تعریف کو خوشامد مت سمجھیے/رضوان ظفر گورمانی

میں نے زندگی میں یہ بات سیکھی ہے کہ آپ کو محبتیں بانٹنا چاہیں۔ خوشامد اور تعریف میں فرق ہوتا ہے اگر آپ کا کوئی دوست کوئی اپنا کوئی تعلق دار یہاں تک کہ کوئی مخالف بھی تعریف کے قابل ہو اور آپ اس ڈر سے کہ دنیا کیا کہے گی؟ کہیں دنیا آپ کی تعریف کو خوشامد نہ سمجھ بیٹھے۔ یوں آپ بخل سے کام لیتے ہیں تو آپ غلط کرتے ہیں۔

دنیا جہاں کے کسی بھی کونے کے کسی بھی مسئلے کا اگر کوئی آفاقی حل ہے تو وہ ہے عدل۔ چلیں آپ پاکستان کی زوال پذیری کا سبب بننے والے کسی بھی مسئلے کا سوچیں پھر وہ کرپشن ہو اقربا پروری ہو میرٹ کا قتل ہو ناخواندگی ہو ان سب مسائل کا خاتمہ عدل سے ممکن ہے۔ جب سیاستدان فوجی جج صحافی بیوروکریٹ کو علم ہو کہ اس کا تمام پیسہ تمام پاور تمام تعلقات دھرے کے دھرے رہ جانے ہیں اور اسے عدل کا سامنا کرنا پڑے گا تو دیکھنا کوئی بھی حد سے تجاوز نہیں کرے گا۔

جو چیز جہاں ڈیزرو کرتی ہو اس کا وہیں ہونا عدل ہے۔ کسی کا مقام بڑھانا یا پھر کسی کا مقام گھٹانا دونوں جہل ہے۔ اگر آپ کسی کی تعریف میں بخل سے کام لیں گے یہ جہل ہے لہذا تعریف کریں آپ کی تعریف اگلے بندے کے لیے کیا کردار ادا کر سکتی ہے اس کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ کارگل کا مقام تھا بھارت سے جنگ جاری تھی۔ عالمی سطح پہ حکومت پاکستان کو دباؤ کا سامنا تھا۔ میدان جنگ میں گو پاکستانی پہاڑ کی بلندی پہ تھے ان کو یہ برتری حاصل تھی کہ وہ نیچے سے اوپر کی طرف آنے والی بھارتی فوج کو چن چن کر نشانہ بنا سکتے تھے۔

مگر Lack of commumication کی وجہ سے سول حکومت کو کچھ کا کچھ بتایا گیا تھا۔ اور گراؤنڈ زیرو پہ پاکستانی سپاہ کو کھانے اور دیگر کمک پہنچانے کا سلسلہ بھی بند ہو گیا تھا۔ بھارتی بوفورز گن لے آیا کہنے کو تو گن ہے لیکن وہ کسی توپ سے کم نہیں تھی بوفورز گنیں زمین سے اوپر پہاڑ کی چوٹی تک مار کر سکتی تھیں

جب پاکستانی فوج کو پسپا ہونے کا حکم ملا تو بھارتیوں نے پیچھے ہٹتے سپاہیوں کو پیچھا کر کے مارنا شروع کر دیا۔

ایسے میں کرنل محمد شیر خان جیسے دلیر اور بہادر سپاہیوں نے اپنے ساتھیوں کو کور فراہم کرنے کے لیے اپنی قربانی دینے کا فیصلہ کیا اور اپنا مورچہ چھوڑنے کی بجائے بھوکے پیاسے بھارتی فوج سے لڑ بھڑ گئے۔ بھارتی جنرل نے اپنی آنکھوں سے کرنل شیر خان کو آخری سانس تک لڑتے دیکھا حتیٰ کہ جب بھارتی فوجی چوکی پہ پہنچ گئے تو زخمی شیر خان شیر کی طرح خالی ہاتھ دوبدو لڑتا رہا۔

بھارتی کمان سنبھالنے والے بریگیڈئیر ایس ایم باجوہ نے باقی شہید پاکستانیوں کو وہیں ٹائیگر ہل پہ دفنا دیا مگر کرنل شیر خان کا جسد خاکی خصوصی طور پہ رپورٹرز بھیج کر نیچے منگوایا اور بریگیڈ آفس میں رکھا جب جسد خاکی پاکستان کو لوٹائے گئے تو بریگیڈیئر ایم ایس باجوہ نے کرنل شیر خان کی لاش کے ساتھ اک رقعہ لکھ کر رکھ دیا کہ ”12 این ایل آئی کے کپتان کرنل شیر خان انتہائی بہادری اور بے جگری سے لڑے انہیں ان کا حق دیا جانا چاہیے“ یوں اک دشمن کی تعریف اور اعتراف کے بعد کرنل شیر خان کو ”نشان حیدر“ سے نوازا گیا۔

کرنل شیر خان کے بارے میں مزید تفصیل پاکستانی مصنف اشفاق حسین کی کتاب ”وٹنس ٹو بلنڈر کارگل سٹوری ان فولڈ“ اور بھارتی مصنفہ رچنا بشٹ راوت کی کتاب ”کارگل ان ٹولڈ سٹوریز فرام دی وار“ میں پڑھ سکتے ہیں۔

گویا عدل تو یہ ہے کہ آپ کا مخالف بھی تعریف کا مستحق ہے تو ضرور کیجیے۔ یہاں تو ہم خوشامدی کے ٹیگ سے بچنے کے لیے دوستوں کی تعریف کرنے سے بھی ہچکچاتے ہیں۔ جب میرا پہلا کالم روزنامہ خبریں میں شائع ہوا تو رانا محبوب اور ساحر رنگپوری نے فون نمبر ڈھونڈ کر کال کر کے تعریف کی۔ رانا محبوب وسیب کے مشہور ترین دانشور سابق بیوروکریٹ، کئی کتابوں کے مصنف اور بذات خود سینئر کالم نگار ہیں۔ ساحر رنگپوری کو ہم بطور شاندار سرائیکی شاعر کے جانتے ہیں مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ساحر رنگپوری اک سائنٹسٹ ہیں ان کے سپیس اور کائنات کے متعلق لکھے گئے مقالے عالمی رینکنگ میں اول درجے پہ فائز جریدے میں چھپے ہیں۔ خلائی تحقیق میں ان کا دنیا میں اک منفرد نام ہے۔ عبدالمالک نامی سائنسدان جلد پی ایچ ڈی ڈاکٹر عبدالمالک بننے والے ہیں۔ شاید کم لوگ جانتے ہیں کہ عبدالمالک یہی ساحر رنگپوری صاحب ہیں۔

ایسے علم کے سمندر کہلائے جا سکنے والے اشخاص کی جانب سے اک طالب علم کو سراہے جانا بہت بڑی بات تھی اور یوں میرے اک سفر کا آغاز ہوا جو جاری ہے۔

میں آج اک پروفائل رکھتا ہوں اک نام ہے چند لوگ پہچانتے بھی ہیں اپنے ایریا آف ورک میں نام بھی عزت سے لیا جاتا ہے۔ کوئی ایسا دو نمبر کام بھی نہیں کرتا کہ جس کو چھتری فراہم کرنے کے لیے مجھے کسی کی ناجائز تعریف کرنا پڑے مگر اس کے باوجود میں تعریف کرتا ہوں

میں اپنے پولیس والے دوستوں کو سراہتا ہوں میں ڈاکٹرز دوستوں کے خاکے لکھتا ہوں میں شعرا و ادیبوں کے تعارف لکھتا ہوں میں استاد کھلاڑی سیاستدان حتیٰ کہ مزدور دوستوں کے نام تحریر لگاتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

منہ پہ نہیں تو پیٹھ پیچھے، واضح نہیں تو مبہم انداز میں، پاٹ دار آواز نہیں تو سرگوشیوں میں سہی لوگ باتیں تو کرتے ہیں، سوال اٹھاتے ہیں، اعتراض کرتے ہیں شاید خوشامد پہ بھی محمول کرتے ہوں گے۔ مگر میں نہیں رکا میں نہیں رکوں گا میں جہل نہیں عدل سے کام لوں گا کیونکہ ”تعریف تو بھئی ایسی چیز ہے جو میرا بس چلے تو مفت سڑک پہ بانٹی جائے۔ دل میں کیوں رکھتے ہیں؟ کسی کی گاڑی اچھی لگی، کسی کا سوٹ اچھا ہے، کسی کے بال اچھے ہیں، کسی کی لکھائی پسند آ گئی، کوئی کھانا پسند آیا، کسی ماتحت کی بات اچھی لگی، کچھ بھی تعریف کے لائق دکھے تو اسی وقت کریں، منہ پہ کریں۔ آپ کا کچھ نہیں جائے گا اگلے بندے کی زندگی بن جائے گی۔“

Facebook Comments

رضوان گورمانی
رضوان ظفر گورمانی سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی ہیں روزنامہ خبریں سے بطور نامہ نگار منسلک ہیں روزنامہ جہان پاکستان میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply