انتخابی اصلاحات میں حکومت سنجیدہ نہیں۔۔ شہزاد سلیم عباسی

دیکھا جائے تو تینوں متنازع  الیکشن کمیشنرز لگانے والی یہی تینوں بڑی پارٹیاں ہیں جو آج حکومت اور اپوزیشن ہیں۔ معاملہ بڑا سادہ سا ہے کہ نیب کو بنانے والے موجودہ حکومت اور اپوزیشن ہی تھے۔ جب انہوں نے نیب بنایا تو اس وقت نیب ٹھیک ادارہ تھا مگر جب حالات مخالف سمت چل پڑے تو پھر نیب کالا قانون اور بے مقصد ہوگیا۔کسی سیانے نے خوب کہا افسوس ہوتا ہے جب لوگ حکومتوں میں ہوتے ہیں تو نیب کو انجوائے کرتے ہیں اور جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو اس پر لعن طعن کرتے ہیں۔ نیب ایک قومی احتساب کا بہترین ادارہ ہے جس کا ہر قانون مسلمہ ہے اور حقیقت ہے۔بس مسئلہ یہ ہے کہ خود کو گناہوں سے کلین چٹ دلوانے کے لیے نیب قانون سے روگردانی کرنا پڑتی ہے۔نیب کے کیسز بنانے سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم لیگ نواز، پی پی پی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) اس وقت صرف اور صرف اپنی اپنی پارٹی سربراہوں اور ان کے اہل عیال کو احتساب سے بچانا چاہتے ہیں۔

حقیقت احوال یہ ہے کہ نیب ایک ایسی لٹکتی جمہوری تلوار ہے جو حکومت میں ہوتے ہوئے صرف اپوزیشن پر چلتی ہے اور اسی لیے تو لڑائی بڑھتی ہے اور اس پر اقرباء پروری اور زیادتی کے طعنے لگتے ہیں۔کچھ ایسے ہی معاملات عدلیہ کے حوالے سے بھی نظر آتے ہیں۔ چونکہ عدلیہ بظاہر آزاد نظر آتی ہے اس لیے صدر مملکت نے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف نہ صرف ریفرنس بھیجا بلکہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ کے ذریعے اُن کی بھرپور ٹرولنگ بھی کروائی جارہی ہے۔ نیب پرہمیشہ الزام ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے ماتحت ادارہ ہے اسی لیے نیب ہمیشہ اپوزیشن کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔

حالیہ کچھ عرصے سے جاری رسہ کشی اب تھم چکی ہے۔ وہی ہوا جس کااندازہ تھا۔ ایک بار پھر پی پی پی دام صیاد کے چنگل میں ہے اور ن لیگ کو بھی راہ راست کی طرف آنے کی دعوت دے رہی ہے۔ خیر حکومت اور پی پی پی میں جمی برف اب تقریبا پگھل چکی ہے۔ پی ڈی ایم کے غبار ے سے بھی ہوا نکل چکی ہے۔ اب ن لیگ اور پی پی پی والے ایک دوسرے پر سلیکٹڈ کے طعنے لگارہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیای جماعتوں کے پاس کیا آپشنز ہیں؟اپوزیشن کے پاس کیا راستے ہیں؟

ایسے میں حکومت کو اپنے کچھ سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے چند افراد مثلاََ فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی یا ندیم افضل چن کو اپوزیشن کے پاس بھیج کر ایسی سبیل نکالنا ہو گی جو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہو۔ مذکورہ سیاسی لوگ ایسا جامع اصلاحاتی نظام تجویز کریں جس میں صرف انتخابی اصلاحات نہیں بلکہ عدل و انصاف سمیت وہ تمام اصلاحات شامل ہوں جس سے ملک کی مستقل راہ متعین کی جائے۔ ایسے لوگوں کو اپوزیشن سے ملاقاتیں کرکے کوئی وے فارورڈ نکالنے کا مکمل اختیار ہو اور ان کی مشرکہ تجاویز کو ایوان بالا و زیریں کا حصہ بنا کر جلد منظور کرایا جائے اور اسے قانون کا حصہ بنایا جائے۔ اور اسے میثاق جمہوریت کے طور پر سائن کیا جائے کہ یہ قوانین فوری نافذ العمل ہو ں گے جیسے چائنہ، برطانیہ، امریکہ اور سعودیہ میں ہوتا ہے۔ وگرنہ تو ایسے ڈرامے ہر پانچ سالہ دور میں شوشے کے طور پر چند دن سکرین پر زندہ رہنے کے لیے چھوڑے جاتے ہیں جن کا کچھ خاص حاصل حصول نہیں ہوتا۔

پاکستا ن مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف انتخابی اصلاحات میں سنجیدہ نظر نہیں آتیں اور تینوں عملاََ اصلاحات سے منحرف نظر آتی ہیں۔ ملک کے نظام کو صحیح سمت چلانے کے لیے انتخابی اصلاحات کے علاوہ بہت سی بنیادی اصلاحات ہیں جن کی ضرورت ہے۔ انتظامی اصلاحات ہوں، مقننہ اصلاحات،عدالتی اصلاحات، میڈیا اصلاحات، عسکری و سول اصلاحات، تعلیم و صحت کی اصلاحات، انفرادی و اجتماعی اصلاحات۔۔یہ سب اصلاحات نہ صرف ضروری ہیں بلکہ ایک دوسرے کے لئے ناگزیر ہیں۔ ان میں سے کسی ایک پر عمل کر کے کسی دوسرے کی نفی ممکن نہیں۔ اگر ریاست کے 20 آرگنز ہیں تو ایک آرگن سے کام نہیں چلتا بلکہ تمام آرگنز کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ اس لیے اگر جامع اصلاحات پروگرام لانچ نہیں ہوگا تو دو نقصان ہوں گے ایک تو یہ کہ ان اصلاحات پر صرف بات ہو گی یا صرف قانون بنے گا اور ایسے میں حکومت کے لئے توقابل عمل ہوگا اپوزیشن کے لیے نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ خود کواحتساف کے لیے تیار کیے بغیر ریفارمز بن جائیں گی ، اور اس کا کچھ فائدہ ہوگا تو یہ صرف خام خیالی ہے اور وقت کا ضیاع ہے۔ حکومت وقت اور اپوزیشن خود کو احتساف کے لیے تیار کریں تو ریفارمز پراسس خود بخود شفاف ہوگا اور قابل رشک بھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply