حد گہرائی ہے۔ اپنے اندر لامحدود کا عکس منعکس ہوتے ہی وہ کسی اور قطرے کے لیے مانندِ قلزم ٹھہرتا ہے۔ وہ آفاق اور انفس ہر جا لامحدود کا مشاہدہ کرتا ہے اور من جملہ شاہدین میں شامل ہوتا ہے۔
لازم ہے کہ گوشِ مشتاق وہ نغمہ بھی سنے جو ابھی ساز میں ہے۔ سازینہئ دل کبھی بے ربط نہیں ہوتا۔ دل کا دل سے رابطہ ہوتا ہے، اس لیے کوئی نغمہِ شوق بے ربط نہیں ہوتا۔ ”تُو“ کی دریافت کے بعد ”میں“ بے ربط نہیں رہتی…… درحقیقت کُل کی دریافت جزو کی ہیئتِ اصلیہ کو تبدیل کر دیتی ہے۔ وہ دیکھنے میں جزو ہے، لیکن کُل سے باخبر ہے…… وہ کُل کو پہچانتا ہے…… کیونکہ وہ خود کو پہچان چکا ہے۔ خود کو پہچان لینے کا لازمہ خود کی نفی ہے…… خود کی نفی ہی خدا کا اثبات ہے…… خدا کی دریافت ہے…… جو کسی بیرونی دلیل کی محتاج نہیں رہتی۔ قطرہ قلزم کی دلیل پیش نہیں کرتا بلکہ خود کو پیش کرتا ہے…… وہ خود مست ہے، اور خدا مست ہے۔
کوئی درویش، خدامست، قلندر واصفؒ
آ گیا تیرے مقابل تو وہیں مات سمجھ
یہ وادی تحیر ہے…… اسے وادی معرفت بھی کہتے ہیں۔ اس وادی میں سفر، سفر در سفر ہے۔ راہی اور راہبر دونوں ہمسفر ہیں۔ سورج اپنے گرد ایک ہجومِ سیارگان کا طواف لیے ہوئے خود کسی مستقر کی جانب محوِ سفر ہے۔ یہ قطرہ در قطرہ اور قلزم در قلزم کی داستان ہے۔ اس میں جو جہاں ساکن ہو گیا، جہاں مستقم ہو گیا، وہیں راز پا گیا۔ جو خود میں ڈوب گیا، وہی پایا گیا۔ قلزمِ ہستی ہو یا قلزمِ مستی…… اس میں مستغرق ہونا ہی مدعائے سفر ہے…… دوئی کا کافور ہونا اور یکسوئی و یکتائی کا پا لینا ہی منزلِ وحدت ہے۔ جسے جہاں منزل نصیب ہوئی وہ روہی کے غلام فریدؒ کی طرح پکار اٹھا:
خلقت کوں جیدی گول ہے
ہر دم فرید دے کول ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں