مان لیجئے کہ تحریک انصاف کو اس دوراہے پر انکے کچھ مشیران یا ایسے ساتھی لے کر آئے جنہوں نے مختلف خواب دکھا کر اداروں سے ٹکراؤ کا عمران خان کو مشورہ دیا تھا یا انھوں نے عمران خان کو شدید ترین مزاحمتی سیاست سے روکا نہیں تھا۔
میں تو عمران خان کے قومی اسمبلی سے استعیفے دینے کے شدید خلاف تھا اس پر میں نے لکھا بھی تھا کہ عمران خان اپنے لئے دروازے بند کر رہے ہیں. میرے کالم آج بھی موجود ہیں۔میں پنجاب اور کے پی اسمبلی کی تحلیل کے بھی خلاف تھا کہ اسمبلیاں تحلیل نہ کریں بلکہ اپنے جاری منصوبے تیزی سے مکمل کیجیے ،میری یہ تحاریر بھی ریکارڈ پر موجود ہیں،مگر کیا کیا جائے عمران خان تو عمران ہے جو اپنا سب سے بڑا دشمن بھی ہے۔دوسری جانب یہ بھی معلوم نہیں کون سے نااہل لوگ تھے جنہوں نے عمران خان کو یہ سب مشورے دئیے۔
یاد ہو گا کہ ماضی قریب میں قاسم علی شاہ نے عمران خان سے ملاقات کی تھی اور انھیں بین السطور یہ کہا تھا کہ خان صاحب بھول جاؤ اور معاف کرو والی پالیسی اپناتے ہوئے آگے بڑھیں اور ملک کیلئے کچھ کریں۔ بہت سے دوستوں نے قاسم علی شاہ کی آتما رول دی تھی۔ کیا کیا میمز نہیں بنائے۔میں نے بھی قاسم علی شاہ پر کچھ تنقید کی تھی مگر وہ اسکی اس بات پر تنقید نہیں کی تھی بلکہ قاسم علی شاہ شروع سے ہی میرا فیورٹ کبھی نہیں رہا۔ مجھے یہی بدگمانی ہے کہ وہ نوجوانوں کو راہ راست پر لانے کے بجائے گمراہ کر رہا ہے اور ایسی باتیں کرتا ہے کہ انسان کو تخیلاتی دنیا میں لیجاتا ہے اور زمین سے اٹھا کر گھوڑے پر سوار کر دیتا ہے۔چند ہی گھنٹوں بعد جب اس کا سامع حقیقی زندگی میں واپس لوٹتا ہے تو گھوڑا تو دور کی بات اسکے پاؤں میں اپنا جوتا تک نہیں ہوتا، مگر میں قاسم علی شاہ کی جانب سے دئیے گئے بین السطور پیغام کو اچھی طرح سمجھتا ہوں اس نے عمران خان کو ایک صائب مشورہ دیا تھا کہ آپ” میں نہ مانوں “کی رٹ چھوڑ کر ڈائیلاگ کی بات کیجئے اداروں سے مت الجھیں سیاست کیجئے یہ تُو تُو میں میں کے بجائے خود کو اقتدار میں لا کر ملک کی خدمت کیجئے۔ ملک کا حشر نشر ہو چکا اب ماضی کے بجائے حال میں آئیں اور مستقبل پر فوکس کیجئے۔ آپ جو چور ڈاکو ڈاکو کی رٹ لگاتے ہیں اسے چھوڑ کر ڈائیلاگ کی میز پر بیٹھ کر ملک کو بحرانوں سے نکالیں۔
عمران خان پرویز الہی کو پنجاب کا ڈاکو کہتے تھے جب اس سے بات ہو سکتی ہے بلکہ نہ صرف بات ہوتی ہے اسے سپیکر اور بعد ازاں اپنی جماعت کا صدر بھی بنایا جا سکتا ہے تو نواز و زرداری سے بات کیوں نہیں ہو سکتی؟ ایک وقت میں جس کو عمران خان چپڑاسی رکھنے پر تیار نہ تھے اسے اپنے دور اقتدار میں اہم وزارت پر رکھا گیا۔ جب یہ سب کچھ کیا جا سکتا ہے تو پیپلز پارٹی اور نواز شریف سے بات کیوں نہیں ہو سکتی؟

آج تاریخ یہی ثابت کر رہی ہے اور تحریک انصاف کو اس دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے کہ تحریک انصاف ایک طرح سے اپنی بقا کی اعصاب شکن جنگ لڑ رہی ہے اور اسکے پاس دو راستے ہیں ایک پرخار راستہ ڈائیلاگ کی طرف جاتا ہے جبکہ دوسرا راستہ گہری کھائی کی جانب جا رہا ہے ان میں سے ڈائیلاگ کے راستے کا انتخاب عمران خان نے اب کیا ہے جبکہ اب اس راستے میں کہکشاں اور پہاڑ ہیں جس راستے پر چلنے کیلئے چند ماہ پہلے عمران خان کے واسطے قالین بچھائے گئے تھے کہ عمران خان اس پر قدم رنجہ فرما کر کسی طرح ڈائیلاگ کی جانب بڑھیں۔ذہن میں رکھیں کہ اب ڈائیلاگ والا کام مشکل بھی ہے اور پُرخار بھی۔پاؤں زخمی بھی ہونگے اور چھلنی بھی۔ بڑا ظرف لے کر حوصلے سے اور سنبھل کر جانا ہو گا کہ اب بہت کچھ گنوا کر جا رہے ہیں۔ تلخ حقیقت ہے کہ اب وہ پہلے جیسی طمطراق اور شان باقی نہیں رہی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں