اندرونی روح کا معنی اور بیرونی دنیا کی بوتل (3)-یاسر جواد

زندگی کے معنی کے معنی (2)-یاسر جواد

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم صدیوں بلکہ ہزاروں سال سے نہ صرف اپنے اندر بلکہ تمام چیزوں کے اندر ایک روح کا تصور کرنے کے عادی تھے۔ ہماری زبان میں اب تک ’’روح عصر‘‘ یا ’’روح رواں‘‘ جیسی اصطلاحات موجود ہیں۔ ہم نے نہ صرف چیزوں بلکہ مصنوعات میں بھی روح ٹھونس دی۔
صنعتی انقلاب اور سائنسی ترقی کے بعد مشینوں کے شور نے روح کا احساس ماند کر دیا اور روشن خیالی و عقلیت کی دو سو سالہ تحریک نے روح کی ضرورت نہ رہنے دی۔ انسان بہت حد تک اپنے معاملات کا خود ہی مختار بن گیا تھا۔ البتہ کیمرے کی ایجاد کے بعد کچھ فوٹوگرافروں نے تصویر میں روح کا عکس قید کرنے کا اُسی طرح دعویٰ کیا جیسے آج ہمارے پیر فقیر جنات سے باتیں کرتے ہیں۔ البتہ پاکستان جیسے زرعی اور عجیب سے مخلوط معاشروں میں یہ تصور بھونڈی شکلوں پر موجود رہا، مثلاً ڈرائیوروں کا اپنی ویگن کو ’شہزادی‘ یا ٹرک کو ’شہزادہ‘ لکھنا۔
یورپ میں پہلے اور آہستہ آہستہ ہماری مڈل اور اپر کلاس میں روح کے تصور کی جگہ زندگی کے ’معنی‘ نے لے لی۔ جسم کو بوتل جیسا سمجھا گیا اور معنی کو اس میں موجود آئل پینٹ جیسا۔ جسم ایک لفافہ تھا جس کے اندر معنی کی ہوا بھری ہوئی تھی۔ معنی نکل جانے پر لفافہ جیسے پچک جاتا اور معنی آنے پر پھول جاتا ہو۔ کسی چیز یا شخص یا صورت حال کے حصول پر اس لفافے میں معنی کی ہوا بھری جاتی اور کچھ کھو یا چلے جانے پر یہ ’خالی‘ محسوس کیا جاتا۔
چنانچہ زندگی اندرونی اور بیرونی یا داخلی اور خارجی دو شعبوں میں بانٹ دی گئی۔ یہ دونوں الگ الگ ہو گئیں۔ لفافے یا معنی کی ہوا کہیں اور کسی اور لفافے میں سنبھال کر رکھی گئی جس تک پہنچ کر اپنے اندر ’بھرنا‘ ضروری سمجھا۔ اوشو جیسوں نے یہی طریقہ مہیا کیا۔ لیکن جذبات و احساسات کی اندرونی دنیا کو معاشرتی زندگی میں شمولیت سے جدا کر دیا گیا۔ حالانکہ یہ دونوں باہم منسلک ہیں۔ لہٰذا کسی بھی جذبے کو ’داخلی‘ کہنا مشکل ہے۔
ٹیری ایگلٹن کے بقول غصے میں دھاڑنا، دانت پیسنا، لوگوں کے سر پر شراب کی بوتل توڑنا داخلی معاملات نہیں ہیں۔ یقیناً ہم اپنے احساسات اور جذبات کو چھپا سکتے ہیں، مگر یہ پیچیدہ کام ہمیں ’سیکھنا‘ پڑتا ہے، بالکل اُسی طرح جیسے ہمیں ’غیر مخلص‘ ہونا سیکھنا پڑتا ہے۔ زبان کا استعمال ہمارے غیر مخلص ہونے کے عمل میں معاون ہے۔
زبان کے تخلیق کردہ غبار کے پیچھے دیکھیں تو داخلی اور خارجی، زندگی اور معنی ایک ہی چیز ہیں۔ مگر چونکہ ہمیں ہر چیز کے حصے دیکھنے کی عادت ہو گئی ہے، لہٰذا معنی سے ہر وقت ’جدائی‘ کا احساس پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ اگر اِس دُوئی کا علاج ہم کسی طریقے سے کر لیں تو یقیناً مسئلہ تحلیل ہو جائے گا۔
کچھ لوگوں کو اگر لگتا ہے کہ مخصوص نوکری، پارٹنر، صورت حال، ملک میں اُن کی زندگی بے معنی ہے، تو کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی اور نوکری، پارٹنر، صورت حال یا ملک میں بھی ایسے ہی بے معنی ہوں؟ بلکہ اُس سے بھی زیادہ؟

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply