فونیشین زبان اصلا ابتدائی عرب آباؤ اجداد کی زبان ہے جو ساحلی شہروں میں آباد ہوئے اور پوری قدیم تاریخ میں تہذیب کی یادگاریں دیں جن کے نشانات قدیم تعمیرات میں ملتی ہیں، یہ چھوٹے قبیلوں میں مہذب لوگ تھے، جو شیشے کی صنعت میں نمایاں ہوئے اور انہوں نے حروف تہجی کے حروف ایجاد کیے، جو آج استعمال ہوتے ہیں۔ جسے بعد میں رومیوں اور یونانیوں نے لیا، لیکن عرب میں علوم بشریات anthropology کے علم سے تعلق رکھنے والوں کا اس میں ایک اختلاف اور بھی ہے کہ
“تمام فونیشین ایک جیسے عرب نہیں ہیں، بلکہ، عرب آرامی تھے، اور یہاں تک کہ تمام آرامی بھی عرب نہیں ہیں، صرف آرامیوں کا ایک حصہ، نیم بنجر علاقوں (پالمیرا اور پیٹرا) کے باشندے عرب ہیں۔ جنہوں نے اپنے گھر اور شہر چٹان میں تراشے لیکن آخر میں یہ سب کزن ہیں۔ شام کے علاقوں تک پھیلے ہوے تھے۔”
فونیشینوں کے بڑے دیوتا کا نام بعل تھا، اور پالمیرا میں اس کا سب سے بڑا مندر تھا، یہ “بیل” کا مندر تھا، جسے انگریزی میں Temple of Baal، کہتے ہیں، فونیشین موسیقی، لوک رقص میں بھی کمال رکھتے تھے، اس کے علاوہ سفر اور دریافت کا شوق۔ بی رکھتے تھے۔ آرامی اور ان کے تجارتی قافلے وسطی ایشیا کے صحراؤں سے ہوتے ہوئے چین پہنچے تھے۔ وہ بحیرہ روم کو پار کرکے اندلس پہنچے، اسے نوآبادیات بنایا، اور کانسی کے زمانے سے یہاں آباد ہوئے، اور بحیرہ احمر کے اس پار ایلات سے وہ یمن اور عمان تک پہنچے، جہاں انہوں نے عمانی ساحلی علاقے سے مالدیپ، ہندوستان کے انتہائی جنوب (کیرالہ)، فلپائن، انڈونیشیا اور مشرقی افریقہ کو اپنا مسکن بنایا اور وہ زنجبار سے کئی دوسرے ملکوں تک پہنچے۔
فونیشین نے اپنی ذہانت اور دریافتوں سے فائدہ اٹھایا اور شمالی افریقہ میں اپنی موجودگی کی خصوصیات کو منوایا، عرب عالم بشریات ڈاکٹر عبداللہ یونس نے ان کی فکری اور سائنسی لسانی یار کو ” اللغتہ الفینیقیہ” میں سمیٹا ہے، ان کی یہ کتاب جولائی سنہء 2019 میں شائع کی تھی، ڈاکٹر ایاد عبداللہ یونس کی یہ لغتہ اس زبان کی حقیقت جاننے میں معاونت کرتی ہے، ۔ جس میں فونیشین زبان کو سائنسی لسانی تجزیہ کے ساتھ پیش کیا ہے، جس میں کئی معدوم الفاظ تلاش کئے گئے، ان کے ماخذات پر بحث موجود ہے، اور تقابلی تاریخی وضاحتی تجزیے کےساتھ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سامی زبانیں صہیونیوں کی طرف سے اپنے منصوبے کی تکمیل کے لیے ایک صہیونی چال ہے اور عربی زبان ہی زبانوں کی اصل ہے، اور یہ کہ تمام قدیم مشرقی زبانوں کی اصل زبان عربی ہے۔ یعنی یہ دعویٰ رومن اور یونانی زبانوں کے ماخذات کے مقابل ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں