آقا و غلام کی اخلاقیات/سجیل کاظمی

 اخلاقیات

Advertisements
julia rana solicitors london

اخلاقیات ایک ایسی چیز ہے جو انسانوں کے لئے آپس میں مل جل کر رہنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ اخلاقیات کا تصور شاید انسانوں میں تب سے موجود ہے جب سے انہوں نے ساتھ مل کر رہنا شروع کیا۔ ہر وقت اور ثقافت کی اپنی اپنی اخلاقیات ہوا کرتی تھی اور آج بھی ہیں۔ ہر اخلاقی اصول کے پیچھے کوئی نہ کوئی پس منظر ہوتا ہے یا کوئی وجہ۔ جیسے کیونکہ ہر انسان کو اپنی جان پیاری ہے اس لیے کسی کی جان لینا برا سمجھا جاتا ہے اور بہن بھائیوں کی شادی شاید تب آفاقی گناہ تصور ہوئی جب ان کی ہونے والی اولاد پیدائشی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوئی جسے ہمارے معصوم آباؤاجداد نے دیوتاؤں کا قہر سمجھا اور آج بھی دنیا کے تقریباً ہر ملک میں اسے غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک آپ کسی ملحد یا لامذہبی انسان سے بھی پوچھ لیں تو وہ یہی کہے گا کہ یہ ایک قبیح عمل ہے حالانکہ اس کی اخلاقاً غلط ہونے کی وجہ صرف ہمارے آباء کی سائنسی کم علمی ہے۔ اسی پر سوچتے ہوئے انیسویں صدی کے ایک فلسفی “فریڈرک ولہلم نطشے” نے یہ سوچا کہ کیوں ایسے انسان کو غلط سمجھا جاتا ہے جو ہر چیز میں اپنے فائدے کو دیکھے؟ کیوں ہر فیصلہ لینے میں ہمیں سب کا سوچنا چاہیے یہ سوچ کہاں سے آئی؟ اور کیوں ایسی چیزوں کو گناہ قرار دیا گیا جو کہ انسان قدرتی طور پر پسند کرتا ہے؟ کیونکہ نطشے کے مطابق انسان پر سب سے پہلا حق اس کا اپنا ہے اور قدرتی طور پر انسان خود پسند اور آزاد ہے اور راحت تلاش کرتا ہے تو پھر کیوں تکلیف سہنے کو اور شکایت نہ کرنے کو اور دنیا سے دستبرداری کو نیک عمل قرار دیا گیا ہے؟۔ یہ سب سن کر ایک عام آدمی تو یہی جواب دے گا کہ ان سب چیزوں کا مذہب حکم دیتا ہے اور یہ سارے احکام خدا کی طرف سے ہیں۔ مگر نطشے نے اسے یکسر مسترد کردیا۔ ویسے تو وہ ملحد تھے اور کہتے تھے کہ روشن خیالی نے اور سائنسی انقلاب نے خدا کے ہونے کی گنجائش کو ختم کر دیا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ اگر کوئی خدا ہے بھی اور اس نے ہم سب کو بنایا بھی ہے تو یہ اخلاقیات اس کی طرف سے نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ انسانی فطرت کے خلاف ہیں تو نطشے نے ان اخلاقیات کی تاریخ سمجھانے کے لیے نطشے ایک کہانی سناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قدیم زمانے میں (غالباً قدیم روم و یونان میں) دو گروہ بسا کرتے تھے ایک گروہ تھا آقاؤں کا ہے جو امیر تھے، طاقتور تھے، بااختیار تھے۔ خود سے محبت کرتے تھے اور ان کے ہر فیصلے میں ذاتی مفادات نظر آتے تھے۔ وہ اپنی ہستی کو کمال کو پہنچانے کو اچھا سمجھتے اور اپنے مرضی کے مطابق عمل کرنے والے کو قابلِ عزت سمجھتے تھے۔ دولت جمع کرنا اور کمانا انسان کی قابلیت سمجھا جاتا تھا۔ بدلہ لینا طاقت کی علامت تھا۔ غرور کامیاب انسان کا حق سمجھا جاتا تھا۔ جنسی تعلقات رکھنا پرکشش اور خوبصورت ہونے کی علامت سمجھا جاتا تھا کیونکہ یہ خواہشات انسان کے اندر قدرتی طور پر موجود ہیں اور ان کو حاصل کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی جاتی تھی تو یہ تھی آقاؤں کی اخلاقیات لیکن ابھی ایک اور گروہ بھی موجود تھا یعنی “غلام” یہ وہ لوگ تھے جو آقاؤں کے آگے بےبس تھے اور جن سے آقا اطاعت کرواتے تھے۔ آغاز میں وہ جھنجھلاہٹ کا شکار تھے اور احساس کمتری کا شکار تھے۔ وہ آقاؤں کی اخلاقیات کے دباؤ میں خود کو برا تصور کرتے تھے کیونکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتے تھے بلکہ وہ آقاؤں کے تابع تھے۔ کئی بار آقاؤں کی برابری کے باوجود ناکام ہونے کے بعد غلاموں نے بغاوت کا فیصلہ کیا لیکن یہ کوئی جنگ کے ذریعے بغاوت نہیں تھی (کیونکہ اس کی تو وہ طاقت ہی نہیں رکھتے تھے) بلکہ اخلاقی بغاوت۔ انہوں نے خود کو اس بات پر قائل کرلیا کہ ہم کمزور نہیں ہیں بلکہ جو کچھ آقا کرتے ہیں یہ غیر اخلاقی اس لیے ہم اس سے بچتے ہیں نہ کہ اس وجہ سے کہ ہم یہ سب کرنے سے قاصر ہیں یعنی غلاموں کی یہ بات کچھ ایسی ہی تھی جیسے بچوں کی کہانی میں لومڑی اپنی ہر کوشش کے باوجود بھی جب انگور نہیں توڑ پاتی ہے تو وہ دل کو تسلی دینے کے لیے کہتی ہے کہ انگور کٹھے ہیں۔ یعنی غلاموں نے اپنی کمزوری کو چھپانے کیلئے کہا کہ ہم شراب نوشی اس لیے نہیں کرتے کیونکہ یہ غلط ہے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ شراب کی مہنگی قیمت ادا ہی نہیں کرسکتے تھے۔ انہوں نے جنسی لذت اٹھانے کو غیر اخلاقی قرار دے دیا کیونکہ ان کی اپنی جنسی خواہشات پوری نہیں ہوتی تھی۔ غلام یہ تو جانتے تھے کہ ہم آقاؤں کو بزور قوت تو شکست نہیں دے سکتے لیکن انہوں نے آقاؤں کو نفسیاتی شکست دینے کی کوشش کی۔ انہے احساس گناہ دے کر انہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اس پر شرمسار کرکے۔ تو یہ تھی غلامانہ اخلاقیات جو آقاؤں کی ضد میں بنائی گئی تھی اور اس لیے خلاف قدرت تھی۔ غلامانہ اخلاقیات کا مقصد کوئی نیا اور بہتر اخلاقی نظام متعارف کروانا نہیں بلکہ آقاؤں کو نیچا دکھانا تھا۔ اب تک آپ سمجھ ہی گئے ہونگے کہ یہاں نطشے کی غلامانہ اخلاقیات سے مراد مذہبی اخلاقیات ہیں تو جی بالکل ایسا ہی ہے اور نطشے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کو غلامانہ اخلاقیات کا ماخذ سمجھتے تھے اور عیسائیت کو مذہب غلامہ یا غلاموں کا مذہب کہتے تھے۔ وہ رومن کیتھولک چرچ کے یورپ پر اثرورسوخ کو غلاموں کی آقاؤں پر فتح سمجھتے تھے اور وہ لبرل ازم، جمہوریت اور بلخصوص کیونزم کو غلاموں کا نظام کہتے تھے۔ نطشے کے اس نظریے کو آگے سمجھنا اور پرکھنا اور اس سے متفق ہونا ہر ایک اپنی اپنی مرضی ہے لیکن یہ بات بارحال ایک حقیقت ہے کہ نطشے کا یہ نظریہ ایک کمال نظریہ ہے اور ہمیں بچپن سے سکھائی جانے والی باتوں کافی مختلف زاویے سے دیکھتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply