• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خدارا ! سیاسی دشمنی میں عورت کا ارتقائی سفر نہ روکیے/محمد وقاص رشید

خدارا ! سیاسی دشمنی میں عورت کا ارتقائی سفر نہ روکیے/محمد وقاص رشید

رسالت ماب ص جب تشریف لائے تو عورت کے حقوق کا عالم اس سے زیادہ کس بات سے واضح ہوتا ہے کہ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے جیسے بھیانک ترین انسانی جرائم رونما ہوتے تھے۔ اور اسلام کے عورت کو تعظیم دینے کی اس سے زیادہ کوئی واضح تر مثال کیا ہو گی کہ “یاایھاکمدثر” والی کائنات کا سب مقدس آسمانی چادر ایک بیٹی کے لیے زمین پر بچھائی گئی۔ میں لکھا کرتا ہوں کہ آج ہر بیٹی اپنے حقوق اس آسمانی چادر پر لگنے والے خاک کے ذروں کا خراج کی صورت پاتی ہے۔
خطبہِ حجتہ الوداع جسے انسانی حقوق کی ایک قرارداد کہا جاتا ہے اس میں کائنات کی واحد پہنچی ہوئی بڑی سرکار نے ایک باکمال بات کہی “لوگو ! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو “۔
جسطرح رحلتِ رسالت ماب ص کے بعد دینی فہم جب زمانوں کی تفہیمات ، تعبیرات اور تشریحات کی نذر ہوتا ہوا برصغیر میں پہنچا Indianuzatio of Islam کے نتیجے میں سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ یہاں عورت پہلے سے ایک پسا ہوا طبقہ تھی۔ میری طالبعلمانہ نگاہ میں مردانہ برتری کے اس سماج میں جہاں بہت ساری دوسری تشریحات اسلام کے بنیادی فلسفے سے میلان رکھتی محسوس نہیں ہوتیں وہیں عورت کے متعلق مجموعی مزہبی تفہیم میری نگاہ میں نظر ثانی کیے جانے کی حاجت مند ہے۔ میں خدا کی تخلیق کی بنیاد پر کسی سماجی درجہ بندی کا قائل نہیں۔ سوال یہ ہے کہ رنگ ، نسل ، علاقے کی بنیاد پر وہ فوقیت کے معیار قابلِ فہم انداز میں اسی لیے مرتب نہیں کرتا کہ یہ اسکا فیصلہ ہے تو جنس کی بنیاد پر کیونکر۔۔۔یہ بھی تو اسی کا فیصلہ ہے۔
پاکستان بد قسمتی سے اسی مزہبی تفہیم کے زیرِ اثر اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا۔ عظیم انسانی ذہن جناب ابوالکلام آزاد نے جن امور کی طرف بڑی مدلل نشاندہی کی تھی ان پر جنابِ جناح نے پاکستان بننے کے بعد تقاریر کی حد تو سدباب کیا لیکن شاید عملی اقدامات کی انہیں مہلت نہ مل سکی۔ کاش وہ ان اقدامات کو انسانی حیات کی مہلت پر چھوڑتے ہی نہ۔
ان تقاریر میں قائد اعظم نے پاکستان کو ایک قومی ریاست قرار دیتے ہوئے عورتوں کے قومی ترقی و خوشحالی کے لیے مردوں کے شانہ بشانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
مگر ان عملی اقدامات کے نہ ہونے سے پاکستان آغاز ہی سے ایک قومی ریاست بننے کی بجائے ایک مزہبی دفاعی ریاست بننے کی ڈگر پر گامزن ہو گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ جس خاتون کو مادرِ ملت کا خطاب دیا گیا قائد اعظم کی وہ بہن آخر کن حالات سے دوچار ہوئیں نوکِ قلم سے کوئی کب تلک زخم کریدے۔
اسکے بعد رہی سہی کسر مردِ مومن مردِ حق نے نکال دی جس نے اپنے اور امریکہ دونوں کے اقتدار کے دوام کے لیے افسوس کہ مزہب کو بطورِ رشوت استعمال کیا اور پاکستان کی ایک ترقی پسند جماعت کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھا دیا۔
سلام ہے بے نظیر بھٹو جیسی بیٹی کو جس نے اپنے والد کی جگہ کھڑے ہو کر سماج میں توازن کی کچھ رمق کی آس دلوائی۔ اسکے بعد پرویز مشرف کے دور میں خواتین کی پاکستانی سیاست میں عملداری کچھ بڑھی۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت ایک بہت بڑا سانحہ تھی۔ یہ ایک حکمران سیاستدان ہی نہیں ایک باہمت ، باشعور ، ترقی پسند عورت کی موت تھی۔
عمران خان صاحب کا سیاسی افق پر ظہور میری نگاہ میں جو سب سے مثبت قدر سامنے لے کر آیا وہ ہر طبقے کی خواتین کا سیاست میں کردار تھا۔ پاکستان میں خان صاحب کی سیاسی ظہور پزیری اور سوشل میڈیا کی ترقی ایک ہی دور میں ہوئی انکا آپس میں گہرا تعلق قابلِ فہم ہے۔ ایک عام ووٹر سے صف اول کی رہنماؤں تک پاکستان تحریکِ انصاف میں خواتین کا سیاسی کردار اور شرکت ایک ترقی پسند متوازن سماج کے لیے بہت خوش آئیند تھا۔ اسی لیے میرے جیسے سماجی طالبعلم کے لیے خان صاحب کا بچوں سے ریپ کے سوال پر بطورِ وزیراعظم اسکی وجہ عورتوں کی بے پردگی کو قرار دینا سمجھ سے بالا تر تھا۔
اسکے بعد جب نوازشریف صاحب کو پانامہ جمع اقامہ اسکینڈل میں گھر بھیجا گیا تو مریم نواز صاحبہ نے “ووٹ کو عزت دو” کی تحریک میں بڑے بہترین انداز میں قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
آج جب پاکستان تحریکِ انصاف “Wall of Shame ” کے ساتھ لگا دی گئی تو میرے جیسوں کے لیے جمہوریت ، قومی ریاست ، آئین و قانون سے بھی زیادہ حساس نوعیت کا معاملہ مندرجہ بالا تمہید کی روشنی میں عورتوں سے روا رکھا جانے والا رویہ ہے۔
مرد پولیس والوں کے ہراساں کرتے انداز میں گرفتار کرنے سے لے کر آج مبینہ طور پر جیلوں میں بد سلوکی کی خبریں (خدا کرے غلط ہوں) اس صورت میں زیادہ تشویشناک ہیں کہ حکمران جماعت کی سربراہ نا صرف خاتون ہیں بلکہ وہ خاتون جنہوں نے خود اپنے ساتھ کراچی ہوٹل میں چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے اپنے شوہرِ نامدار کی گرفتاری کی شکایت کی تھی۔
9 مئی کے واقعات یقینی طور پر قابلِ مزمت ہیں۔ اس طرزِ فکر وعمل کی مزمت کے لیے کسی جبر کی نہیں بنیادی انسانی فراست کی ضرورت ہے۔ لیکن جرم کی پاداش میں اس سے زیادہ قبیح انسانیت سوز جرائم کی اعانت بھلا کیسے ممکن ہے۔ انکی مزمت بھی اسی اصول پر کی جانی چاہیے بلکہ زیادہ شدت کے ساتھ کہ قانون توڑنے والوں اور نافذ کرنے والوں کا وطیرہ ایک سا کیسے ہو سکتا ہے۔
عمران خان صاحب کی مخالفت سیاست کی حد تک کیجیے کہ اس انتقام کی آگ کا ایندھن بننا شاید ہمارا بخت ہے لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں عورتوں کی ہراسانی کا عالم یہ ہے کہ سانحہ موٹر وے پر پوری قوم تڑپ اٹھی تھی اور سی سی پی او لاہور نے کہا تھا یہ عورت وہاں لینے کیا گئی تھی۔ صنم جاوید صاحبہ کے والد صاحب نے جج صاحب کے متعلق بھی اسی طرح کا جملہ بولنے کا الزام لگایا۔ کہ یہ لبرٹی میں لینے کیا گئی تھی۔
ایک بیٹی کے باپ کی یہ التجا ہے جو اس سماج میں اس ملت کی بیٹیوں کو اعتماد سے ہر میدان میں اپنا کردار ادا کرتے دیکھنے کا شدید خواہش مند ہے ۔ خدارا ایک سیاسی جماعت کی دشمنی میں پاکستانی عورت کے اس ارتقائی سفر کو نہ روکیے جس میں مندرجہ بالا سیاسی قوتوں کے علاوہ پاکستان کی سب سے بڑی قوت بھی “صنفِ آہن” کے ساتھ شامل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پسِ تحریر ! صنم جاوید صاحبہ کی نہ گفتگو سے اتفاق ہے نہ سیاسی فکر سے اور 9 مئی کی جارحیت تو قطعی نہیں۔ لیکن فیس بک پوسٹ پر ایک شخص نے کہا یہ تو ایلیٹ کلاس ہے۔ افسوس ! یہ جملہ اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس سوچ کے تحت پاکستان کے پارکوں میں بیرون ملک سیاح خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ ایلیٹ چھوڑیے کسی جسم فروش خاتون کی بھی ہراسانی اتنی ہی قابل ِ مزمت ہے جتنی کسی بھی اور خاتون کی۔ یہ ہے اصول

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply