میں اب کہیں بھی پڑھا نا نہیں چاہتا۔۔۔۔احمد حماد

شعبہ تدریس سے وابستہ ہونا جان و مال، اور عزت و آبرو کے لیے اس قدر خطرناک ہو سکتا ہے، مجھے اندازہ نہیں تھا۔

میں اس کام کو پیغمبروں کی میراث سمجھتا اور دل و جان سے محنت کرتا۔ دیانت کے ساتھ کام کرتا اور سچائی پہ عمل بھی کرتا تلقین بھی۔

سال 2014 سے میں ایک پبلک یونیورسٹی میں فلم کی تدریس سے وابستہ تھا۔ اس یونیورسٹی میں فلم کا مضمون متعارف ہی میں نے کروایا تھا، اور اب اس کا ڈپلومہ شروع کرنے پہ باقاعدہ غور ہونے لگا تھا۔ وائس چانسلر نے ہماری HoD سے کہہ دیا تھا کہ اس مضمون کی بےپناہ کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ڈپلومہ کورس میں تبدیل کریں۔

اسی اثناء میں ایک ایسا واقعہ ہوا کہ جس نے تدریس سے مجھے ہمیشہ کے لیے متنفر کر دیا۔ چھے ماہ پہلے تک اس یونیورسٹی میں فلم پڑھانے کے لیے میں سلیبس اپ ٹو ڈیٹ رکھنے کی خاطر برطانیہ اور امریکہ سے کتابیں منگواتا، اپنی جیب سے روپیہ خرچ کر کے اسٹوڈنٹس کے لیے جدید سازوسامان خریدتا تاکہ وہ اس جدید علم سے بہتر انداز میں متعارف ہو سکیں۔ اپنا لیپ ٹاپ، ایکسٹینشن، پروجیکٹر اور سپیکرز مزدوروں کی طرح اپنے کاندھوں پہ لادے ایک ڈیپارٹمنٹ سے دوسرے ڈیپارٹمنٹ جاتا۔ ہر کلاس میں سارا سسٹم جوڑ کے لیکچر دیتا اور لیکچر ختم ہونے پر یہی سسٹم Dismantle کر کے دوبارہ کاندھے پر لادتا اور آفس آتا، اگلے لیکچر کے انتظار کے لیے۔ سارا سیمسٹر یوں ہی گزرتا۔ کئی سال یہی روٹین رہی۔

اس یونیورسٹی میں دیگر پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی نسبت پیسے مجھے 10 گنا کم ملتے۔ پھر بھی یہاں ذوق و شوق سے جاتا۔
ایک وجہ تو یہ تھی کہ یہاں میرے مرشد اور عظیم شاعر زیر تعلیم رہے۔ اور دوسری وجہ یہ کہ یہاں ننانوے فیصد بچے لوئر مڈل کلاس فیملیز سے آتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ علم کے دروازے ہر خاص و عام کے لیے کھلے ہونے چاہئیں۔ اگرچہ برطانوی/امریکی طرز تعلیم میں یہ ممکن نہیں، پھر جہاں تک ہم اپنے بھائی بہنوں کی خدمت کر سکیں۔ سو، میں اسی جذبے کے ساتھ دیگر یونیورسٹیوں میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ یہاں بھی پڑھاتا۔

پھر ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے مجھے نہ صرف اس ادارے میں پڑھانے بلکہ کہیں بھی پڑھانے سے ہمیشہ کے لیے متنفر کر دیا۔

واقعہ یہ ہے کہ وہاں ایک سرکاری ملازم جو خود کو سی ایس پی بتاتا ہے مگر بیچارا CSS میں فیل ہو گیا تھا۔ PMS کر کے سرکاری ملازمت میں آیا اور وہاں سے اس جامعہ میں بطور منشی بھرتی ہو گیا۔ اس کی بیوی جو تقریباً سبھی کلاسز سے غیر حاضر رہتی تھی میرے پاس دو بار پڑھنے آئی۔ ایک بار 2016 میں، تب بھی غیر حاضریوں کی وجہ سے یونیورسٹی نے اسے نااہل قرار دیا تھا مگر اس کے منشی خاوند کے اثررسوخ نے اسے امتحان میں بٹھا دیا۔ 2018 میں بھی یہی ہوا۔ مسلسل تین ماہ کی غیر حاضریوں کے باعث یہ دوبارہ Ineligible ہو گئی۔

اب کی بار یہ منشی خود میدان میں کود پڑا۔ اس نے مجھے فون کالز پہ ڈرایا دھمکایا، حاضریاں ٹمپر کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ مجھے اپنے دفتر میں طلب کیا۔ مجھے گِھن آئی اس کی بدمعاشانہ روش دیکھ کر کہ خود منشی ہے اور اپنی نکمی اور نالائق بیوی کے لیے ایسے اساتذہ کو ہراساں کر رہا ہے جو ادارے کے ساتھ وفادار ہیں، اس سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، اور محنت دیانت شرافت اور خدمت پہ یقین رکھتے ہیں۔ میں نے استاد ہونے کے ناطے اس منشی کے دفتر حاضر ہونے سے انکار کیا اور کہا کہ آپ یہ معاملہ میری HoD کے ساتھ ڈسکس کریں۔

اس کے بعد اس نے وہاں اپنے جیسے دو چار کرپٹ مگر بااثر عناصر کو ساتھ ملا کر مجھ پر ظلم کے پہاڑ توڑنا شروع کر دیے۔ پہلے میری سب تنخواہیں ضبط کروائیں، پھر برطرف کروایا۔ وائس چانسلر، جن کو میں نے 5 خطوط لکھے، ان تک خطوط پہنچانے کے بجائے سارے واقعے کی غلط تصویر پیش کرتے رہے اور فیصلے لیتے رہے۔ مجھے دھمکیاں بھی دیتے رہے۔ اور سرکاری طور پہ ہر جگہ جھوٹ بھی بولتے رہے۔

میں نے جب عدالت سے رجوع کیا اور سنڈیکیٹ کی ایک رکن سے بات کی تو تب تک منشی اور اس کے تین ساتھی اس معاملے کو ہراسمنٹ کا رنگ دے چکے تھے اور پبلک کو بتاتے پھرتے کہ مجھ پہ انکوائری بیٹھی ہے جو ہراسمنٹ کے ساتھ ساتھ پیپر غائب کرنے کے معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔

یہ بھی جھوٹ تھا۔ کوئی انکوائری نہیں بیٹھی تھی۔ مجھے میرے جرائم بتائے بغیر پیسے روکے گئے اور برطرف کیا گیا تھا۔ یکطرفہ کارروائی کو انکوائری کہہ کر اداروں کو بھٹکانا ان عادی مجرموں کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ اس کے علاوہ، آپ کی عدم موجودگی میں یکطرفہ طور پر آپ کے خلاف گواہ پیدا کرنا، ثبوت پیدا کرنا ان ماہرین کے لیے مسئلہ نہیں۔ اور یہ لوگ یہی کر رہے ہیں۔ اپنے Ineligibility، برطرفی اور تنخواہ ضبطی ایسے مظالم کو چھپانے کے لیے اب رنگا رنگ الزامات لگا رہے ہیں اور ثبوت پیدا کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ منشی کی بیوی کی نااہلی سے پہلے مجھ پر کوئی الزام تو درکنار، شکایت بھی نہیں تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں یونیورسٹی ریکارڈ کے مطابق پاپولر ترین اساتذہ میں شمار کیا جاتا تھا۔

میں نے وزیراعظم پورٹل پہ منشی کی شکایت کی اور درخواست کی کہ تحقیقات کریں کہ پیسے کس کے حکم سے ضبط ہوئے۔
وہاں بھی جھوٹ بول دیا منشی اور اس کے ساتھیوں نے۔ اور آج تک پتا نہ چل سکا کہ پیسے کس کے تحریری حکم سے، اور کیوں ضبط کیے گئے؟ کس جرم پر، کس قانون کے تحت؟؟؟

حیرت انگیز اور شدید اداس کرنے والی بات تو یہ ہے کہ وہاں کے آفیشلز، اساتذہ اور طلبا و طالبات سب جانتے تھے کہ حقیقت کیا ہے، ظالم کون ہے مظلوم کون۔ پھر بھی کسی نے مظلوم کا ساتھ نہ دیا۔ بعضوں نے تو الٹا ظالموں کی باقاعدہ سہولت کاری کی۔

اس ساری بدمعاشی کو جھیلنے کے بعد میں اس یونیورسٹی میں ہی تدریس سے تائب نہیں ہوا، بلکہ کہیں بھی پڑھانے سے تائب ہو گیا ہوں۔ دلبرداشتہ اتنا ہوں کہ اب کسی سے اس بارے میں بات کرنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ یہاں اس لیے لکھ دیا کہ میرے دوستوں کو پتا ہو کہ وہاں کیا ہوتا رہا۔ وہ ہر وقت ہر جگہ غلیظ پروپیگنڈا کر رہے ہیں جبکہ میں سات ماہ سے خاموش ہوں۔

کہیں بھی پڑھانے سے متنفر اور تائب اس لیے ہوا ہوں کہ کل کلاں کوئی بھی نکما اسٹوڈنٹ اٹھ کر محض اس بنیاد پہ آپ کی جان و مال کے لیے خطرہ بن جائے کیونکہ اس کا باپ/بھائی/خاوند کسی سرکاری ادارے میں ملازم ہے اور آپ کو عبرت کا نشان بنانے کی ٹھان سکتا ہے۔ اور، اس کے کرپٹ ساتھی سارے سسٹم کی آنکھوں میں دھول جھونک کر الٹا آپ ہی کو مقدمات میں پھنسا سکتے ہیں، پھانسی پر لٹکوا سکتے ہیں اور آپ کی عزت کی دھجیاں بکھیر سکتے ہیں۔
توڑ اس دستِ جفاکیش کو یا رب!!!!!

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ:
(یونیورسٹی اور بدکردار منشی اور اس کے تین رفقائے کار کے نام اس لیے نہیں لکھے کیونکہ یہ کرپٹ افراد اس مقدس درسگاہ کی آڑ لے کر مقدمہ بازی کرتے ہیں۔ میں بےقصور، مظلوم اور حق پہ ہونے کے باوجود یہ سب بھگت رہا ہوں۔ مزید مقدمے/تھانے کچہریاں بھگتنے کی سکت نہیں رہی)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply