ویسے تو گلگت اور اس کے مضافات میں کھیل تماشے روز ہی دیکھنے کو ملتے ہیں. کبھی پولو کی شکل میں تو کبھی فرقہ واریت کے ناسور کی شکل میں۔ لیکن یہاں گلگت گیم سے مراد اس عظیم کھیل کے ایک حصے سے ہے جو کوہ ہندو کش، کوہ قراقرم اور ہمالیہ کے فلک بوس پہاڑوں کے دامن میں ماضی کی دو سپر پاورز، تاج برطانیہ اور سلطنت روس نے وسطی ایشیاء پر کنٹرول حاصل کرنے ، باہمی دشمنی و چپقلش اور جغرافیائی رقابت کی وجہ سے کھیلی۔ یہ گیم ایک صدی پر محیط طویل عرصہ تک جاری رہی۔
گلگت کے پہاڑوں میں سلطنت روس اور تاج برطانیہ کی اس سامراجی رسا کشی کے عمل کو John Keay نے گلگت گیم کا نام دیا ہے اور یہ کہانی اسی نام سے لکھی گئی اپنی کتاب میں بہت تفصیل سے بیان کی ہے۔
گریٹ گیم کی اصطلاح 1830 میں تخلیق کی گئی تھی، لیکن یہ اصطلاح بعدازاں اس وقت عام استعمال میں آگئی جب کرکٹ، فٹ بال اور ٹینس کی طرح ہر چیز کھیل بن گئی۔
گریٹ گیم ان پالیسیوں اور سیاسی خصوصیات کے تناظر میں لوگوں کے دماغ میں بیٹھ گئی کہ سنٹرل ایشیاء پر کون حکومت کرے گا۔
زار روس اور تاج برطانیہ کا یہ عظیم کھیل یورپ سے پھیل کر گلگت کی پہاڑیوں تک پہنچ گیا تھا۔ سرد جنگ کی طرح گریٹ گیم بھی مختلف مراحل میں دنیا کے وسیع علاقے پر کھیلا گیا۔ ایک طرف Balkan کے مشرق میں روس اور برطانیہ کے مفادات کا ٹکڑاو جاری تھا جو گریٹ گیم کے دوران یورپ سے نکل کر اچانک گلگت گیم کی شکل میں ہندوکش کے پہاڑوں میں منتقل ہوا۔
پامیر کا علاقہ عام طور پر “دنیا کے چھت” کے طور پر معروف ہے، جس کے ایک طرف ہندوکش نکلتا ہے، جنوب مغرب میں ہندو راج کے پہاڑ نکلتے ہیں اور اس کے ساتھ قراقرم کے پہاڑی سلسلے متصل ہیں۔ یہ علاقہ گریٹ گیم کی شروعات سے ہی انگریزوں کے لئے باعث تشویش تھا چونکہ 1860 میں روسی سلطنت نے سنڑل ایشیاء میں اپنے توسع پسندانہ عزائم دکھانے شروع کیے تھے جس نے تاج برطانیہ کو خوفزدہ کر دیا۔ چنانچہ برٹش انڈیا نے مہاراجہ کشمیر کو گلگت، یاسین اور چترال پر قبضہ کرکے ان علاقوں کو ریاست جموں وکشمیر کے زیر کنٹرول لانے میں ان کی حوصلہ افزائی کی تاکہ یہاں روسی پیش قدمی روکی جا سکے۔
تاج برطانیہ کو خطرہ تھا کہ روسی افواج پامیر تک آگئیں تو وہاں سے وہ ہندوکش میں داخل ہوکر چترال یاسین اور گلگت پہنچ سکتی ہیں اور دوسری طرف ریاست ہنزہ کی طرف سے بھی داخل ہو کر بذریعہ گلگت استور پھر کشمیر اور پھر پنجاب میں داخل ہوسکتی ہیں جو برٹش انڈین راج کے لئے ایک خوفناک منظر تھا ۔ چنانچہ روسی پیش قدمی کو روکنے کے لئے تاج برطانیہ نے اپنی فاروڑ پالیسی پر عملدرآمد شروع کیا۔
یورپ کے جاسوس دنیا سے کٹے ہوئے اس دور دراز علاقے گلگت کے پہاڑوں میں موجود درروں کا کھوج لگانے لگے اور نقشے بنا کر اپنے ممالک کے فوجی ہیڈ کوارٹرز تک پہنچانے لگے۔
جان بڈلف اپنی کتاب” قراقرم کے قبائل” میں لکھتے ہیں کہ “یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے کوہ ہندو کش کے پہاڑی سلسلوں کے مشرقی اطراف کے دونوں حصوں میں واقع بہت سارے ممالک کا دورہ کیا ہے، اس سے قبل ان ممالک کے بارے میں معلومات دستیاب نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ان میں سے بعض ممالک کا اس سے قبل کسی بھی یورپی باشندے نے دورہ نہیں کیا تھا-البتہ اس سے قبل 18 جولائی 1870ء میں یاسین آنے والے ایک انگریز مہم جو جارج ہیورڈ کا وادی یاسین کے گاؤں درکوت میں سفاکانہ قتل کیا گیا تھا ،جارج ہیوڑ “درکوت پاس” پار کر کے پامیر کے خطے میں داخل ہونا چاہتے تھے۔
پیڑ ہوپ کرک اپنی مشہور کتاب “دی گریٹ گیم آن سیکرٹ سروس ان ہائی ایشیاء” میں لکھتے ہیں کہ ” جارج ہیورڈ ایک جوان سابق برطانوی فوجی افسر تھا، انہیں اس مشن پر رائل جیوگرافیک سوسائٹی لندن نے مالی مدد فراہم کرکے بھیجا تھا، ان کی مہم جوئی کا مقصد ان علاقوں کا کھوج لگانا, تحقیق کرنا اور یہاں کے دروں کے نقشے بنانا تھا اور وہ وادی یاسین سے بذریعہ درکوت پاس پامیر ریجن میں داخل ہونا چاہتا تھا،اس مہم جوئی میں وہ اکیلا ہی نکلا تھا اور گریٹ گیم کا شکار ہو گیا”-
مؤرخ لکھتے ہیں کہ سنہ 1885 میں روس کی وسطی ایشیا میں پیش قدمی نے برطانیہ کو گلگت بلتستان کے راستے روس کے ممکنہ حملے کے بارے ہوشیار کر دیا تھا ۔ اس پس منظر میں برطانوی جاسوس یہاں کڑی نطر رکھے ہوئے تھے کہ کس طرح روسیوں نے یہاں اپنا اثر رسوخ بڑھانا شروع کیا ہے۔
سنہ 1888 میں جب ایک برطانوی افسر ایلگرنن ڈیورنڈ نے ہنزہ سے واپسی پر برطانوی حکومت کو رپورٹ دی کہ انھوں نے گلگت سے گزرتے ہوئے سُنا تھا کہ ایک روسی افسر ہنزہ میں دیکھا گیا ہے۔ اس کی اطلاع بالکل درست تھی۔
یہ روسی افسر کیپٹن گُرومچیوسکی تھا جو پامیر کے پہاڑی سلسلے اور مشرقی ترکستان کے درمیان راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اور یوں پھر جیسا کہ ڈیورنڈ نے کہا ’کھیل شروع ہو گیا۔‘
اس وسیع تناظر کو مدنظر رکھ کر تاج برطانیہ نے گلگت ریجن میں سیاسی اور فوجی مداخلت شروع کی۔ دراصل تاج برطانیہ پامیر میں ہی روس کے خلاف جنگ لڑنا چاہتے تھا۔ اس لئے گلگت گریٹ گیم کا محور بن گیا پھر بیرونی جارحیت اور جنگ و جدل کے ذریعے اس خطہ پر قبضہ کرکے یہاں کے عوام کو ایک نہ ختم ہونے والی طویل غلامی کی دلدل میں پھنسایا گیا۔جو آج تک جاری ہے،اس لئے وہ اپنے اردگرد رونما ہونے والی عالمی تبدیلیوں کو آزادانہ طور پر دیکھنے سے قاصر ہیں جبکہ اس وقت پورا خطہ سیاسی تبدیلیوں کے ایک مخصوص عہد سے گزر رہا ہے۔
گریٹ گیم بظاہر تو ختم ہوئی لیکن گلگت بلتستان کے عوام ایک نوآبادیاتی نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔
کوہ قراقرم، کوہ ہمالیہ اور ہندو کش کے دامن میں صدیوں سے آباد لوگوں کا یہ وطن گلگت بلتستان اقوام متحدہ کی تنازعہ کشمیر پر قراردادوں کے تحت متنازعہ علاقہ قرار دیا گیا ہے جس کی آڑ میں یہاں کے عوام کو آج تک بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے ۔
گریٹ گیم کے دوران برٹش انڈین حکومت نے1877 میں جان بڈولف کو گلگت ایجنسی کا پہلا پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیا تھا اور 1878 میں مہتر چترال نے مہاراجہ کشمیر کی بالادستی قبول کی۔
برٹش انڈیا نے 1881 میں اپنا ایجنٹ گلگت ایجنسی سے واپس بلایا لیکن سنڑل ایشیاء میں روسی افواج کی بڑھتی ہوئی نقل حرکت کی وجہ سے یہاں دوبارہ اپنا پولیٹیکل ایجنٹ 1889 میں تعینات کیا اور فاروڑ پالیسی پر تیزی سے عمل درآمد کرنا شروع کر دیا۔
کرنل ڈیورنڈ نے ڈوگرہ افواج اور راجہ پونیال و راجہ استور کی مدد سے 1891 میں ریاست ہنزہ، نگر فتح کیا۔ اس جنگ میں پونیال لیویز بھی شامل تھے۔ مہاراجہ کشمیر کے زیر کنٹرول بلتستان اور استور کے برعکس ہنزہ نگر اور چترال کی ریاستوں کو براہ راست انگریز پولیٹیکل ایجنٹ خود کنٹرول کرتا تھا اور ان شاہی ریاستوں کو بہت حد تک اندرونی خودمختاری بھی حاصل تھی۔ جبکہ ریاست جموں وکشمیر کو بیرونی جارحیت کی صورت میں تحفظ دینا تاج برطانیہ کی ذمہ داری تھی اس طرح گلگت اور گرد نواح کی تمام فوجی ذمہ داری بھی برٹش انڈیا کی تھی۔
معاہدہ امرتسر 1846 کے تحت برطانیہ پابند تھا کہ کشمیر پر بیرونی حملے کی صورت وہ فوجی مدد فراہم کرے گا۔
خاص طور پر اس معاہدہ کے آرٹیکل 3 کے تحت مہاراجہ کشمیر اور تاج برطانیہ میں یہ طے پایا تھا کہ شاہی ریاست کشمیر پر بیرونی حملے کی صورت میں دفاع کرنے کی ذمہ داری برطانیہ کی ہوگی۔ تاج برطانیہ نے اپنے مفادات کے پیش نظر ہی روس اور برٹش انڈیا کے درمیان ایک بفر ریاست جموں وکشمیر کا قیام عمل میں لایا تھا جس کو ماڈرن ریاست جموں وکشمیر کا نام دیا جاتا ہے۔
لہذا جنگ و جدل کے ذریعے گلگت بلتستان کو اس ریاست میں شامل کیا گیا بعدازاں تقسیم ہند کے بعد تنازع کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت گلگت بلتستان کو متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کا حصہ قرار دیا گیا ۔
گریٹ گیم کے دوران گلگت میں تعینات برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ نہ صرف گلگت ایجنسی کی اندرونی سیکورٹی کا ذمہ دار تھا بلکہ اس کی ایک اہم ذمہ داری روس کی سرحدی سرگرمیوں پر نظر رکھنا تھا۔ چونکہ سنٹرل ایشیاء میں بڑھتے ہوئے روسی خطرے کے پیش نظر برٹش انڈیا کی سرحدوں کے تحفظ کا سوال پیدا ہوا تھا اور برٹش انڈیا کی بقاء کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ خود ان سرحدوں کی حفاظت کریں اور یہاں ایک قابل بھروسہ نظام قائم کریں چنانچہ برٹش انڈین حکومت نے 1888 میں باقاعدہ گلگت ایجنسی کا قیام عمل میں لایا جس کا مقصد اندرونی قبضہ کو مضبوط کرنے کے ساتھ برٹش انڈین فرنٹیرز کی حفاظت کرنا تھا تاکہ روسی جارحیت کا مقابلہ کیا جائے۔
بقول John Keay برطانوی حکومت کو گلگت بلتستان کے آزاد قبائل ( دیامر ریجن )کو کنٹرول کرنے میں خاصی مشکل پیش آئی اور یہاں کے مختلف النوع نسلی لوگوں کی وفاداری حاصل کرنے کی کوشش کی گئی چونکہ ایک طرف چلاس کے وحشی علاقہ جات تھے دوسری طرف یاسین کے علاقے جو عدم استحکام کا شکار تھے۔ ان کا اشارہ گریٹ گیم کے اس کھیل میں مہم جو جارج ہیورڈ کا یاسین میں بےدردی سے قتل کی طرف ہے اس سے قبل یاسین مڈوری قلعہ میں سینکڑوں افراد کا قتل عام کیا گیا تھا۔
واضح رہے گریٹ گیم کے دوران تاریخ میں پہلی بار گلگت بلتستان کے عوام کی نسلی بنیادوں پر پروفائلنگ کی گئی اور نہایت نفرت انگیز طریقہ سے انہیں حقارت سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کی ایک کلاسیکل مثال کرنل شمبرگ کی کتاب Between the Oxus and the Indus میں موجود ہے انہوں نے تو تعصب اور نفرت کی ہر حد پار کی ہے۔ ہمارے لوگوں کو وحشی جنگلی ،گندے، کم عقل جیسے القابات سے نوازنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے درختوں کو بھی معاف نہیں کیا ہے ۔ مثلا وہ اپنی کتاب کے باب نمبر 18 میں لکھتے ہیں کہ “یہاں کا موسم بھی عجیب ہے، پورے گاؤں میں ہم نے تین نکمے سفیدے اور دو ادنی بید کے درخت دیکھیں”.
گریٹ گیم کی طرح آج بھی گلگت بلتستان سے متصل ممالک کی فوجی نقل و حرکت کو مونیڑ کرنے کے لئے یہ علاقہ عالمی سپر پاورز کے لئے بہت اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ بلاشبہ گریٹ گیم کے دوران گلگت ایجنسی ایک طرح سے جاسوسی کا ایک اڈہ بن گیا تھا۔ چنانچہ روسی جارحیت کے خوف سے ہی گلگت بلتستان کی سرحدی علاقوں پر برطانوی ہند نے فوجی چوکیاں قائم کئیں۔
انقلاب روس کے بعد اس خطے کے بارے میں برطانوی خدشات بہت بڑھ گئے چنانچہ انہوں نے 26 مارچ 1935 کو گلگت ایجنسی 60 سال کے لئے مہاراجہ ہری سنگھ سے لیز پر لیا اور اپنی فوجی اور سویلین ایڈمنسڑیشن یہاں قائم کر دی۔ اس طرح 1947 تک گلگت ایجنسی میں براہ راست تاج برطانیہ کا راج چلتا رہا۔
تقسیم ہند کے بعد بظاہر تو تاج برطانیہ، قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش کے دامن میں واقع ان دور دراز کالونیوں سے نکل گیا لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا اس کی جگہ امریکہ نے اپنا اثر رسوخ بڑھانا شروع کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے ورلڈ سٹیج پر برطانیہ کی جگہ لی۔
گریٹ گیم کے خاتمے کے بعد دنیا میں سرد جنگ شروع ہوئی اسی دوران 1979 میں روس نے افغانستان میں اپنی افواج اتار دیں اور ایک خونی جنگ شروع ہوئی جس کو عالمی سطح پر کمیونزم کے خلاف جہاد کا نام دیا گیا۔
دنیا بھر سے جہادیوں نے افغانستان کا رخ کیا اور امریکہ کی مدد سے طالبان نے روس کو شکست دی ، چند سالوں بعد سویت یونین کے ٹوٹنے اور دیوار برلن کے انہدام کے بعد سرد جنگ کا خاتمہ ممکن ہوا لیکن نیو کولڈ وار کی شکل میں ایک جنگ عالمی گریٹ پاورز چین، روس اور امریکہ کے درمیان آج بھی جاری ہے۔ اس ضمن میں ایک مثال افغانستان میں 20 سال تک امریکی جنگ ہے جس سے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا نام دیا گیا ہے۔ اس وقت عالمی سپر پاورز کے درمیان دنیا بھر میں سرد جنگ جاری ہے جس کی ایک شکل بلیک سی میں روس اور یوکرین کے درمیان خونی جنگ ہے اور اگر روس اس جنگ میں یوکرین پر مکمل قبضہ کرتا ہے تو اس سے قومی ریاستوں کی خودمختاری کا فلسفہ اور بنیادیں بکھر جائیں گی اور دنیا بھر میں چھوٹی ریاستوں کی بقاء ناممکن ہوگی۔
دوسری طرف جنوبی ایشیاء میں تائیوان اور چین کا تنازع جبکہ ساوتھ چینی سمندر کا تنازع شدت اختیار کر گیا ہے جبکہ مشرق وسطی میں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ جاری ہے جبکہ تنازعہ کشمیر پر انڈیا پاکستان، جبکہ چین اور انڈیا کے سرحدی تنازعات بڑھ گئے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈیا و امریکہ چین کے خلاف اتحادی بن گئے ہیں۔ ماضی میں پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا لیکن اب پاکستان اور چین ایک صف میں کھڑے ہیں، جبکہ گلگت بلتستان پر انڈین دعوی شدت اختیار کر گیا ہے۔ وہ کھلے عام گلگت بلتستان کو واپس لینے کا اعلان کر رہا ہے جبکہ سی پیک کے بعد گلگت بلتستان میں چینی مفادات بہت بڑھ گئے ہیں۔ دوسری طرف حالیہ دنوں میں امریکی سفیر نے گوادر کے بعد گلگت بلتستان کا دورہ کیا ہے ۔ بظاہر یہ ایک غیر معمولی بات ہے لیکن گلگت بلتستان کے مقامی افراد اس بین الاقومی سیاسی عمل سے مکمل بے خبر اور حسب روایت کھیل تماشوں میں محو رقصاں ہیں اور ہر آنے جانے والوں کو ٹوپیاں پیش کرنے سے ان کو فرصت نہیں کہ وہ اپنے ماضی کا مطالعہ کرکے معروضی حالات میں گلگت گیم کی اہمیت کو سمجھیں۔ لہذا دنیا میں تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال کی مکمل تصویر کو بلکل واضح انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ماضی میں بھی اس خطے میں سیاسی خلا پایا جاتا تھااور ایک مربوط نظام موجود نہیں تھا جس کی وجہ سے یہ خطہ عالمی سپر پاورز کے کھیل کا شکار رہا ہے۔ آج بھی اس خطہ کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے لیکن یہاں کے مقامی افراد دنیا کے جیو پولیٹیکل منظر نامہ سے بے خبر اور مستقبل کا عکس اپنی آرزوؤں کے آئینے میں دیکھتے ہیں حالانکہ مستقبل افراد کی خواہشوں سے نہیں بلکہ زمانہ حال کے تقاضوں کے بطن سے پیدا ہوتا ہے۔
یہاں کے غریب لوگ امیدوں کے سہارے یا تو کھیل کود اور ناچ کر خوشیاں مناتے ہیں یا پھر فرقہ واریت کے ناسور میں مبتلا ہو کر اپنے ہی بھائیوں سے نفرت کرتے ہیں، حالانکہ ان کے مسائل اور ان کی بقاء کی جنگ مشترکہ ہے۔
اس اہم سٹریٹجک خطہ میں آج بھی سیاسی خلا بدستور موجود ہے ساتھ ہی لسانی، اور خاص کر فرقہ وارانہ تقسیم بہت خطرناک عمل ہے چونکہ ایسی صورت حال بیرونی مداخلت کے لئے راستہ ہموار کرتی ہے۔ ” تقسیم کرو اور حکومت کرو” پالیسی کے تحت لوگوں کو بزور طاقت اپنے زیر نگیں کیا جاتا ہے یہی پالیسی گلگت بلتستان میں لاگو کی گئی ہے۔ گریٹ گیم میں دیگر محرکات کے علاوہ اس علاقہ کا جغرافیہ ہی اس علاقہ کا دشمن بن گیا تھا۔ آج بھی یہاں کے باسی جغرافیہ کے معتوب ہیں ۔
جبکہ ان علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے ماضی کی سپر پاورز نے گریٹ گیم کے زمانے میں جنگ کو بطور پالیسی استعمال کیا تھا اور آج بھی جیو پولیٹیکل نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو سپر پاورز چھوٹے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اپنے مخالفین کو شکست دینے کے لئے proxy wars لڑنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں گریٹ پاورز میں نئی صف بندیاں واضح طور پر سامنے آرہی ہیں۔
اس وقت دنیا میں ایک بڑی جنگ چل رہی ہے۔ یہ کہانی کا دوسرا رخ ہے۔ چونکہ گلگت بلتستان کی سرحدیں نہ صرف چین سے متصل ہیں، بلکہ اس متنازعہ علاقہ کی سرحدیں تین ایٹمی ممالک یعنی چین، انڈیا ،پاکستان اور سنٹرل ایشیاء سے بھی متصل ہیں۔ گریٹ گیم کے دوران سلطنت روس گرم پانیوں تک رسائی چاہتا تھا جبکہ نیو کولڈ وار میں چین مڈل ایسٹ کے تیل تک رسائی چاہتا ہے اس لیے قدیم سلک روڑ کی جگہ ون بلٹ ون روٹ کی تعمیر کر رہا ہے اور سی پیک کا راستہ گلگت بلتستان سے گزر کر گوادر پورٹ پہنچ جاتا ہے لہذا وہ ریجن میں انڈیا کو گھیرے میں ڈالنا چاہتا ہے جبکہ انڈیا اور امریکہ اس پراجیکٹ پر اعتراض کر رہے ہیں کہ یہ ایک متنازعہ علاقہ سے گزر رہا ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے سینیٹ آرمڈ سروسز کمیٹی کو واضح طور پر بتایا تھا کہ ون بلٹ ون روٹ متنازعہ علاقہ سے گزرتا ہے۔
چین اور امریکہ کے درمیان عالمی بالادستی کی اس جنگ میں امریکہ ہر قیمت پر چین کو روکنا چاہتا ہے۔
چنانچہ یہ علاقہ نہ صرف ماضی کی سپر پاورز کے درمیان گریٹ گیم کا مرکز بن گیا تھا بلکہ آنے والے دور میں چین اور امریکہ کے درمیان بھی ایک میدان جنگ بن سکتا ہے کیونکہ انڈیا، چین اور پاکستان کے درمیان سرحدی علاقوں میں تنازعات بڑھ گئے ہیں، مسئلہ کشمیر پر انڈیا اور پاکستان نے کئی جنگیں لڑی ہیں اور تنازعہ بدستور برقرار ہے اس خطرناک صورتحال پر ایک بار امریکی صدر بل کلنٹن نے اسے دنیا کا خطرناک ترین حصہ قرار دیا تھا ۔ یہ تنازعہ خطہ میں دہشت گردی، عدم استحکام اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
چند ماہ قبل گلگت ڈسٹرکٹ غذر سے متصل علاقہ چترال پر طالبان نےحملہ کیا تھا لیکن پاکستانی فوج کےجوابی حملے میں پسپا ہوئے، جبکہ دوسری طرف اپنے زیر انتظام کشمیر کو ہندوستان نے ہڑپ کیا ہے اور اس کی نظر اب گلگت بلتستان پر ہے ۔لہذا نیو گریٹ گیم کا علیحدہ جغرافیائی اور سیاسی نفوذ کا عمل صرف اس کے وسیع ترین سیاق و سباق میں دیکھا جا سکتا ہے۔ گلگت بے شک اس کھیل کا سب سے خوفناک میدان تھا، ہے اور رہے گا ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں