بوسنیا ہیرزیگووینا/امتیاز احمد

میرے لیے سری لنکا اور مراکش کے بعد یہ تیسرا ایسا ملک ہے، جہاں پاکستان کا نام سنتے ہی سامنے والے کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ مجموعی طور پر یہاں کے لوگ خوش شکل اور ملنسار ہیں۔ کسی لڑکے، لڑکی یا بزرگ سے راستہ پوچھ لیں، وہ آپ کو فوری کہے گا کہ میں آپ کو وہاں تک چھوڑ آتا ہوں۔ میں یہاں مختصر وقت کے لیے آیا ہوں لیکن چند لوگ ایسے ملے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے برسوں کی شناسائی ہے۔

سفر کرنے کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کو سنانے کے لیے ہزاروں کہانیاں مل جاتی ہیں۔ تاریخ سے لبریز بوسنیا ہیرزیگووینا ایک طویل عرصے تک جنگ میں رہا ہے۔ کئی پرانی عمارتوں پر ابھی تک گولیوں کے نشانات ہیں اور جنگ کی ہولناکی کی نشاندہی یہاں کے بڑے بڑے قبرستان بھی کرتے ہیں۔ یہاں آپ کو نوجوانوں کی تعداد کم نظر آتی ہے۔ زیادہ تر نوجوان بڑے شہروں میں دیکھنے کو ملتے ہیں اور ان کی ایک بڑی تعداد بیرونی ممالک میں جا کر آباد ہو چکی ہے۔

تقریباََ سارا بوسنیا ہی سرسبز پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے۔ جگہ جگہ جھرنے، دریا اور ندی نالے نظر آتے ہیں۔ مراکش کی طرح یہاں بھی ہر شعبے میں خواتین کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ خواتین فعال اور خود مختار ہیں۔ کئی جگہوں پر مساجد میں خواتین کی تعداد مرد حضرات کے تقریباََ برابر ملتی ہے۔ آگے مرد ہیں تو پیچھے ایک کونے میں خواتین اپنی صف بنا لیتی ہیں۔ اسی طرح بازاروں میں بھی ہر دوسری دکان کوئی نہ کوئی خاتون چلا رہی ہے۔ آئیس کریم بیچنے سے جیولری اسٹالز اور ریستوران تک خواتین چلا رہی ہیں۔

دارالحکومت سرائیوو کا قدیم بازار (بش چارشیا) کسی حد تک ترکی کی استقلال اسٹریٹ سے ملتا جلتا ہے۔ یہاں بھی اسلام سلطنت عثمانیہ کے ذریعے پہنچا تو البانیہ کی طرح یہاں بھی ترک ثقافت کے آثار بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔ کھانے یہاں کے بھی پورے بلقان خطے کی طرح پھیکے ہیں۔ مصالحوں کا استعمال بہت کم کیا جاتا ہے لیکن تازہ پنیر تقریباََ ہر دوسرے کھانے کا حصہ ہوتا ہے۔

بوسنیا کو آپ مذاہب اور ثقافتوں کا بہترین امتزاج بھی کہہ سکتے ہیں۔ جہاں کوئی عبادت گاہ ہوگی، اس کے قریب ہی کوئی شراب خانہ بھی ملتا ہے۔ ایک مینار والی چھوٹی چھوٹی مساجد تقریباََ ہر گاؤں میں نظر آ جاتی ہیں۔ بلقان خطے کے تقریباََ سبھی شہری مراکز میں ایسی ہی چھوٹی مساجد ہیں، جو سلطنت عثمانیہ کے دور کی ہیں۔ یہاں کی پچاس فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے لیکن اکثریت معتدل مزاج مسلمانوں کی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہاتھ سے پیتل پر نقش و نگاری کرنے والے تقریباََ ہر بازار میں ملتے ہیں۔ رات کو شیشہ بار نوجوانوں سے بھرے ملتے ہیں۔ ان دنوں یورپی ممالک تک پہنچنے کے خواہشمند پاکستانی، افغانی اور دیگر ممالک کے مہاجرین بھی اس ملک کو بطور ٹرانزٹ روٹ استعمال کر رہے ہیں۔ دارالحکومت میں سٹالن بریج ابھی تک قائم ہے۔ اسی پُل پر پہلی گولی چلی تھی اور پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہوا تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply