“فلسفے نے دنیا کو صرف مختلف انداز سے سمجھا ہے ۔۔۔مگر وقت کی اصل ضرورت دنیا میں عملی تبدیلی کی ہے”
ایسا کہنا دنیا کے عظیم ترین ماہر معاشیات و روشن خیال فلسفی کارل مارکس کا ہے ۔۔
میرا موضوع کارل مارکس کبھی نہیں رہا مگر زیر نظر کتاب کو پڑھتے کارل مارکس کے بارے میں میرا اپنا نکتہ نظر کچھ اس طرح قائم ہوا ہے ۔۔۔
کہ کارل مارکس اس قبیل کے صحافی مصنف شاعر و معاشرے میں موجود روایات کو ایک نئی جہت سے متعارف کروانے والے ترقی پسند محقق تھے کہ جن کا خیال تھا کہ صرف گفتگو و مباحث انسانی کی شکم سیری کو کافی نہیں ۔۔۔۔
اٹھارویں صدی کے آخر تک بیشتر محقیقین کے نزدیک تمام کائنات اور اس میں چلنے والے نظام ابدی یا اٹل سمجھے جاتے تھے مگر انیسویں صدی نے خیالات میں یہ تبدیلی عطا کی جیسا کہ ہیگل نے کہا کہ کائنات و اس سے متعلق ادارے پہیم تبدیلی و ارتقاء سے گزرتے ہیں کیونکہ ہر شے متحرک و متبادل ہے جیسے پانی کبھی ایک شکل میں نہیں رہتا ۔۔۔ہر شے آنے جانے ہونے یا نہ ہونے کے عمل کے ساتھ اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے ۔۔”
۔۔۔ ارتقا کا سلسلہ نسل در نسل آگے بڑھتا ہے۔۔۔اور دیکھا گیا ہے کہ ایک نسل کے باغی دوسری نسل کے ہیروز سمجھے جاتے ہیں۔یعنی ایک نسل کی تجویز کردہ راہیں اگلی نسل کی رواں دواں شاہراہیں بن جاتی ہیں۔۔۔
اسی طرح ہیگل کے اس فلسفے نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیائے علم کو شدت سے متاثر کیا ۔۔۔
کارل مارکس نے ہیگل کے اس نظریے کی کھوج میں اس طرح کی تمام تصانیف کو مطالعہ کیا یہاں تک کہ وہ ذہنی دباو سے بیمار رہنے لگا ۔۔۔عمر کی دوسری دہائی جبکہ نوجوان دنیا کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں کارل مارکس علم و حقیقت کی تلاش پر مصر تھا ۔
زیر بحث کتاب کارل مارکس محترمہ پروین کلو کی اپنے والد سے محبت کا اظہار ہے جسکا تذکرہ وہ پیش لفظ میں ایک مخصوص دور کا تذکرہ اس طرح کرتی ہیں ۔۔
“مارکسی فکر رکھنے والوں کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ سرمایہ داروں سے معاشی مساوات کا مطالبہ کرتے تھے اس کے برعکس سرمایہ دار معاشی انصاف کی اصل بات کو عام آدمی کی نظروں سے اوجھل کرنے کے لئے مذہب کو بطور حربہ استمال کرتے تھے نتیجتا” وطن عزیز میں سماجی و معاشی انصاف کے بجائے مذہبی شدت پسندی نے فروغ حاصل کیا ۔میرے والد نے بھی سیاسی جدوجہد میں مشکلات کا سامنا کیا مگر وہ کہتے رہے کارل مارکس کی بے مثال جدوجہد کے مقابل یہ جدوجہد معمولی ہے ہمیں مشکل حالات میں گھبرا کر سچائی کا راستہ ترک نہیں کرنا چاہیئے”
ہر زمانے میں ۔۔۔سچ بولنے والوں کو دیوانے کا خطاب دے دیا جاتا ہے
دراصل دیوانے ہی ایسا سچ بولتے کی ہمت رکھتے ہیں جسے ’مہذب معاشرہ‘ برداشت نہیں کر سکتا۔
میرا ماننا ہے کہ نظریات بھی اولاد وراثت میں حاصل کرتی ہے ۔۔۔اور اس میں یقینا کوئی بھی اختلاف نہیں کرے گا کہ پروین صاحبہ کے والد کے الفاظ انکی زندگی میں عملی طور پر شامل رہے ہوں گے ۔۔۔جیسے کہ انگریزی کا مقولہ ہے
“Action speaks louder than the words”
اسی نظریہ کو اگر کارل مارکس کی تھیوری کے تحت بیان کیا جائے تو کچھ ایسی تشریح سامنے آئے گی۔۔۔
“کہ انسان بنیادی طور پر آزاد پیدا کیا گیا ہے۔
اور ہر انسانی جسم فنون لطیفہ فلسفے و تصانیف کے بغیر تو زندہ رہ سکتا ہے مگر خوراک لباس ۔۔۔۔رہنے کو گھر کے بنا اس کی بقا و نشونما ناممکن ہے ۔۔۔
یعنی مارکسزم وہ نظام یا عملی سائنس ہے جومعاشرے میں انسان کو اﺅل حثیت دے کر اس کی تمام ضروریات کی باز یابی کی مکمل ضمانت ہے ۔۔۔طبقات میں غیر مساوی تقسیم کے مخالف ہے ۔۔۔یہ امر مسلم ہے کہ اختلافات انقلاب کو جنم دیتے ہیں اور انقلاب جدت یا ارتقا کی سمت سفر کا نام ہے انقلاب نہ پیدا ہوں تو قانون قدرت جمود کا شکار ہوجاتا ہے ۔۔۔۔
مارکس کی تھیوری انسان کو اپنا مقدر خود بنانے پر راغب کرتی اور تمام سماجی ذرائع پیداوار کو بھر پور استعمال کر کے انسانی سماج سے استحصال بھوک و غربت کا مکمل خاتمہ کر کے زندگی گزارنے کی سہولتوں کو حاصل کرنے میں مدد کا تصور رکھتی ہے۔۔
عام آدمی کیلئے روزگار کے حصول کو باعث احترام اور اس کی محنت کو تخلیق اور تسخیر کائنات کے لیے کار آمد بنانے پر زور دیتی ہے ۔۔۔
مارکس نے ان تاریخی تبدیلیوں ۔معاشی و سیاسی اور طبقاتی مفادات پر ہمیشہ زور دیا لیکن اسے اپنی دریافت نہیں بتایا بلکہ اس نے ایمانداری سے یہ اعتراف کیا کہ اس نے گیزو اور تھائیری وغیرہ کی تحریروں سے استفادہ کرتے ہوئے تاریخی مادیت کے یہ اصول مرتب کیئے ہیں “
محترمہ پروین کلو کہ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے میں اعتراف کروں گی کہ انہوں نے اپنے قارئین کو ایک نئے جہان سے متعارف کروایا ہے انکی یہ کتاب انکے والد کیساتھ ساتھ کارل مارکس کی دو صدیوں پر محیط جدوجہد ۔۔۔۔ اور عالمی مزدور برادری کی جانب محبت و احترام کا بین ثبوت ہے ۔۔۔
کارل مارکس نے ایک ایسی ریاست کاخواب دیکھا جہاں طبقات کی کشمکش نہ جہاں سہولتوں پر کوئی ایک خاص طبقہ قابض نہ ہو۔۔
جیسے قتیل شفائی نے کہا ۔۔۔
چار جانب جس کی رعنائی کے چرچے ہیں قتیلؔ
جانے کب دیکھیں گے ہم… اس آنے والی کل کا رنگ۔
بشکریہ دی وائر
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں