فیثا غورث /مبشر حسن

فیثا غورث کی پیدائش ہوئی 580 قبل مسیح اور وفات ہوئی 500 قبل مسیح یونان سے اس تعلق تھا ۔
اہم کام کائنات کا ریاضیاتی نظریہ
یونانی فلسفی اور ریاضی دان فیثا غورث جزیرہ ساموس میں پیدا ہوا۔ اُس نے ابتدائی آیو نیائی فلسفیوں تھیلیس، انا کسی ماندر اور انا کسی مینیز کی تعلیمات کا مطالعہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اسے پولی کریٹس کی استبدادیت سے تنفر کا اظہار کرنے کے باعث ساموس سے نکلنا پڑا۔ تقریباً 530 قبل مسیح میں وہ جنوبی اٹلی میں ایک یونانی کالونی کروٹونا میں رہنے لگا اور وہاں مذہبی سیاسی اور فلسفیانہ مقاصد ر کھنے والی ایک تحریک کی بنا ڈالی جسے ہم فیثا غورث ازم کے نام سے جانتے ہیں۔ فیثا غورث کے فلسفہ کے متعلق ہمیں صرف اُس کے شاگردوں کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے۔
فیثا غورث ازم کا مکتبہ تحریک کی صورت میں مختلف فلسفیوں کے ہاں فروغ پاتا رہا۔ لہذا اس میں بالکل مختلف فلسفیانہ نظریات شامل ہو گئے ۔ وسیع تر مفہوم میں بات کی جائے تو ابتدائی فیثا غورث پسندوں کی تحریروں میں دو مرکزی نکات ملتے ہیں: تاریخ ارواح کے متعلق ان کے نظریات اور ریاضیاتی مطالعات میں اُن کی دلچسپی ۔ فیثا غورث اور اُس نظریات کے متعلق کوئی ایسا بیان دینا مشکل ہے کہ جو تاریخ قرار پا سکے۔ ہیراکلائٹس لکھتا ہے : فیثا غورث نے کسی بھی دوسرے انسان سے زیادہ گہرائی میں جا کر تحقیق کی ۔ اُس کی تعلیمات کے متعلق زندگی سے بھی کم تفصیلات میسر ہیں۔ ہیگل نے کہا کہ وہ ایک شاندار شخصیت کا مالک اور کچھ معجزاتی قوتوں کا حامل تھا۔
فیثا غورثی سلسلہ اصلاح ایک مذہبی برادری تھا نہ کوئی سیاسی تنظیم ۔ اس بات کا بھی کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے کہ فیثا غورث پسند جمہوری جماعت کے بجائے ارسٹوکریٹک جماعت کے حامی تھے۔ سلسلہ کا بنیادی مقصد اپنے ارکان کے لیے ریاستی مذہب کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں مذہبی اطمینان کی فراہمی یقینی بنانا تھا۔ در حقیقت یہ پاکیزگی کے حصول کا ایک ادارہ تھا۔ فیثا غورث نے تاریخ (Transmigration) کے ایک عقیدے کی تعلیم دی: یہ انسانوں اور جانوروں کو زمین کے بچے ہونے کے ناتے ایک جیسا خیال کرنے کے قدیم اعتقاد کی ترقی یافتہ صورت تھی ۔ اس کی بنیاد مخصوص اقسام کی خوراک کھانا ممنوع قرار دینے پر تھی یعنی جانوروں کے گوشت سے پر ہیز ۔ اس کی اساس انسانیت پسندی یا مرتاضانہ وجوہ نہیں تھیں ۔ فیثا غورث پسند دیوتاؤں کو بھینٹ کیا ہوا گوشت کھایا کرتے تھے۔ ارسطو کہتا ہے کہ فیثا غورث نیکی پر بحث کرنے والا پہلا شخص تھا، اور اُسی نے اس کی مختلف صورتوں کو اعداد کے ساتھ شناخت کرنے کی غلطی کی ۔ ہیراقلاطیس (ہیراکلائٹس) نے تسلیم کیا کہ سائنسی کھوج میں کوئی بھی شخص فیثا غورث کا ہم پلہ نہیں تھا۔ تو پھر اُس کے مذہب اور فلسفہ کے درمیان تعلق کس طرح کا ہے؟ اس سوال کا جواب ” تطہیر کے Orphic نظام میں ملتا ہے۔–سب سے بڑی پاکیزگی بے غرض سائنس ہے اور اسے مقصد بنانے والا شخص حقیقی فلسفی ہے جس نے خود کو پیدائش کے چکر سے مؤثر طور پر آزاد کر لیا ہو۔
فیثا غورث پہلا شخص تھا جس نے ریاضی کو تجارت کے علاوہ دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا اور اسے ایک قابل تحقیق علم کی صورت دی۔ جب ارسطو اُن لوگوں کی بات کرتا ہے ’ جو مثلث اور مربع جیسی اشکال میں اعداد کو لائے تو اُس کا اشارہ فیثا غورث پسندوں کی جانب ہی تھا۔
یہاں ہم فیثا غورث اور اُس کے پیروکاروں کے چند بنیادی نظریات کا خلاصہ دے رہے ہیں جن کا تعلق تاریخ ارواح اعداد اور فلکیات سے ہے۔ فیثا غورث Orphic اسرار کو مانتا تھا۔ اُس نے اطاعت اور مراقبہ کھانے میں پرہیز سادہ لباس اور تجزیہ ذات کی عادت پر زور دیا۔ فیثا غورث پسند لافانیت اور تاریخ ارواح پر یقین رکھتے تھے۔ خود فیثا غورث نے بھی دعویٰ کیا کہ وہ کسی سابقہ جنم میں جنگ ٹروجن کا جنگجو یوفور بس تھا اور اُ سے اجازت دی گئی کہ اپنے تمام سابقہ جنموں کا حافظہ اس زمینی زندگی میں ساتھ لائے۔
فیثا غورث پسندوں کی وسیع ریاضیاتی تحقیقات میں طاق اور جفت اعداد پر مطالعہ بھی شامل تھا۔ انہوں نے عدد کا تصور قائم کیا جو اُن کی نظر میں تمام کا سناتی تناسب العظم و ضبط اور ہم آہنگی کا مطلق اصول بن گیا۔ اس طریقہ سے انہوں نے ریاضی کے لیے ایک سائنسی بنیاد قائم کی اور اسے رواج بھی دیا۔
فلکیات کے معاملے میں فیثا غورث پسندوں نے قدیم سائنسی فکر کو کافی ترقی دی۔ سب سے پہلے انہوں نے ہی کرہ ارض کو ایک ایسا کرہ تصور کیا جو دیگر سیاروں کے ہمراہ ایک مرکزی آگ کے گرد محو گردش تھا۔ انہوں نے کائنات کو ایک ہم آہنگ نظام کے تحت حرکت پذیر سمجھا۔ اُن کے بعد کائنات کا آہنگ اور نظام” تلاش کرنے اور سمجھنے کی کوششیں ہی فلسفہ اور سائنس کا مرکزی مقصد بن گئیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply