بچہ مزدوری: قوم کے معمار کا بجھتا ہوا چراغ ۔۔غازی سہیل خان

بچے قوم کی اُمید اور مستقبل کے روشن چراغ ہوتے ہیں،بچپن کی دہلیز پار کر کے یہی بچے جوان ہوتے ہیں۔کسی بھی قوم و ملک کے عروج و زوال کا انحصار اسی نوجوان نسل پر ہوتا ہے۔اگر یہ نوجوان تعلیم یافتہ ہوں تو قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے اور اگر اَن پڑھ ہوں تو اس میں دورائے نہیں کہ قوم زوال کی جانب چل پڑتی ہے  ۔ اس لحاظ سے اگر مستقبل کو روشن و تابناک بنانا ہے تو بچوں (قوم و ملک کے سارے بچے)کو تعلیم کے نور سے منور کرنا ضروری ہے۔ تب جا کر یہی نسل کل کو ہماری قوم کو عروج و بلندی عطا کرنے میں اہم رول ادا کرسکنے کے قابل ہو سکے  گی۔

عصر حاضر کی صورت حال پر جب ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اتنی زیادہ تعمیر و ترقی کے باوجود بچہ مزدوری کا پھیلتا ہوا رواج دیکھنے کو ملتا ہے۔سب سے زیادہ بچہ مزدوری دنیا کے پسماندہ ممالک میں دیکھنے کو ملتی ہے جن میں ہندوستان سر فہرست  ہیں ، جہاں بچہ مزدوری  میں  آئے دن اضافہ ہو  رہا ہے۔ یہ ہندوستان ہی ہے جو دنیا میں اس وقت سب سے  زیادہ ہتھیار درآمد کرتا ہے۔ ہندوستان کی باقی ماندہ ریاستوں کی طرح دنیا کی خوب صورت ترین اور قدرتی وسائل سے مالا مال ارض کشمیر میں بھی بچہ مزدوری تھمنے کا نام نہیں لے پا رہی ہے جو کہ ایک تشویش ناک امر ہے۔

بچہ مزدوری سے مراد بچوں کی مختلف مقامات پر مزدوری وغیرہ کرنا ہے،جیسے ٹی سٹال، سڑکوں کی تعمیر، فیکٹریوں، کارخانوں، بلڈنگز  وغیرہ۔بچہ مزدوری بچوں کا بچپن اُن سے چھین لیتی ہے اور بجائے ایک تعلیم گاہ کے وہ کارخانوں، فیکٹریوں،بلڈنگز اور سڑکوں پرمحنت و مشقت کرتے ہیں اور اس طرح وہ تعلیم کے قیمتی جوہر سے محروم  رہ  جاتے ہیں،اور جس کی وجہ سے بچے کم سنی کی عمر میں ہی مختلف دماغی،جسمانی، سماجی،اور اخلاقی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ تعلیم حاصل کرنا ہر بچے  کا  بنیادی  حق ہے،یہ حق اسلام کے ساتھ ساتھ دنیا کے باقی مذاہب نے بھی ان کو دیا ہے، ان سے یہ حق چھیننا حق تلفی کی بد ترین مثال ہے۔

جہاں تک وادی کشمیر کا تعلق ہے یہاں پر بچہ مزدوری کی کئی وجوہات میں تین سب سے بڑی وجوہات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایک یہ کہ بچوں سے زور زبر دستی کام کرایا جاتا ہے،دوسری وجہ یہ کہ بچوں کو غریبی و مفلسی کی وجہ سے مزدوری کرنی پڑتی ہے اور تیسری وجہ بچے تعلیم میں دلچسپی نہ لے کر خود اپنی مرضی سے مزدوری کرنے کا راستہ چن لیتے ہیں۔ان تینوں وجوہات میں بچوں کی غریبی و مفلسی ایک اہم وجہ ہے جو بچوں کو مزدوری کرنے پر مجبورکرتی ہے۔غربت کے تدارک اور روزی روٹی کمانے کے لئے بچے مزدوری کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔یہ تو ایک عمومی وجہ ہے جس جانب ہر ایک ذی حس و صاحب عقل   کی توجہ جاتی ہے۔بچہ مزدوری کی دو اور اقسام ہیں جس کی جانب توجہ کم ہی مبذول ہوتی ہے جن میں ہمارے پری پرائمری(Pre primary) سکول ہیں جہاں سے بچوں سے تعلیم کے نام پر مزدوری کروائی جاتی ہے۔اور دوسری وجہ تعلیم کا مہنگا ہونا جس کی وجہ سے بچے مزدوری کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

بچے کی پیدایش کے بعد اس کو آزاد ماحول کی ضرورت پڑتی ہے،ایک بچے  کی پری اسکولنگ کے لئے اس کا گھر اس کی ماں ہی بہترین اسکول اور ٹیچرہے جہاں بچہ کسی بھی دباؤ کے بغیر سیکھتا ہے۔اسی لئے حکومت نے بھی ایک بچے کے لئے اسکول میں داخلہ کی عمر پانچ سال مقرر کی ہے۔پانچ سال تک ایک بچہ اپنے گھر میں اپنی ماں سے ہی تعلیم  حاصل کرتا ہے اور بڑی تیزی سے ذہنی اور جسمانی طور آگے بڑھتا ہے۔مگر کشمیر میں اس کے بر عکس ہورہا ہے، یہاں پربچے کی پیدائش کے اڑھائی تین سال بعد ہی پری اسکولنگ کے لئے داخلہ کرایا جاتا ہے جہاں اُسے مصنوعی ماؤں کے ذریعے تربیت  دی  جاتی ہے اور زور زبردستی بچوں کوخوش رکھا جا تا ہے۔مگر اصل میں یہ اسکول بچوں کے جیل خانے اور تعلیم کے نام پر مزدوری کے مراکز بن کر رہ گئے ہیں۔ جہاں ان معصوموں کو اگرچہ تعلیم کے نام پرداخلہ کرایا جاتا ہے اور ان کو غیر فطری طریقے سے نام نہاد تعلیم دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ دباؤ کا شکار ہو کر ذہنی اور جسمانی ترقی نہیں کرپاتے۔

راقم الحروف کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ جہاں ان بچوں کی پری اسکولنگ ہوتی ہے وہاں انہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا  ہے کہ   جیسے ان کو گھر سے زبردستی اُٹھا کر جیل میں ڈال دیا گیا ہو، ظاہری طور پر ان اسکولوں میں بچوں کے لئے کھلونوں اوردیگر چیزوں کو سجایا جاتا ہے لیکن اصل میں یہ اسکول بچوں کے لئے تعذیب خانے ہی بن جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں اُس وقت ماں کی ممتا کی ضرورت ہوتی ہے،مگر صد افسوس تعلیم کے نام پر ان اسکولوں کے ذریعے سے صرف یہ اسکول والے موٹی موٹی رقمیں ہی وصول کرتے ہیں اور کچھ نہیں۔ اسی طرح سے ہمارے پرائیوٹ اسکولوں میں فیس کے نام پر لاکھوں روپے والدین سے لئے جاتے ہیں، وردیاں،جوتے اور کتابیں تک اسکولوں کے منتظمین فراہم کرتے ہیں جس میں بچوں کے والدین کو سہولت نہیں  ملتی بلکہ ان کا  اپنا یہ کاروبار   مضبوط   ہو جاتا ہے جو آج کے دور میں ایک اچھی خاصی تجارت مانی جاتی ہے۔ عوام کا پرائیوٹ اسکول میں اپنے بچوں کا داخلہ کرانے کی اصل وجہ گورنمٹ اسکولوں میں تعلیم کا معیار کم ہونا ہے۔اور والدین قرضہ لے کر اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں داخل کراتا ہے اب جو پرائیویٹ اسکول کی فیس ادا نہیں کر پاتے وہ اپنے بچوں کو مزدوری ہی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔کیوں کہ سرکاری سکولوں میں ایسا انتظام نہیں کہ وہ وہاں جاکر تعلیم حاصل کر سکیں۔

اس سلسلے میں والدین کو چاہیے کہ وہ چار سے پانچ سال تک بچوں کی پری اسکولنگ گھر میں ہی کرائیں، تا کہ بچہ آزادی کے ساتھ بغیرکسی دباؤ کے اپنے ہی گھر میں بُنیادی باتیں سیکھ  سکے۔ اور جب بچہ چار سال کے  بعد  اسکول میں داخل ہوگا تو اس کا ذہن پختہ ہوگا  تب جا کر وہ ذہنی دباؤ سے نکل کر آزادی سے تعلیم حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی کرسیوں پر براجمان عہدہ داروں کو چاہیے کہ وہ سرکاری اسکولوں کی طرف دھیان دیں وہاں کے تعلیمی معیار کو بہتر بنایا جاسکے، تا کہ گورنمٹ اسکولوں میں پڑھنے والے بھی پرائیوٹ اسکول کے بچوں کے برابر اپنی صلاحتوں کو نکھار سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

الغرض ہم یہی کہیں گے کہ بچہ مزدوری صرف یہ نہیں ہے کہ کسی نے اسکول جانا ترک کر دیا ہو اور پھر کسی چائے کی دکان یا کسی کارخانے میں کا م کرتا رہے بلکہ بچہ مزدوری یہ بھی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو تعلیم کے نام پر بڑے بڑے بستے ان کے کاندھو ں پر لٹکائیں اور وقت سے پہلے ہی زبردستی (جبری اسکولوں) میں بھیج دیں، یہ بھی بچہ مزدوری کی ہی ایک نئی قسم ہے جس کی جانب والدین کو  توجہ  دینی  چاہیے۔تب جا کر ہمارے سماج میں بچے جسمانی اور ذہنی طور پر  قوی ہوں گے اور ہمارے معاشرے کو بچہ مزدوری کے اس ناسو ر سے نجات مل سکے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply