• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان کے پہلے آئین کی تاریخ/خواجہ ناظم الدین۔۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط7۔۔حصہ اول

پاکستان کے پہلے آئین کی تاریخ/خواجہ ناظم الدین۔۔۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط7۔۔حصہ اول

خواجہ ناظم الدین پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے جن کو برطرف کیا گیا تاہم ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں  لگایا جا سکا تھا مگر ان کو نااہل اور بزدل شخص کے طور پر ضرور پیش کیا گیا ان کے دور میں پاکستان میں گندم کا بحران پیدا ہوا اور ان کو ناظم قلت کا لقب دیا گیا ،اس کے علاوہ ان کے پیٹو پن کے قصے مشہور کیے  گئے اور ان کو ہاضم الدین کے نام سے پکارا گیا۔ ان کے دور میں مشرقی پاکستان میں بنگلہ زبان کا فساد ہوا اور کئی طلبا شہید ہوئے جس پر وہاں شہید مینار بنایا گیا اس کی ذمہ داری بھی ان پر ڈالی گئی۔

پاکستان کی تاریخ کی کتابیں پڑھیں تو اسی طرح کی تصویر ان کے بارے میں پیش کی جاتی ہے مگر کیا واقعی ایسا تھا۔۔۔۔؟

یہ شخص جس کو نالائق اور نااہل کے طور پر پیش کیا گیا۔ نوابان ڈھاکہ کے خاندان سے تھا جن کے نواب سلیم الدین کے گھر مسلم لیگ کی بنیاد پڑی تھی آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم ترین سیاسی راہنماؤں میں شامل تھے۔

لیاقت علی خاں اور آئین سازی کا عمل۔۔۔داؤد ظفر ندیم/قسط6
جہاں تک ان کی تعلیم کا سوال ہے ۔انہوں نے  علی گڑھ یونیورسٹی کے بعد کیمبرج یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی جہاں تک سیاسی سمجھ بوجھ اور تجربے کا سوال ہے انہوں نے بلدیاتی سطح سے سیاست کا آغاز کیا۔۔1922 ءمیں ڈھاکہ میونسپل کمیٹی کے صدر بنے۔
1929ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کونسل کے بھی رکن رہے۔ 1929ء میں پانچ برس تک صوبہ بنگال کے وزیر تعلیم رہے اور بنگال کی کابینہ میں لے لیا گیا اور وزیر تعلیم بنے۔ 1930ء میں انہوں نے بنگال میں لازمی ابتدائی تعلیم کا بل پیش کر دیا۔ 1937ءمیں 1935ءکے ایکٹ کی رو سے جب مختلف صوبوں میں وزارتیں بنیں تو پھر اے کے فضل الحق کی کابینہ میں وزیر داخلہ ہو گئے۔ ۔ نومبر 1941ءمیں وزارت سے علیحدہ ہو گئے اور بنگال اسمبلی میں مسلم لیگ پارٹی کے ممبر چنے گئے۔ 1943ء میں فضل الحق کے مستعفی ہونے پر خواجہ صاحب وزیراعلی منتخب ہو گئے۔ وزیر دفاع اور امور داخلہ کے محکمے اپنے پاس رکھے اسی زمانے میں بنگال میں زبردست قحط پڑا اور آپکی شہرت کو خاصا نقصان پہنچا اب اس قحط کی وجوہات اور اس میں ہونے والی ہلاکتوں پر کافی تحقیقی رپورٹیں  جاری ہو  چکی ہیں ۔

1945ءتک آپ وزیر رہے۔ 1947ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے صدر رہے۔ 1946ءمیں آپ نے جمعیت اقوام کے اجلاس جنیوا میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔ خواجہ ناظم الدین مرحوم نے آڑے وقت میں قربانیاں دی تھیں۔ مسلم لیگ اور تحریکِ پاکستان کی خدمت کی تھی۔ مثلاً جب ہندو اخبارات نے مسلمانوں کا ناطقہ بند کر رکھا تھا تو اسی ناظم الدین نے اپنی جملہ آبائی جائیداد بیچ کر مسلمانوں کا انگریزی اخبار ”اسٹار آف انڈیا“ کلکتہ سے جاری کروایا تھا اور خود قلاش بن کر بیٹھ گیا تھا۔ اور خان بہادر عبدالمومن کے ہمراہ کلکتہ میں مسلم ایوان تجارت قائم کیا۔ قیام پاکستان کے بعد آپ مشرقی پاکستان کے پہلے وزیراعلیٰ بنے۔ قائداعظم کی وفات کے بعد پاکستان کے گورنر جنرل بنے۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اکتوبر 1951ءکو آپکو وزیراعظم مقرر کیا گیا۔ اس عہدہ پر 1953ءتک فائز رہے۔

یہ اس شخص کا سیاسی تجربہ تھا جس کو سیاسی طور پر ناپختہ کار اور نااہل قرار دیا گیا۔۔

آخر ان کی نااہلی کیا تھی اگر ذرا غور سے  دیکھا جائے تو ان کی نااہلیت کا صاف پتہ چلتا ہے آپ پارلیمنٹری طرز حکومت پر یقین رکھتے تھے آپ نے وزیر اعظم لیاقت علی خاں کے دور میں کبھی کسی معاملے میں مداخلت نہ کی اور ان کو پوری آزادی سے کام کرنے دیا۔ تاہم جب آپ وزیر اعظم بنے تو آپ نے اپنے اختیارات استعمال کرنے کی کوشش کی جس میں آپ کو گورنر جنرل کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو نادیدہ قوتوں سے تعلقات استوار  کر چکا تھا۔ خواجہ ناظم الدین نے جب غلام محمد سے کہا کہ جب میں گورنر جنرل تھا تو میں نے لیاقت علی خان سے ایسا رویہ روا نہیں رکھا جو آپ نے میرے ساتھ کیا۔ اس کے جواب میں غلام محمد نے کہا کہ نہ تم لیاقت علی خان ہو اور نہ ہی میں خواجہ ناظم الدین۔ آپ کی اصل نااہلی یہ تھی کہ آپ محلاتی سازشوں پر یقین نہیں رکھتے تھے اور پارلیمانی روایات کے مطابق پاکستان کا نظام حکومت چلانا چاہتے تھے ۔مقتدر حلقوں کو یہ سب قابل قبول نہیں تھا جو محلاتی سازشوں کے ذریعے ایک کٹھ پتلی وزیر اعظم چاہتے تھے خواجہ ناظم الدین اس حیثیث سے کام کرنے کے لئے تیار نہیں تھے اس لئے ان کو عہدے سے ہٹایا گیا۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد اس وقت کے سیاسی رہنماؤں اور مبصرین کا مجموعی خیال یہ تھا کہ نوکر شاہی کو اپنی مرضی سے امورِ مملکت چلانے کے لیے غلام محمد جیسا شخص درکار تھا، اس لئے اسے وزیر اعظم بنادیا جاتا تواس میں بھی کوئی حرج نہ تھا، جبکہ خواجہ صاحب بدستور گورنر جنرل رہتے تو یہ ایک احسن فیصلہ ہوتا۔

حقیقت میں اصل غلطی تب ہوئی جب انہوں نے گورنر جنرل کسی سیاستدان کو بنوانے کے بجائے ایک بیورو کریٹ کو بنوانا منظور کیا۔ حالانکہ اس دور میں سردار عبدالرب اور راجہ غضنفرجیسی شخصیات اس عہدے کے لیے موزوں تھیں۔ بظاہرایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ان کی مرضی سے ہوا لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیوروکریسی میں موجود چند عناصر جو اقتدار پر اپنی گرفت رکھنا چاہتے تھے، نے اپنا کھیل بہت احتیاط اور چالاکی سے کھیلا اور سیاست دانوں سے غلطیاں کروا کر اپنے مقاصد حاصل کیے، جن کے نتائج کیا کیا نکلے آپ جانتے ہی ہیں۔

خواجہ ناظم الدین ایک نہایت مذہبی شخص تھے ان کے پاس جائے نماز ہر وقت رہتا تھا مگر اس کے باوجود وہ پاکستان میں مذہبی آزادی اور اقلیتی حقوق کے لئے بہت بڑی آواز بن کر سامنے آئے ان کا اپنا ڈرائیور ہندو تھا جو کہ شراب پیتا تھا خواجہ ناظم الدین کو شراب سے سخت نفرت تھی مگر انہوں نے اپنے ڈرائیور پر کبھی سختی نہیں کی۔ وہ مشرقی پاکستان کے ہندؤوں کے لئے ایک بڑے پشت پناہ تھے، کہا جاتا ہے کہ محلاتی سازش کے تحت مجلس احرار کو تیار کیا گیا اور ایک اینٹی قادیانیت تحریک شروع کی گئی اس میں بھی پنجاب کے وزیر اعلی دولتانہ کے پرسرار کردار کا ذکر کیا جاتا ہے تحریک ختم نبوت۔ ساہیوال کا ڈپٹی کمشنر مرزا مظفر احمد نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا مگر مجلس احرار سے ٹھن گئی۔ اس کے بعد میں 14 دینی جماعتوں نے کنونشن طلب کیا اور تحریک ختم نبوت پر شہر میں ہنگامے ہونے لگے۔ ان تمام باتوں کے باوجود خواجہ ناظم الدین نے کسی قسم کی سیاسی مذہبی بلیک میلنگ میں آنے سے انکار کیا ان کے دور میں مذہبی فسادات کے نتیجے میں مارشل لاء لگایا گیا۔ یہ ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ ہوا، گو کہ یہ مارشل لاء صرف لاہور تک محدود تھا۔

جسٹس منیرکمیشن بنایا، ریاستی سطح پر تکفیری پالیسی کی مخالفت کی اور عقیدے کی وجہ سے کسی وزیر کو برطرف کرنے سے انکار کیا۔۔۔ یہ ان کے سیاسی کردار کی مضبوطی تھی۔ آپ مذہبی انتہا پسندی کے سخت مخالف تھے۔
اس دور میں ایک فوجی عدالت نے جماعت اسلامی کے سربراہ مولانا مودودی کو سزائے موت سنائی جو بعد میں منسوخ کر دی گئی۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply