کل ہی کی بات ہے کہ ویلنٹائن کے حوالے سے ایک تحریر پڑھ کر میں نے کسی سے کہا تھا کہ ویلنٹائن کے موضوع پہ اس مرتبہ اتنی تحریریں پڑھی ہیں کہ بیزاریت ہونے لگی ہے۔ رائٹ ونگ، لبرل ونگ ، اسلامی و غیر اسلامی اور کئی متوازن خیالات رکھنے والوں کی تحریریں نظروں سے گزریں۔
لیکن معلوم نہ تھا کہ دو ہزار سترہ پہ محبت کرنے والوں کا یہ دن موت کا پیغام لے کر آنے والا ہے۔ اہلِ لاہور کے محبت کے نام پہ سجائے گئے پھول مال روڈ پہ معصوم بے گناہ شہیدہونے والوں کے نام ہوجائیں گے۔ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا کہ تیرہ فروری کی ایک شام ایسی بھی تھی جب اجل لاہور کے مال روڈ پہ لوگوں کو موت کے پھول بانٹ رہی تھی۔
جب ملک کے حکمراں ہزاروں اہلکاروں کی سیکیورٹی میں سکون سے بیٹھے ہوں۔ وہاں اجل کو اپنے پھول بانٹنے کے لئے عام لوگ ہی مل پاتے ہیں۔ عام لوگ جن کا نام بھی کوئی نہیں جانتا لیکن ایک دن کے لئیے وہ بہت خاص ہوجاتے ہیں کہ ان کے نام اخباروں اور نیوز چینل کی زینت بن جاتے ہیں لیکن افسوس جب تک ان کے نام کے ساتھ شہید کا لاحقہ لگ چکا ہوتا ہے۔
لیکن اس دفعہ یہ لہو کی سرخی ایسے موقع پہ آئی ہے جب شہر میں ہر طرف سرخ پھولوں، غباروں، اور محبت کے پیغاموں سے بھرے کارڈز دکانوں پہ آویزاں تھے کہ یکایک موت کی ردا نے شہر کو ڈھانپ لیا۔ کِھلتے گلابوں پہ راکھ آگری۔ خاک و خون کی بو نے ہواؤں کو آلودہ کردیا۔ اور لاہور کے مال روڈ پہ انسانی اعضاء تھے، دھواں تھا اور انسانی چیخیں تھیں۔
بسنت کا موسم ہے لیکن بسنت کے رنگ دھندلا گئے ہیں۔ پتنگیں اڑنے سے پہلے نیچے آگری ہیں۔ اور شہر والوں نے آج ایک ایسا ویلنٹائن ڈے منایا ہے کہ ہر آنکھ اشک بار ہے اور ہر دل اداس ہے۔ محبت کے نام پہ تقسیم کئے جانے والے پھولوں کے مقدر میں قبرستان کی نذر ہونا لکھ دیا گیا ہے ۔
آئیے اس ویلنٹائن پہ ہم بھی اپنے آنسوؤں کا نذرانہ پیش کریں اور جانے والوں کو الوداع کہیں کہ محبت نے آج اپنا ڈیرہ کہیں اور جمالیا ہے کسی ایسی جگہ جہاں امن ہو آتشی ہو محبت ہو اور
جہاں ویلنٹائن پہ اجل پھول نہ تقسیم کرتی ہو۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں