مردانہ طاقت/ثناء اللہ خان احسن

ہمارے یہاں کسی بھی لڑکی کو للچائی نظروں سے دیکھنے اور دعوت عشق دینے کے لئے مرد کو خوبرو، یا صاف ستھرا خوبصورت یا ویل گرومڈ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اپنے تئیں ہر مرد خواہ کسی بھی حال میں ہو کسی بھی عمر میں ہو کچھ بھی پہنے ہو یا نہ بھی پہنے ہو اس کے نزدیک اس کا مرد ہونا اور اس کی مردانگی ہی عورت کو رجھانے، پٹانے، بلانے، سنبھالنے، گرمانے ، مچلوانے اور تڑپانے اور دل دھڑکانے کے لئے شافی و کافی ہے کیونکہ ہمارے ہر مرد کو یہ خوش فہمی ہے کہ نسل انسانی کو آگے بڑھانے کے لئے کسی بھی خاتون کے پاس اس سے بہتر آپشن کوئی اور نہیں ہے۔

یہاں خوش فہمیوں کا یہ حال ہے کہ ایک 80 سالہ بڑے میاں نے پیسے کے بل پر ایک سولہ سالہ غریب دوشیزہ سے نکاح کرنے کی ٹھانی۔ اب یہ ڈاکٹر کے پاس کچھ قوت باہ بڑھانے کی ادویات لینے پہنچے۔ ڈاکٹر نے بڑے میاں کا مکمل طبی معائنہ کرنے کے بعد تشویش زدہ سخت الفاظ میں خبردار کیا کہ بڑے صاحب سوچ لو، اس عمر میں یہ حرکت جان لیوا بھی ہوسکتی ہے۔ بڑے میاں چھبیس انچ کی دمہ زدہ چھاتی پُھلا کر اکڑ کر بولے کہ سُسسری مرتی ہے تو مرجائے، مجھے پرواہ نہیں۔

خاص طور پر ہمارے معاشرے میں تو ہر مرد کی یہی سوچ ہے۔ رہی سہی کسر پنجابی فلموں نے پوری کردی ہے۔ جس کا ہیرو ڈیسنٹ پڑھا لکھا باذوق اور صاف ستھرا نہیں بلکہ دھوتی ( جس کے نیچے انڈر ویئر بھی نہیں ہوتا کیونکہ آج بھی اکثر دیہاتی علاقوں میں انڈرویئر خاص دنوں میں صرف زنانیوں کے استعمال کی چیز سمجھی جاتی ہے) اور بغیر بٹنوں والے لمبے کرتے میں ملبوس بلکہ ملفوف اور گلے میں پاؤ بھر کی تویتڑی ڈالے گنڈاسا یا گن تھامے اتھرا جاہل اجڈ گنوار ہوتا ہے جس کی واحد قابلیت و خوبی مرد ہونا ہوتی ہے جس کا ثبوت وہ اپنی بڑی بڑی مونچھوں سے دیتا ہے جیسے کہ ان کے بغیر اس کی مردانگی کے بارے میں لوگ شک میں پڑ سکتے ہیں۔ بڑی بڑی مونچھیں اور لاؤڈ اسپیکر والیم میں بات کرتے ہوئے جوش اور زور کی وجہ سے منہ سے تھوک اڑتا ہے۔ اس اتھرے جٹ کو شہر سے آئی بہت بڑے سیٹھ کی اکلوتی بیٹی کھیتوں میں ڈانس کرکر کے رجھانے اور منانے کی کوشش کرتی ہے کیونکہ
شہروں میں قحط الرجال ہے۔

ماہی آوے گا میں پُھلاں نال دھرتی سجاواں گی۔۔ (ہیروئن کی صحت دیکھتے ہوئے آپ پھلاں میں پ پر پیش کی جگہ زبر بھی لگاسکتے ہیں)
اونوں دل والے رنگلے پلنگ تے بٹھاواں گی۔۔ (بشرطیکہ بیٹھنے پر راضی ہوگیا) کیونکہ اس ہیرو کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ موصوف پیدا بھی کھڑی حالت میں ہوئے تھے اور دفن بھی اسی حالت میں ہونگے۔
جھلاں گی پکھیاں بڑا کجھ کہن گِیاں اکھیاں

لیکن یہ مولا جٹ اکڑ اکڑ کر اپنی شان دکھاتا ہے۔ ہمارے گاؤں دیہات کے کم پڑھے یا ناخواندہ مردوں اور خاص طور پر ایک صوبے کے تمام مردوں میں یہ نظریہ اور یقین کامل پایا جاتا ہے کہ شہر کے پڑھے لکھے صاف ستھرے بابو ٹائپ مرد دراصل نامرد ہوتے ہیں اور شہری خواتین کسی گاؤں کے گبر یا خان فرام خیبر کی تلاش میں رہتی ہیں۔
ان کو یہ یقین کامل ہوتا ہے کہ صرف یہ ہی عورت کی وہ پیاس بجھا سکتے ہیں جس کی طلب ہیما مالنی نے فلم میں “ آگ بھڑکی ہے سر شام سے جلتا ہے بدن” گا کر بیان کی ہے۔ عورت کے بارے میں عجیب عجیب باتیں مشہور کی ہوئی ہیں جس میں عورت کی نفسیات سے زیادہ مردانہ خواہشات بلکہ تمناؤں کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہمارے یہاں کا مرد باہر سے کتنا ہی پھنے خاں بنے لیکن اندر سے وہ عورت سے خائف ہی رہتا ہے ۔لیکن جاہل سے جاہل مرد بھی خود کو ماہر خواہشات نسواں سمجھتا ہے۔
صاحبو! مرد کو نفیس، مہذب، عورت کی عزت اور محبت کرنے والا ہونا چاہیے۔ باقی سب ثانوی باتیں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہاں نسوار بھرے بدبودار منہ والا یا چرسی یا پان کی پیک سے کالے دانتوں والا جب بیوی کے پاس جاتا ہے تو اس کو ذرہ برابر یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ اس کو کس دل سے برداشت کرتی ہوگی! بس مرد ہونا کافی ہے نا۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے مردوں کی اکثریت گرومنگ، پرفیومز، لباس اور سیلون کے بجائے کسی حکیم کی تلاش میں رہتے ہیں جو ان کو جرمنی طاقت سے بھردے۔
بھلا شیروں کے بھی کہیں منہ دھلتے ہیں۔ لیکن نادان یہ بھول جاتے ہیں کہ شیر باقی اور کچھ بھی نہیں دھوتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply