برینڈ/ادارہ۔۔۔زین سہیل وارثی

شخصیات کے سحر میں مبتلا قومیں اداروں کا قبرستان ثابت ہوتی ہیں، اگر اس کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو مملکت خداد پاکستان میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں ایوب، بھٹو، ضیا زندہ ہیں، میاں دے نعرے گج وج رہے ہیں، اور ایک زرداری سب پر بھاری ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کو آزادی حاصل کیے 73 سال بیت گئے ہیں، مگر افسوس ہم آج تک کوئی ایک برینڈ یا ادارہ نہیں بنا سکے۔ طرفہ  تماشا یہ ہے، کہ مستقبل میں بھی ہم یہ ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ جو برینڈڈ ادارے ہمارے آباؤ اجداد بنا کر   گئے تھے، ان کو الحمداللہ ہم نے نہایت جانفشانی سے تباہ کیا ہے۔

ہر ملک کا کوئی نا کوئی برینڈ یا ادارہ ہے، جس طرح جنوبی کوریا  کا سام سنگ Samsung، کیا Kia، اور ہینڈائی Hyundai، ملائیشیا مے بینک May Bank، لنکاوی Lankawi اور پیٹروناس Petronas، فرانس ائیر بسAir Bus، لندن رولز رائس Rolls Royce، برٹش پٹرولیم British Petroleum، امریکہ ایپل Apple، فیس بک Facebook، اور گوگل Google، چائنہ علی بابا Ali Baba، ٹک ٹاک Tik Tok، ماس پروڈکشن Mass Production اور ایکسپورٹ Export، سعودی عرب سعودی آرامکو Saudi Aramco، سعودی مادن Saudi Maaden اور سابک Sabic، متحدہ عرب امارات ایڈناک Adnoc، ایمریٹس ائیرلائن Emirates Airline، برج خلیفہ Burj Khalifa، اتحاد ائیرلائن Etihad Airline اور پام جزیرہ Palm Island، قطر قطر ایل این جی Qatar LNG، قطر ائیر ویز Qatar Airways اور الجزیرہ Aljazeera ، بھارت رینج روور Range Rover، روئل اینفیلڈ Royal Enfield، ریلائنس Reliance اور ٹاٹا Tata کا برینڈ رکھتے ہیں۔

73سال میں ہم نے بھی بہت برینڈ بنائے ہیں، مگر وقت کے ساتھ صرف یہی تین اوج ثریا پر فائز ہوئے ہیں۔ جس میں آئین و قانون کی بات کرنے والا غدار اور مذہب پر سوال اٹھانے والے ملحد و گستاخ ہوتے ہیں۔ یوں کُل ملا کر ہمارے تین برینڈ ہیں غدار، ملحد اور گستاخ جو فی الوقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہیں۔

ہمارے ہاں دیگر برینڈ اور ادارے بھی ہیں جن میں قابل ذکر پاکستان ائیر لائن، پاکستان سٹیل مل، پاکستان یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن، پاکستان ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن، نیشنل فرٹیلائزر کمپنی، گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس، نیشنل ریفائنری، پاکستان سٹیٹ آئل، بیوروکریسی/سول سروس، واپڈا، واسا، میونسپل کارپوریشنز/بلدیاتی ادارے، سکول، کالج، جامعات، ہسپتال، ٹریفک وارڈنز، ریسکیو 1122، محکمہ شہری دفاع، مذہبی و سیاسی جماعتیں وغیرہ وغیرہ  شامل ہیں۔

ان سب برینڈڈ اداروں کی تباہی اور زبو حالی میں ہماری عوام اور حکمران چاہے جمہوری ہوں یا غیر جمہوری کا انتہائی کلیدی کردار رہا ہے، نیز چند ایک مزید عناصر نے حصہ لیا ہے، جو درج ذیل ہیں۔

سب سے پہلا عنصر میرٹ نامی دنبے  نے ادا کیا ہے، اس دنبے  کو ہم وقتا ً فوقتاً  قربان کرتے رہے ہیں، کیونکہ بحیثیت قوم ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ قربانی سے بلائیں ٹلتی ہیں۔ اس لئے ہماری ہر سیاسی جماعت نے ان تمام اداروں میں سیاسی بھرتیاں کر کے  ان اداروں کی تعمیر و ترقی میں حصہ بقدر جثہ  ڈالا  ہے۔

دوسرا اہم عنصر آبادی کا ارتکاز ہے، ہم نے کبھی بھی نئے شہر بسانے کی کوشش نہیں کی، ہم نے ہر دارالخلافہ و دارالحکومت کو بے ہنگم پھیلنے دیا۔ اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ لوگوں کی خوراک، پانی، بجلی اور دوسری ضروریات زندگی کا بندوبست کیسے کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہم عوام کو بنیادی ضروریات فراہم نہیں کر سکے ہیں۔

تیسرا اہم عنصر پالیسیوں کا تعطل تھا، ہم نے پالیسیوں کے تسلسل و استحکام کو کبھی برقرار نہیں رہنے دیا۔ اس رابطہ کو الحمداللہ ہم وقتاً  فوقتاً  منقطع کرتے رہے ہیں اور بڑی حد تک کامیابی سے ہمکنار ہوتے رہے ہیں۔ ایک حکومت اگر سارے ادارے قومیا لیتی تھی، تو دوسری حکومت ان سب کی نجکاری کرنا بہتر سمجھتی تھی۔ ایک حکومت اگر کوئی منصوبہ شروع کرتی تھی تو دوسری حکومت اسے ختم کردیتی تھی۔

چوتھا اہم عنصر مذہب کا تھا، ہم نے مذہب کو حسب ضرورت و حسب ذائقہ اپنے ذاتی و سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے میں عدم برداشت اور رجعت پسندی کو فروغ ملا اور معاشرہ برداشت، رواداری اور اعتدال پسندی جیسے رویوں سے محروم ہو گیا۔

پانچواں اہم عنصر کسی بھی ادارے کی تربیت اور بحالی ہے، کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی اور دیگر معاملات میں اتنے تغیرات وقوع پذیر ہوتے ہیں، کہ اگر ارتقاء  کے عمل کو روک دیا جائے تو ادارے اور نظام مفلوج ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ نظام کی بحالی اور اپ گریڈ یشن  ہی میں ادارے کی بقا کا راز مضمر ہوتا ہے۔

چھٹا سب سے اہم عنصر شخصیات کا سحر تھا، ہم آج تک ایوب، بھٹو، بینظیر، نواز شریف، مشرف اور باقی شخصیات کے سحر سے باہر ہی نہیں آسکے۔ جس شخص نے جوبھی  دور دیکھا وہ اسی دور میں رہ گیا ہے، گویا وقت گزر گیا ہے مگر وہ شخص اسی طلسم میں  قید ہے۔ جس شخص نے جس پراجیکٹ کی بنیاد رکھی، دوبارہ اس ادارے کی تباہی کے لئے ہماری اگلی سیاسی حکومت نے دل و جان سے محنت کی۔ موٹروے، ریسکیو 1122، بلدیاتی نظام 2002، پاکستان سٹیل مل، یوٹیلیٹی سٹور وغیرہ وغیرہ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ سے دعا ہے کہ وہ موجود سیاسی حکومت کو توفیق دے کہ وہ کوئی اصلاحات و بنیادی تبدیلیاں اس نظام کے ڈھانچے میں لا سکیں، تاکہ ادارے مضبوط اور طاقتور ہو سکیں۔۔

Facebook Comments