صادقہ نصیر: ایک مسیحا نفس افسانہ نگار ۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

کیا آپ صادقہ نصیر کو جانتے ہیں؟

کیا آپ نے انکےافسانے پڑھے ہیں؟

میں بھی پچھلے سال تک انہیں نہیں جانتا تھا اور نہ ہی میں نے ان کے افسانے پڑھے تھے لیکن پھر وہ میری فیس بک فرینڈ بن گئیں اور جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے اپنے افسانوں کا مجموعہ”پہلے نام کی موت”تحفے کے طور پر دیا۔

میں نے کتاب کا نام پڑھا تو پہلے مجھے سمجھ نہ آیا کہ پہلے نام سے ان کی کیا مراد ہے۔ کینیڈا میں رہنے کی وجہ سے میرے ذہن میں پہلے نام سے FIRST NAMEکا تصور ابھرا لیکن افسانہ پڑھ کر سمجھ آیا کہ انہوں نے یہ نام شادی شدہ عورتوں کے حوالے سے چنا ہے۔ان عورتوں کے حوالے سے جو شادی کے بعد اپنا نام بدل لیتی ہیں اور باپ کا نام ترک کر کے اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگا لیتی ہیں۔افسانہ پڑھ کر کتاب کے نام کا عقدہ کھلا کہ پہلے نام سے مراد فرسٹ نیم نہیں بلکہ میڈن نیم maiden nameہے۔

اس افسانے میں انہوں نے بڑے دلپزہر انداز سے عورتوں کی نفسیات پر قلم اٹھایا ہے اور واضح کیا ہے کہ مشرقی عورت کو نفسیاتی’ خاندانی اور سماجی طور پر کن آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور شادی کے حوالے سے کتنی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔

شادی کے بعد نام بدلنے سے عورت کی شناخت ہی نہیں اس کی پوری زندگی بدل جاتی ہے۔ اسے ایک نئی زندگی کے لیے پرانی زندگی کو خیر باد کہنا پڑتا ہے۔ یہ موت کتنی خاموشی سے ہوتی ہے صادقہ نصیر نے اس خاموش موت کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے اور اس موت کی نفسیاتی اور سماجی پیچیدگیوں کی طرف ہماری توجہ مبذول کروائی ہے۔ لکھتی ہیں

‘ وہ چونک اٹھی۔۔۔عالیہ امام تو مر چکی اور اس نے دیکھا کہ کسی نے بھی عالیہ امام کے مرنے پر افسوس نہیں کیا۔ شاید یہ افسوس کرنے والی بات بھی نہ تھی۔ شاید یہ موت ہو ہی نہ۔ مگر اتنا ضرور تھا کہ عالیہ امام جیسی بن باپ کی ہزاروں عورتوں کی طرح۔۔۔۔وہ سوچتی کہ وہ اب سب میں شامل ہو چکی ہے اور اس کا نام مسز عالیہ عرفان ہے۔ سب میں شامل تو ہوگئی تھی مگر تنہا تنہا۔۔۔۔اوہ۔۔۔تو عورت سے اس کا باپ بھی چھین لیا جاتا ہے۔ وہ کس طرح اس غاصبانہ رویے پر شور مچائے۔

کوئی بھی نہ تھا۔۔۔۔نہ اس کے چہیتے سٹوڈنٹس اور نہ ہی اس کی ہم خیال بزدل عورتیں اور ترقی پسند کولیگز جن کو اس غاصبانہ رویے کا لائسنس ملا ہوا ہے۔

آہ ۔ اس نے ایک سرد آہ بھری

اور خود ہی اپنی موت پر تعزیت کر لی۔ عالیہ انعام کی موت پر۔۔۔پہلے نام کی موت پر۔’

جوں جوں میں صادقہ نصیر کے افسانے پڑھتا گیا مجھ پر یہ منکشف ہوتا گیا کہ صادقہ نصیر ایک افسانہ نگار ہی نہیں ایک ماہر نفسیات بھی ہیں جو بچوں اور عورتوں کے مسائل کے بارے میں ہمدرد دل اور حساس ذہن رکھتی ہیں۔

صادقی نصیر کی شخصیت میں ایک مادرانہ شفقت ہے۔ وہ معذور بچوں کر دیکھ کر بہت دکھی ہو جاتی ہیں اور پھر سوچتی رہتی ہیں کہ ان کے دکھوں کو سکھوں میں کیسے بدلا جا سکتا ہے۔صادقہ نصیر معذور بچوں کی ان دیکھی اور ان سوچی سوچوں کو زبان دیتی ہیں اور ان کے انسانی حقوق کی عکاسی کرتی ہیں۔ وہ ‘عالمی دن کا نوحہ’ افسانے میں لکھتی ہیں

‘ وہ اسی میں خوش تھا گاڑی میں بیٹھ کرسپورٹس کمپلیکس تک جانے کے علاوہ اس نے کچھ اور سوچا نہ تھا۔ یہ تو وہ لوگ ہی سوچ سکتے ہیں جن کو خدا نے اعلیٰ دماغی صلاحیتیں دے رکھی ہیں۔ وہ اس چیز سے محروم تھا لہذا یہ سوچنا اس کی ذمہ داری نہ تھی۔ اس کی یہ بھی ذمہ داری نہ تھی کہ وہ اپنے چھینے ہوئے حق کے بارے میں سوچ سکے’

صادقہ نصیر جب دکھی ہوتی ہیں تو کہیں کہیں ان کا قلم ایک نشتر بن جاتا ہے اور وہ معاشرتی رویوں پر طنز بھی کرتا ہے۔ لکھتی ہیں

‘ سب کچھ بڑے کھا گئے’وہ بڑبڑایا

‘بچوں کے نام پر ملنے والا فنڈ سب بڑے کھا گئے ہم صبح سے بھوکے پیاسے’

صادقہ نصیر کے بہت سے افسانے غیر روایتی ہیں غیر روایتی اس لیے کہ ان افسانوں میں ان کی سوانح عمری اور پیشہ ورانہ تجربات کی جھلکیاں بھی دکھائی دیتی ہیں ۔چونکہ وہ ماہر نفسیات ہیں اس لیے وہ مسائل کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حل کی نشاندہی بھی کرتی ہیں۔ صادقہ نصیر کی نگاہ بہت گہری ہے۔ وہ نفسیاتی اور سماجی مسائل کا نہایت عمدگی سے تجزیہ کرتی ہیں اور پھر کرداروں کے حوالے سے قاری کے سامنے پیش کرتی ہیں۔صادقہ نصیر کے افسانے اس قبیل کے افسانے ہیں جس میں سوانح عمری اور فکشن آپس میں گلے ملتے ہیں اسی لیے وہ bio-fictionکہلاتے ہیں۔

صادقہ نصیر کے افسانوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔وہ اپنی کتاب کے دیباچے میں رقم طراز ہیں

‘ حقیقت یہ ہے کہ کتاب کے ذریعے ہم کسی کو بھی سوچنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ کتاب کے ذریعے ہم دوسرے کو اپنا خیال مستعار دے سکتے ہیں’

صادقہ نصیر کے کردار دوسروں کو بہتر انسان بننے کی ترغیب و تحریک دیتے ہیں۔ وہ اپنے افسانے کے کردار توشیو کے حوالے سے لکھتی ہیں

‘ مقامی لوگوں کی اس نگری کا توشیو مجھے بہت خاص لگا اور مجھے اپنا آپ بہت کمتر محسوس ہوا۔ میں تو اتنے وسائل ہونے کے باوجود ارادے ترک کر چکی تھی لیکن توشیو ستاروں سے آگے کے جہان تلاش کرتے ہوئے مجھ سے بہت آگے نکلتا ہوا نظر آیا۔ میں نے اس کی کامیابی کی دعا کی’

صادقہ نصیر نے اپنے افسانے ‘ادھڑے بالک’ میں معاشرے کے ایک دلخراش پہلو کی نشاندہی کی ہے انہوں نے بڑے تخلیقی انداز سے دکھایا ہے کہ وہ بچے جو اپنے خاندان میں تشدد کا نشانہ بنتے ہیں کس طرح ان کی شخصیت میں کجی پیدا ہوتی ہے اور وہ تشدد ان کی شخصیت میں جمع ہوتا رہتا ہے اور پھر جب وہ بچے جوان ہوتے ہیں تو اس غصے نفرت تلخی اور تشدد کا اظہار کرتے ہیں۔

صادقہ نصیر ایک بہتر ’ایک صحتمند ’ ایک پرسکون اور ایک پرامن معاشرے کے خواب دیکھتی ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ان کے قاری ان کے ساتھ مل کر اس خواب کو شرمندہ تعبیر کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صادقہ نصیر کے افسانے پڑھ کر مجھ پر یہ منکشف ہوا کہ وہ ایک مسیحا نفس افسانہ نگار ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply