کب ہاتھ میں تیرا ہاتھ نہیں ۔۔حبیب شیخ

دو ہاتھ ایک دوسرے کو تھامے ہوئے
ایک ہاتھ دوسرے کو سہارا دیے ہوئے
محبت، الفت ، سب کچھ ایک دوسرے کے لئے
ایک ہاتھ تیزی سے سرد ہو رہا تھا
گرم ہاتھ نے سرد ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑ لیا
گرم ہاتھ اب سرد ہاتھ کو ہلا رہا تھا
سرد ہاتھ بے جان ہو گیا حس سے عاری
گرم ہاتھ والے انسان کا پسینہ اب خون میں مل رہا تھا، اس کا چہرہ سسکیوں اور آنسوؤں کا سراپا بن گیا
اس کا اپنا جسم چور چور، اس کا ساتھی شاید بچھڑ چکا تھا
ابھی ایک لمحہ پہلے دونوں ہاتھ پکڑے ہوئے فٹ پاتھ پہ چل رہے تھے
یکایک آسمان سے آگ برسی تھی۔ عمارتیں، انسان، اشجار سب ملبے میں تبدیل ہو گئے تھے
زمیں ایسے ہل گئی جیسے کوئی زلزلہ آ گیا تھا۔اس زلزلے نے دونوں کو زمین پہ پٹخ دیا تھا
اڑتی ہوئی خاک اور دھویئں میں دونوں نے لیٹے لیٹے ایک دوسرے کو ٹٹولا، ہاتھ نے ہاتھ کے لمس کو پہچان لیا تھا
اب گرم ہاتھ والے انسان نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن وہ خود زخمی تھا
یہ دونوں کون تھے؟
کسی کے لئے غدار، کسی کے لئے محبِ وطن
شاید دونوں غدار تھے، شاید دونوں محبِ وطن، یا ایک غدار اور ایک محبِ وطن
دونوں یوکرین کے باغی علاقے ڈونسٹک کے رہنے والے
راکٹ فائر کرنے والے نے یہ سوچا کہ یہاں باغی رہتے ہیں
راکٹ فائر کرنے والے نے یہ نہیں سوچا کہ یہاں انسان رہتے ہیں

(1) ۔ فیض احمد فیض کی غزل سے اقتباس

Advertisements
julia rana solicitors

حوالہ ۔ چودہ مارچ کو یوکرین کی فوج کا ڈونسٹک پر حملہ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply