مصر ، رمضان تہذیبی مظاہر کا مرکز۔۔منصور ندیم

عرب معاشروں میں رمضان المبارک کا مہینہ اہل مصر کے ہاں شعور و وجدان میں سب سے الگ مقام رکھتا ہے، تمام مشرقی ممالک سے الگ اور آج کے رائج ماہ رمضان کے کثرتی تہذیبی اقدار کے شروع ہونے کا سہرا مصر کے پاس ہی ہے، اہل مصر کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ وہ رمضان کے پورے  مہینے کو ایک تہوار کی طرح مناتے ہیں، مصر کی راتیں جاگتی ہیں وہاں طرح طرح کی تفریحی تقریبات ہوتی ہیں اور دوسری جانب دن میں اللہ تعالیٰ سے قربت کے کام بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں۔ شاید پوری دنیا میں مصر وہ واحد ملک ہے جہاں رمضان کی آمد کی خوشی میں جلوس نکالے جاتے ہیں۔ رمضان کی آمد کے لئے مصر میں “حلو يا حلو” اور “وحوي يا وحوي” جیسی تراکیب مشہور ہو گئیں  ہیں۔ رمضان سے متعلق بہت سے گیتوں میں ان الفاظ کا استعمال کیا گیا۔ مصر میں رمضان کی آمد کو گیتوں سے خوش آمدید کیا جاتا ہے، مصر میں چھوٹے بچے سڑکوں اور محلوں میں ان نغموں یا تراکیب “حلو يا حلو” اور “وحوي يا وحوي” کے ساتھ رمضان مبارک کا استقبال کرتے ہیں، “حلو” کا لفظ قبطی زبان کے لفظ “حلول” سے ہے۔ اس کا معنی “تہنیت اور مبارک” ہے۔ اسی طرح “وحوي يا وحوي” کو دراصل ہیروغلیفی عبارت شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ “چاند ٹھہر جا” یا “چاند اٹھ جا” یہ مخصوص تراکیب استقبال رمضان کے لئے ہی مختص ہیں۔

 

رمضان کی آمد کے جلوسوں کے بعد مصر میں رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی سڑکوں پر رمضان کی خصوصی تزئین و آرائش نظر آنے لگتی ہے۔ اس دوران میں گھروں اور عمارتوں میں خصوصی روایتی “فانوس” اپنی جگہ لے لیتے ہیں۔ فانوس کا رمضان میں استعمال آج پورے عرب معاشرے کی پہچان ہے، بالخصوص مصری معاشرے میں ہر سال رمضان کی آمد پر فانوس کی یہ روایت بھرپور انداز سے ظاہر ہوتی ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ مصر میں شاید ہی کوئی گھر ہوگا جہاں پر رمضان میں فانوس کو سجاوٹ میں حصہ نہ ملے۔ فانوس کے رمضان سے تعلق کا آغاز بھی اہل مصر سے ہی ہے، مصر میں فاطمی دور سے رمضان کے فانوس کا استعمال شروع ہوا تھا، اس فانوس کی تاریخ اور آغاز کے حوالے سے مختلف روایتیں ہیں۔ رمضان میں فانوس کے استعمال کو سنہء ہجری ۳۵۸ میں فاطمی حکمراں المعزالدین اللہ کے قاہرہ میں داخل ہونے کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ مصری مرد، خواتین اور بچے ایک بڑی سواری میں سلطان المعز کا خیر مقدم کرنے کے لیے روانہ ہوئے جو رات کے وقت شہر پہنچا تھا۔ ان تمام افراد نے مشعلیں اور رنگ برنگے فانوس تھامے ہوئے تھے تاکہ سلطان کے لیے راستہ روشن ہوجائے, اس وقت سلطان المعز کے استقبال کے بعد رمضان کے اختتام تک سڑکوں پر فانوس روشن رکھے گئے۔ اس طرح یہ رمضان کے مہینے کے ساتھ مربوط مصری معاشرے کی ایک روایت بن گئی جو بعد ازاں پوری عرب دنیا میں رمضان کی روایت کے طور پر پھیل گیا۔

دوسری روایت کے مطابق بھی مصر میں ان فانوسوں کا استعمال فاطمی دور کے ساتھ ہی وابستہ ہے کہ یہاں لوگ رمضان مبارک کی تیاری کے سلسلے میں بڑے پیمانے پر تزئین و آرائش کا اہتمام کرتے تھے۔ اس موقع پر دکانوں اور مساجد کو فانوسوں سے سجایا جاتا تھا تا کہ سڑکیں روشن رہیں۔ بچے رات میں کھیل کے طور پر ان فانوسوں کے گرد چکر لگاتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ فانوس مصری معاشرے میں ماہ رمضان ے ا ساتھ جڑ گیا اور ایک عوامی ورثہ بن گیا اور وقت کے ساتھ دوسرے عرب ممالک میں   بھی رمضان کی ایک تہذیبی ورثے کی پہچان بنا۔ جیسے کئی ملکوں میں مصر سمیت برسوں سے رمضان المبارک کے دوران سحر وافطار اور عید کے چاند دکھائی دینے کے اعلانات کے لیے توپوں کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔اس کے تاریخی تانے بانے مصر سے ہی ملتے ہیں، مصر میں ہی صلاح الدین ایوبی قلعے میں نصب ایک توپ بھی سنہء ۱۴۶۷ میں پہلی بار سحری اور افطاری کے اوقات کے لیے استعمال کی گئی۔ یہ توپ کئی صدیوں تک کام کرتی رہی۔ ۳۱ برس قبل خرابی کی وجہ سے اس کا استعمال بند کر دیا گیا مگر حال ہی میں اس کی مرمت کے بعد اسے دوبارہ تیار کرلیا گیا ہے۔ یہ توپ قلعہ صلاح الدین ایوبی میں نصب ہے اور اسے ماضی میں غروب آفتاب یا افطاری کے وقت ایک گولہ داغ کر افطاری کا اعلان کیا جاتا تھا۔ اب یہ توپ سحر و افطار کے پرانے طریقوں کو زندہ رکھنے کی ایک علامت ہے۔ جسے جدید ٹکنالوجی کی مدد سے تیار کی گیا ہے اور توپ سے سحری اور افطاری کے وقت دور تک دیکھی جانے والی شعائیں نکلتی ہیں۔

مصر میں رمضان کی توپ کی تاریخ کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ سب سے مشہور یہ ہے کہ یہ توپ قاہرہ شہر میں صلاح الدین ایوبی قلعے میں رکھی گئی تھی۔ اس توپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مملکو بادشاہ خوش قدم کے دور میں رکھی گئی تھی جسے پہلی بار سنہء ۱۴۶۷ کو افطاری کے اعلان کے لیے ایک گولہ داغ کر کیا گیا۔ توپ کے ذریعے گولہ داغ کر  افطاری کا اعلان لوگوں کے لیے حیران کن تھا۔ مقامی لوگوں نے اس طریقے کو پسند کیا، تو یہ طریقہ رائج ہوگیا۔ اس کے علاوہ ایک دوسری روایت کے مطابق یہ توپ خدیوی اسماعیل کے سپاہیوں نے رکھی تھی اور وہ اسے مشقوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس توپ سے پہلا گولہ رمضان المبارک میں مغرب کے وقت اتفاقا داغا گیا تھا تو اس موقعے پر خدیوی اسماعیل کی بیٹی الحاجہ فاطمہ نے توپ کے ذریعے گولہ داغ کر افطاری کے اعلان کی تجویز پیش کی۔ اس کے بعد اس توپ کے ذریعے سحری جگانے اور عید کے ایام کے اعلانات کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا۔

ماضی میں مستشرقین اور سیاح ازمنہ وسطیٰ سے مصر کی سیر کرتے رہے ہیں، ان کی کتب اور مورخین کا مطالعہ بھی یہی بتاتا ہے کہ ماہ رمضان میں مصری عوام کا رہن سہن وہ نہیں رہتا جو سال کے دیگر مہینوں میں دیکھنے میں آتا ہے۔اس بات کا اندازہ اہل مصر کے طرز معاشرت میں آنے والی تبدیلیوں پر حیرت اور تعجب کا اظہار ماضی کے سیاح اور مستشرقین کی کتب میں کثرت سے ملتا ہے۔ اہل مصر کی رمضان آمد پر زندگی کی تبدیلی کا ذکر ماضی کے سیاحوں اور مستشرقین نے جس طرح قلمبند کیا ہے، وہ زندگی سے بھرپور تاریخی منظر کشی ہے اور ان کی تحریریں اس حوالے سے تاریخی دستاویزات کا درجہ رکھتی ہیں۔ مصر میں رمضان کی تہذیبی و سماجی زندگی کو مسلمان سیاحوں نے تو لکھا ہی ہے، مگر چونکہ مسلمان سیاح خود مسلمان تھے اس لئے ان کی نظر سے اہل مصر کی روایات اور رسم و رواج کو دیکھنا کسی درجے مانوسیت کے درجے میں آتا ہے کہ وہ خود پہلے سے ان رسموں سے مانوس تھے اور اہل مشرق کی دینی اور لسانی روایات سے آشنا تھے۔ بہرحال معروف مسلمان ناموں میں ابن الحاج ، ابن جبیر، ناصر خسرو اور ابن بطوطہ وغیرہ کے نام ہیں جو بحیثیت مورخ یا سیاح اہل مصر کی روایات کا دلچسپ تذکرہ کرچکے ہیں۔

غیر مسلمان سیاح جو مصر میں پہنچے انہوں نے مذہبی اور ثقافتی پس منظرسے ناواقفیت کے باعث مصر میں جو کچھ دیکھا وہ ان کے لئے بہت حیرت انگیز رہا، اور اس میں سب سے خوبصورت پہلو یہ رہا کہ ان سیاحوں کا مقامی زبان سے ناواقفیت اور اسلامی پس منظر سے لاعلمی کے باوجود انہوں نے اپنی تحریروں سے اپنے مغربی قارئین کو مصر میں رمضان المبارک کے مہینے کی خوبصورت تصویر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی، سنہء ۱۴۸۳ میں مصر میں آنے والےسیاح پادری ویلکس فیبری نے اپنے مصر کے سفر کے بارے اپنے سفرنامے “Tourism of Egypt” (مصر کی سیاحت) کے عنوان سے لکھے ہیں یہ سفر نامہ لاطینی زبان میں قلمبند کیا تھا، جسے بعد میں فرانسیسی جیک میسن نے فرانسیسی زبان میں بھی ترجمہ کیا۔ پادری ویلکس فیبری جب ۱۳ اکتوبر سنہء ۱۴۸۳ کو قاہرہ پہنچا تو اس وقت رمضان کا مہینہ تھا اور اس نے وہاں قاہرہ کے راستوں میں مختلف شکل و صورت اور رنگ برنگے فانوس لگے ہوئے دیکھے۔ پادری ویلکس فیبری نے اپنے سفر نامے میں قاہرہ میں “المسحراتی” کا بھی تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے کہ عربی میں المسحراتی ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو سحری کے لیے جگاتا ہے۔ المساحراتی رمضان کی راتوں میں سحری کے لیے لوگوں کو جگاتا ، گلی گلی گھومتا ، طبلے پر تین بار ضربیں لگاتا اور ہر ایک کا نام لے کر جگانے کے لیے پکارتا تھا۔

مشہور برطانوی مستشرق British Orientalist ایڈورڈ ولیم لین Edward William Lane ، معروف مترجم و لغت نگار Translator and Lexicographer جن کی وجہ شہرت رہی، نے بھی مصر میں کئی برس قیام کیا، عربی و انگریزی لغت کے ساتھ ساتھ ایڈورڈ ولیم نے One Thousand and One Nights ایک ہزار اور ایک راتیں کا ترجمہ بھی کیا،مصر میں قیام کے دوران ان کی تصنیف Manners and Customs of the Modern Egyptians “اہل مصر کے رسم و رواج’ کے عنوان سے مشہور تحقیقی کتاب تصنیف کی, ولیم ایڈورڈ لین نے اس میں سنہء ۱۸۳۳ سے ۱۸۳۵ کے دوران قیام کے مشاہدات میں مصر کے رائج رسوم کا تذکرہ کیا ہے، ولیم ایڈورڈ لین نے رمضان کا چاند دیکھنے کی رسم کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا کہ

‘رویت ہلال کی یقینی خبر ملنے پر قاضی کو اطلاع دی جاتی ہے۔ اس پر فوجی اور عوامی گروہ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ایک گروہ قلعے کا رخ کرتا ہے جب کہ دوسرا گروہ شہر کے مختلف محلّوں میں گھوم پھر کر منادی کرتا ہے کہ

“اے اللہ کو ماننے والو! اللہ کے نیک بندو! روزہ رکھو، روزہ رکھو’۔

ولیم ایڈورڈ لین نے مزید لکھا کہ

‘اگر چاند نظر نہ آئے تو ایسی حالت میں منادی والا صدا لگاتا کہ

“کل بھی شعبان ہے، کل روزہ نہیں، روزہ نہیں ہوگا۔'”

فرانسیسی سیاح French Tourist ڈی ویلمن De Wellman نے سولہویں صدی سنہء ۱۵۸ میں مصر کا سفر کیا تھا۔ اس سفر کا احوال ‘سر ڈی ولیمن کے سفر نامے’ کے عنوان سے ڈی ویلمن نے اپنے سفر کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ ڈی ویلمن نے رمضان میں قرآن کریم کی تلاوت کی مجالس اور مذہبی جلوسوں، مساجد کی تعمیر اور آرائش کا بھی اپنے سفر نامے میں تذکرہ کیا ہے، ڈی ویلمن نے اس وقت مصر میں رائج ایک ایسے معمول کے بارے میں بھی لکھا جسے آج کل ‘رحمان کے دسترخوان’ کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اہل مصر قدیم زمانے سے افطار دسترخوان کی رسم پر عمل پیرا ہیں۔ ڈی ویلمن اپنے سفر نامے میں مزید لکھتے ہیں کہ “اہل مصر کھلے صحن میں زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ اپنے گھروں کے سامنے بھی یہ اہتمام کرتے ہیں۔ وہ انتہائی خوش دلی اور جوش و خروش کے ساتھ مسافروں کواپنے ساتھ کھانے میں شریک کرتے ہیں۔”

ایک اور فرانسیسی سیاح French Tourist گومار نے بھی اہل مصر کے رمضان کے معمولات کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے کہ

“قاہرہ میں مذہبی تقریبات بڑے پرآسائش انداز سے منعقد کی جاتی ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ رمضان روزوں کا مہینہ ہے۔ روزے میں کھانا پینا، تمباکو نوشی یا سورج طلوع ہونے سے غروب تک کسی بھی طرح کی تفریح کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ سلسلہ موسم کے لحاظ سے کبھی دراز ہو جاتا ہے اور کبھی مختصر، قاہرہ میں دس سے پندرہ گھنٹے تک کا روزہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد اہل مصر تفریحی مشاغل اپناتے ہیں جس سے روزے کے دوران رہنے والی بھوک پیاس یاد تک نہیں رہتی۔ مسلمانوں کے روزے اور عیسائیوں کے روزے میں ایک فرق ہے۔ مسلمان رمضان کی راتیں تقریبات سے آباد کرتے ہیں اور دن میں دینی وعظ کی مجالس میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ مجالس مساجد میں ہوتی ہیں۔ انتہائی روحانیت کے ساتھ درس میں شریک ہوتے ہیں۔ خود کو دن کے وقت یا تو کام میں مصروف کرلیتے ہیں یا سوجاتے ہیں۔ اکثر ایسا ہی کرتے ہیں، رات کے وقت سڑکیں روشن نظر آتی ہیں۔ شور شرابہ ہوتا ہے۔ اعلیٰ ترین لباس میں ملبوس ہو کر نکلتے ہیں۔ مٹھائیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور ہر طرح کی تفریح کرتے ہیں۔”

چند سال پہلے قاہرہ یونیورسٹی Cairo university کے نصاب میں شامل ایک جائزہ وصف مصر Description of Egypt نامی شہرہ آفاق کتاب میں ایک فرانسیسی سیاح French Tourist ڈوشبرول کی ایک کتاب “جدید مصر کے باشندوں کی روایات اور عادات کا ایک مطالعہ ” study of the traditions and customs of modern Egypt کی کتاب کے زیر عنوان مفصل جائزے کو بھی شامل کیا ہے ۔ اس جائزے میں بھی ایک یورپی سیاح کے تاثرات اس طرح قلمبند ہیں کہ

“ہر مصری باشندہ دن کے وقت انتہا درجے کوشش کرتا ہے کہ اس کا کام جلد از جلد مکمل ہوجائے تاکہ دن کا باقی حصہ آرام سے سوسکے، دکان دار فارغ اوقات میں اپنی دکانوں پر سوتے نظر آتے ہیں، عام لوگ اپنے گھروں کی دیواروں کے برابر میں راستوں پر بستر بچھا لیتے ہیں۔ امیر لوگ اعلیٰ درجے کی بنچ پر اونگھتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں۔ سب لوگ اپنی اپنی جگہ سورج غروب ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ پھر ہر شخص تیزی سے اپنے گھر کے لیےدوڑنے لگتا ہے۔ مصری خواتین سورج غروب ہونے کا منظر دیکھنے کے لیے اپنے گھروں کی بالکنی میں جمع ہو جاتی ہیں، نغموں کی صورت میں افطار اور کھانے کے وقت کا اعلان کرتی ہیں، تمام مساجد اذانوں کی صداؤں سے گونج اٹھتی ہیں۔ مؤذن لوگوں کو نماز کے لیے بلاتے ہیں۔ ہر طرف چہل پہل ہو جاتی ہے، لوگ گروپوں کی شکل میں قہوہ خانوں ، گھروں، مساجد اور کھلے میدانوں کا رخ کرنے لگتے ہیں، ہر شخص پیٹ بھر کر کھاتا ہے۔ کھانے کے بعد تقریبات اور تفریحی مجالس منعقد ہوتی ہیں۔ صبح سویرے تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔”

مصر میں جیسے ہر مسلمان اپنی بساط کے مطابق دوسرے مسلمان دوستوں بھائیوں یا غریبوں کو روزہ افطار کرنے کی کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے، وہاں ایک دلچسپ روایت وہاں کے رہنے والے عیسائیوں کی جانب سے بھی رمضان المبارک مسلمان روزہ داروں کو روزہ افطار کرانا بلکہ خود بھی مسلمان کے ساتھ روزہ رکھنا اپنی نوعیت کا منفرد اور ناقابل یقین لگتا ہے۔ مصر کی کچھ کاروباری عیسائی شخصیات نے ماہ صیام میں مسلمانوں کے ساتھ منفرد انداز میں یکجہتی کے اظہار کرکے روزے میں شامل بھی ہوتے ہیں، مصر میں بحر احمر کے کنارے الغردقہ شہر میں مسلمان روزہ داروں کی افطاری کے لیے شہر کا سب سے بڑا دستر خوان لگانے والے عیسائی کاروباری حضرات ہوتے ہیں، جو ہر سال الاقصر اور الغردقہ شہر میں ایسے دستر خوان لگاتے ہیں۔ الاقصر شہر کے افطار دستر خوان پر صفائی اور کھانے کے حوالے سے پیشہ ور ماہرین اور ہوٹلوں میں کام کرنے والے افراد کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ یہ دستر خوان شاہراہ النصر میں ایک قطار میں ۲۵۰ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ غریب شہریوں کو ان کے گھروں میں بھی افطار کا سامان بھی پہنچاتے ہیں۔ اکثر عیسائی گھرانے مسلمان دوستوں اور پڑوسیوں کو افطار پروگرام کی دعوت بھی دیتے ہیں۔

مصری باشندے چاہے ملک کے اندر ہوں یا پردیس میں ہوں وہ افطار کے وقت خاندان کی شکل میں جمع ہو کر ایک ساتھ افطار کرتے ہیں۔ مصر کے ہر صوبے کے لوگوں کے افطار ڈنر میں شامل اشیاء مقامی رواج کے مطابق مختلف ہوتی ہیں، ویسے بھی سحری و افطاری کے اوقات میں مصری شہریوں کے کھانوں میں بھی تبدیلی دیکھی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ نسل در نسل سے جاری ہے۔ کچھ صوبوں میں افطار کے وقت روایتی کھانوں میں ذبح شدہ بکرے یا مرغی کو انڈے چاول یا سبزی بھر کر بنایا جاتا ہے اور یہ وہاں کی معروف روایتی ڈش ہے۔ اس کے علاوہ روایتی میٹھے پکوان، گل خیرو، مشروبات میں جوس اور بھارتی کھجوریں زیادہ پسند کی جاتی ہیں۔ الصعید میں چاول اور گوشت مرکزی افطار ڈیش سمجھی جاتی ہے جب کہ ساحلی علاقوں میں ‘مچھلی’ کو رمضان کے ایام میں شوق سے افطاری میں جگہ دی جاتی ہے۔ اقصائے صعید مصر کے باشندے افطاری کے وقت گھروں سے نکل کر راہ گیروں کے ساتھ افطاری کو افضل سمجھتے ہیں۔ گھروں سے باہر اجتماعی افطاری وہاں کا معمول ہے۔ وہاں کے روزہ دار ماہ رمضان کے لیے خصوصی مشروبات تیار کرتے ہیں۔ گندم کے شیرے، خمیرہ، پانی اور لیموں سے تازہ افطار مشروب بنائے جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مصری شہریوں کی رمضان کی مناسبت سے مخصوص روایتی عادات ہیں۔ ان عادات میں افطاری میں پورے خاندان کا ایک دسترخوان پر جمع ہونا، گھروں کی سجاوٹ، سڑکوں کو چراغٍاں کرنا، نماز تراویح اور دیگر نمازوں کی با جماعت ادائی کی پابندی جیسی خوبصورت عادات ہیں۔ رمضان میں مصر کی ایک خوبصورت روایت میں ‘رحمان دسترخوان’ بھی شامل ہے جو پورے ماہ بلا تعطل لگتا ہے اور اس میں ہر شخص حسب توفیق افطاری کا سامان لے کر آتا ہے۔ اور یہ رحمان دسترخوان سڑکوں اور پبلک مقامات پر لگائے جاتے ہیں۔ یہ رمضان دسترخوان فاطمی خلیفہ العزیز باللہ کے دور سے چلے آرہے ہیں۔ اور آج تک قائم ہیں ۔ رمضان میں المساحراتی کا کام مصر میں خواتین بھی انجام دیتی ہیں۔ جتنے تہذیبی مظاہر رمضان المبارک کے مصر میں ہیں، وہ شائد ہی کسی مسلمان ملک میں ہوں، حتی کہ کسی بھی عرب ملک میں جو روایتیں موجود ہیں ان کا تانا بانا بھی کثرت سے تاریخی طور پر مصر سے ملتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply