بِگ بینگ وائیٹ ہول کا نتیجہ ہے؟-محمد شاہزیب صدیقی

ایسا نہیں تھا کہ سب سے پہلے نیوٹن نے ہی سیب کو گرتے دیکھا بلکہ وہ پہلا انسان تھا جسے سیب کو گرتا دیکھ کر اِس خیال نے بےچین کیا کہ چاند سیب کی طرح زمین پر کیوں نہیں گرتا، یہ ایسے ہی ہے جیسے دوربین گیلیلیو سے پہلے بھی موجود تھی مگر تب تک دوربین سے جاسوسی کے امور ہی انجام دئیے جاتے تھے، گیلیلیو وہ پہلا انسان تھا جس نے اس جاسوس آلے کو دور دراز کائناتی مُحلّوں میں جھانکنے کے لئے استعمال کیا۔ بہرحال نیوٹن نے چاند والے سوال کا جواب ایسے ڈھونڈا کہ اگر ہم کسی گیند کو آسمان کی جانب پھینکتے ہیں تو وہ زمین پر واپس آجائے گی، زیادہ رفتار سے پھینکیں گے تو زیادہ اونچائی پر جاکر واپس آجائے گی، اگر ہم رفتار بڑھاتے جائیں تو ایک مخصوص رفتار حاصل کرلینے کے بعد گیند واپس نہیں آئے گی بلکہ زمین کے مدار میں تیرنا شروع ہوجائے گی جیسے چاند زمین کے مدار میں تیر رہا ہے، یعنی آپ کو زمین کے مدار میں پہنچنے کے لئے مخصوص رفتار چاہیے ہوتی ہے۔ عرصہ دراز تک نیوٹن اور کیپلر کے قوانین کو اجرام فلکی کے مدار جاننے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا لیکن پھر 18ویں صدی میں جان مشل نے عجیب سوال کیا، اس نے کہا کہ اگر زمین کی کشش ثقل بڑھا دی جائے تو زمین کے مدار میں پہنچنے کے لئے ہمیں زیادہ رفتار چاہیے ہوگی، اسی طرح اگر کسی ستارے کی کشش ثقل بہت زیادہ بڑھ جائے تو اس کی سطح سے ہمیں مدار میں پہنچنے کے لئے روشنی سے بھی زیادہ رفتار چاہیے ہوگی۔ ایسے موقع پر کیا ہوگا؟ یقیناً اس کا مطلب تھا کہ اس ستارے کی سطح پر بننے والی روشنی بلند ہوکر خلاء میں پہنچنے کی بجائے اس کے مدار میں ہی ٹریپ ہوجائے گی، جس وجہ سے وہ ستارہ ہمیں کالے رنگ کا دکھائی دے گا، یہ پہلی بار تھا جب انسانیت بلیک ہول کے کانسپٹ سے واقف ہوئی۔ جان مشل نے اس عجیب و غریب ستارے کو ڈارک سٹارز کہا۔ بلیک ہول کا کانسپٹ اتنا عجیب تھا کہ آئن سٹائن نے 1939ء میں باقاعدہ ایک پیپر پبلش کرکے ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ ہمارے کائناتی قوانین کے تحت بلیک ہول بننا ممکن نہیں لیکن بعدازاں کچھ دیگر سائنسدانوں نے پیپرز پبلش کرکے ثابت کیا کہ کائنات میں بلیک ہولز کی موجودگی بالکل ممکن ہیں اور آج سے کچھ سال پہلے ہمیں اس کے باقاعدہ تصویری ثبوت بھی مل گئے۔
پہلے پہل خیال کیا جاتا رہا کہ بلیک ہولز کے مرکز میں سینگولرٹی ہوتی ہوگی لیکن 1963ء میں ایک پیپر پبلش ہوا، جس کے تحت روئے کیر نامی سائنسدان نے آئن سٹائن کی مساواتوں کے ذریعے معلوم کیا کہ اگر کوئی بلیک ہول گھوم رہا ہو تو اس کے مرکز میں سینگولرٹی نہیں ہوگی کیونکہ جیسے جیسے ہم مرکز کے نزدیک جاتے جائیں گے وہاں سینٹری فیوگل فورس اتنی زیادہ ہوجائے گی کہ مادے مرکز پر جمع کرنے کی بجائے ایک مدار میں گھمانا شروع ہوجائے گی، یعنی اگر ہم بلیک ہول کے مرکز میں جھانکیں تو وہاں مادہ کسی خالی جگہ کے گرد گھوم رہا ہوگا یہیں سے ورم ہول کا کانسپٹ پیدا ہوا کہ ممکن ہے کہ وہ خالی جگہ کوئی ٹنل/سُرنگ ہو اور اس میں جانے والا مادہ کسی دوسری کائنات یا مقام سے باہر نکل جاتا ہو، سائنسدانوں نے اِس دوسرے مقام کو وائیٹ ہول کا نام دیا گیا۔ جیسے بلیک ہول مادہ کھا رہا ہوتا ہے تو وائیٹ ہول سے ہر وقت مادے کا سیلاب اُمڈ رہا ہوتا ہے لیکن یہاں مسئلہ یہ تھا کہ بلیک ہول تو ہمیں کائنات میں مل گئے ہیں لیکن آج تک کوئی وائیٹ ہول نہیں مل پایا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وائیٹ ہول ہمارے سامنے ہی ہو اور ہمیں اس کا پتہ ہی نہ ہو، جیسے کچھ طبیعات دان سمجھتے ہیں کہ بگ بینگ واقعہ کسی وائیٹ ہول کا ہی نتیجہ ہوسکتا  ہے،جس سے نکلنے والے مادے سے ہماری پوری کائنات بنی، اس متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply