• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عنوان : عبد الماجد دریا آبادی کی علمی خدمات اور تفسیر کی خصوصیات و امتیازات (قسط اول)۔۔۔عروج ندیم

عنوان : عبد الماجد دریا آبادی کی علمی خدمات اور تفسیر کی خصوصیات و امتیازات (قسط اول)۔۔۔عروج ندیم

تعارف :   

پیدائش: عبد الماجد کی پیدائش ایک معزز، خوشحال اور دین دار قدوائی خاندان میں۱۶مارچ ۱۸۹۲ء کو ہوئی تھی۔

وطن : انکے خاندان کا آبائی تعلق اترپدیش کے ضلع بارہ بنکی میں واقع قصبہ سے تھا۔ یہ قصبہ لکھنؤ اور فیض آباد ریلوے لائن پر فیض آباد اور لکھنؤ کے وسط میں واقع ہے۔ انیسویں صدی کے شروع سے لے کر اب تک اس چھوٹے سے معمولی قصبے کی پہچان عبدالماجددریابادی کی ذات کی وجہ سے ہی قائم رہی اور اس کی شہرت ان کے نام کے توسط سے برصغیر بلکہ دنیا بھر میں ہوئی۔ عبد الماجد دریابادی کی زندگی کے تقریباً ۵۵ برس دریا آباد میں گزرے۔ وہ ١٩٢١ء میں لکھنؤ سے مستقلاً دریا آباد منتقل ہوگئے تھے۔ تاکہ پڑھنے لکھنے کا کام پُر سکون ماحول میں یکسوئی سے کرسکیں۔ لیکن لکھنؤان کی آمدورفت کثرت سے رہتی۔ جہاں ان کے خاندان کا بڑا حصہ مستقل طور پر رہتا تھا۔ لکھنؤ میں ان کا قیام “خاتون منزل ” کی تاریخی عمارت میں رہتا تھا اور لکھنؤ ان کے لیے وطنِ ثانی کی حیثیت رکھتا تھا۔؂1

والدین آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی عبدلقادر تھا، دینی تعلیم مشہور عالم دین مولانا محمد نعیم فرنگی محلی سے حاصل کی تھی اور انہیں سے سلسلہ قادریہ میں بیعت بھی تھے۔ بڑے عابد و زاہد تھے اور ضلع لکھیم پور کھیری میں ڈپٹی کلکٹر تھے2 ؂۔ اخباروں اور رسالوں کے علاوہ معلوماتی اور مذہبی کتابوں کے مطالعہ کا شوق آخر تک رہا اور کچھ نہ کچھ مشغلہ لکھنے لکھانے کا بھی رکھا۔ پنشن لینے کے بعد لکھنؤ کے روزنامہ اودھ اخبار اور گور کھپور کے سہ روزہ ریاض الاخبار میں، اور پھر اسی کے جانشین ہفتہ وار مشرق میں مذہبی و نیم مذہبی عنوانات پر برابر لکھتے رہے۔ امتحان وکالت پاس تھے لیکن کام اس سند سے کبھی نہ لیا3 ؂۔  ١٩١۲ء میں مع اہل و عیال حج بیت اللہ کے لئے روانہ ہوئے اور ١۴ نومبر ١٩١٢ء کی شب میں منٰی میں ہیضہ میں مبتلا ہوئے۔ اونٹ پر ڈال کر منٰی سے مکہ مکرمہ لائے گئے، جہاں آپ کا انتقال ہوا؂4۔    مولانا عبدالماجد دریابادی رحمۃ اللہ کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی نصیرالنساء تھا، جو ایک پردہ نشین خاتون تھیں، پردے کا بے حد اہتمام تھا، مردوں ہی سے نہیں، اجنبی عورتوں سے بھی ملنا پسند نہیں کرتی تھی۔ عبادات کی بے حد پابند تھیں۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ سے خصوصی عقیدت رکھتی تھی۔ ١٣ اپریل ١٩۴١ء میں فیض آباد میں رحلت فرما گئیں اور دریا آباد میں آسودہ راحت ہوئیں5 ؂
تعلیم و تربیت :   

مولانا عبدالماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک برگزیدہ علمی و مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس گھرانے کی مذہبی فضا میں ابتدائی تعلیم و تربیت حاصل کی اور پھر دستورِ زمانہ کے مطابق مکتب سے مدرسے تک کی منزلیں بھی فرمائیں۔ گھر ہی پر قرآن مجید پڑھا۔  اور یہیں فارسی کی گلستاں و بوستاں والی وہ تعلیم حاصل کی جو ہر شریف مسلم گھرانے میں بچوں کو دی جاتی تھی اور جس کے توسط سے ابتدائی عمر میں اخلاق و کردار کو سنوارنے اور شریفانہ طور پر زندگی بسر کرنے کی ٹریننگ دی جاتی تھی۔ پھر اردو تعلیم بھی مولوی محمد اسماعیل میرٹھی کی ریڈروں کے ذریعے حاصل کی۔ کمسنی کے زمانے میں گلستان بوستان ختم کرنے کے بعد سکندر نامہ اور حضرت امام غزالی کی کتاب “کیمیائے سعادت” کی ختم کر لی؂6

ابتدائی خانگی تعلیم میں ابتدائی عربی زبان بھی سیکھ لی تھی، اس کے بعد اسکول میں داخل ہوئے، ابتدائی عربی کے استادوں میں حکیم محمد ذکی مرحوم کا نام سر فہرست ہے؂7۔

ذہانت کے ساتھ ساتھ شوقِ عالم و تربیت قدرتی طور پر ودیعت ہوئے تھے۔ اسی لیے مدرسے کے تمام درجوں میں بڑی آسانی کے ساتھ نمایاں کامیابیاں حاصل کیں اور ١٩٠٧ء میں دسویں جماعت میں داخل ہوگئے۔ حساب الجبر اور جمیٹری میں کمزور تھے۔ مگر اسکول کے ہیڈ ماسٹر بابو گھمنڈی لال کی دانشمندی اور استادانہ شفقت کی بنا پر ان مضامین میں بھی اطمینان بخش کامیابی حاصل کی اور دسویں جماعت کا امتحان سیکنڈ ڈویزن میں پاس کر کے اسکول کی تعلیم ختم کرلی؂8۔

پڑھنے بلکہ پڑھ لینے کا شوق خدا جانے کہاں سے پھٹ پڑا تھا۔ کتاب، رسالہ، اخبار، اشتہار، غرض جو چیز بھی چھپی ہوئی نظر کے سامنے پڑھ گئی، پھر ممکن نہ تھا کہ بے پڑھی رہ جائے۔  سمجھ میں پوری ادھوری جتنی بھی آئے اس سے کوئی بحث نہ تھی، پڑھ ڈالنا جیسے فرض تھا؂9۔  مولانا عبدالماجد دریابادی رحمۃ اللہ جولائی ١٩٠٨ء میں     کیننگ کالج لکھنؤ میں داخل ہوئے۔ جو آگے چل کر یہی کالج لکھنؤ یونیورسٹی میں تبدیل ہوا۔ اختیاری مضامین میں منطق، تاریخ اور عربی تھے۔ انگریزی لازمی مضمون تھا۔ انٹرمیڈیٹ کا انتخاب درجہ دوم میں پاس کیا۔ پھر مولانا عبدالماجد دریابادی رحمۃ اللہ نے جولائی ١٩١٠ء میں اسی کیننگ کالج میں بی اے کے سال اول میں داخلہ لیا۔ مضامین انگلش ٹیکسٹ، جنرل انگلش، فلسفہ اور عربی تھے۔ پہلے دو مضامین لازمی تھے۔ فلسفہ سے آپ کا قلبی تعلق تھا، جس کی تین شاخیں نصاب میں شامل تھیں۔ الہیات،  اخلاقیات اور نفسیات۔ ان تینوں میں نفسیات سے آپ کا خصوصی تعلق تھا۔ اسی زمانے کے نصاب عربی زبان وادب کے  نصاب میں انتخابات ابن خلدون، مقامات حریری، مقامات بدیع اور حصہ نظم میں متنبی اور ابو تمام کا کلام شامل تھا؂10۔

لکھنؤ کی لائبریریوں سے دل کھول کر استفادہ کیا۔ خود اپنے کالج کی لائبریری سے انہوں نے اس قدر استفادہ کیا کہ کالج کے انگریز پرنسپل نے تکمیل تعلیم کے بعد جو سرٹیفکیٹ انہیں دیا اس میں لکھا کہ “ان کے علم کے مطابق اس لائبریری سے کسی دوسرے نے اس قدر فائدہ نہیں اٹھایا جتنا عبدالماجد نے۔”؂11

بی اے کا امتحان بھی درجہ دوم میں پاس کیا۔ بعد ازاں ماجد نے ایم اے فلسفہ کے لئے ایم اے او کالج علی گڑھ میں داخلہ لیا۔ سال اول کے امتحان میں بدقسمتی سے ناکام رہے پھر سینٹ اسٹیفنز کالج میں اسی مضمون میں داخلہ لیا مگر نومبر ١٩١٢ء میں مکہ معظمہ میں اپنے والد کے اچانک انتقال کے بعد سلسلہ تعلیم منقطع کر دینا پڑا کیونکہ خاندان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ان کے والد ہی تھے؂12 ۔

شادی اور اولاد :

عبدالماجد دریآبادی  کی شادی اس وقت کے رسم و رواج کے خلاف انکی اپنی مرضی سے جون ١٩١٦ء میں خاندان میں ہی شیخ یوسف الزماں رئیس باندہ کی چھوٹی صاحب زادی عفت النساء کے ساتھ ہوئی۔ انکی شریک حیات نہایت ملنسار،  خوش مزاج، سلیقہ مند اور بردبار خاتون تھیں۔ انکی ازدواجی زندگی بحیثیت مجموعی خوشگوار گزری۔ اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں خود انہوں نے لکھا ہے کہ ” یہ اللّه کا احسان عظیم ہے کہ فی الجملہ اب تک جیسی گذری قبل صد شکر اور بہتوں کے لئے قابل رشک۔ ”

انکی بیگم کا انتقال ١٩٦٩ء میں ہوا۔  یوں تو عبدالماجد دریاآبادی کے بچے کئی ہوئے لیکن زندہ صرف چار بیٹیاں رہیں اور طبعی عمر کو پہنچی۔  سب سے بڑی کا نام رافت النساء، منجھلی کا نام حمیرا خاتون۔ سنجھلی کا نام زہیرا خاتون اور سب سے چھوٹی کا نام زاہدہ خاتون تھا۔  یہ چاروں بیٹیاں انکے بڑے بڑے بھائی ڈپٹی عبدالمجید کے چاروں صاحبزادوں حکیم عبدالقوی عرف آفتاب،  حکیم احمد قدوائی، ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی اور عبدالعلیم قدوائی کے عقد نکاح میں آئیں۔  سب سے بڑی اور سب سے چھوٹی صاحبزادی کا ١٩٩٣ء اور ١٩٩٦ء میں انتقال ہو چکا ہے؂13۔

شخصیت / اخلاق و کردار:

مولانا عبد الماجد طالب علمی کے زمانے ہی سے ایک دل پذیر شخصیت کے حامل تھے۔ وہ شروع سے بہت اچھے اور محنتی طالب علم تھے۔ انہیں قدرتی طور پر علم حاصل کرنے کا شوق تھا اور اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کی سخت لگن تھی۔ انہیں کتب بینی کا بےحد شوق  تھا اور تفتیش، کھوج اور جستجو کا فطری ذوق رکھتے تھے۔ نہایت خوشنما باوقار اور سنجیدہ شخصیت کے حامل تھے۔ وہ زندگی کے ہر دور میں اپنے خیالات اور جذبات کا نہایت جرات مندانہ اظہار کرتے رہے ہیں۔ آپ دِینوی اور دُنیوی دونوں علوم کے ماہر تھے۔ آپ ہی وہ تنہا شخص تھے جنہیں اکابرین اسلام عزت و عظمت دیتے تھے۔ ان کا اللہ پر بھروسہ، توقل اور نڈر پن اپنی مثال آپ ہے۔ آپ صحابہ کرام کے جیتے جاگتے نمومہ تھے؂14۔            الماجد دریابادی کی شخصیت کی نمایاں ترین خصوصیت ترتیب و تنظیم اوقات کا انضباط اور اصولوں کا پاس و لحاظ تھے۔ انہوں نے اپنے لیے ایک نظام اوقات مرتب کر لیا تھا اور زندگی بھر وہ اس پر سختی سے عمل پیرا رہے۔ وقت کی  پابندی کا یہ عالم تھا کہ نماز، عبادت و ریاضت اور علمی و ادبی کاموں ہی نہیں بلکہ زنانہ مکان میں آنے، لوگوں سے ملنے، کھانے،  پینے غرض ہر بات کے لئے وقت مقرر تھا جس کے خلاف عمل کرتے کسی نے انہیں کم ہی دیکھا ہوگا۔ عبدالماجد دریابادی کے مزاج میں فطری طور پر غصہ تھا گو اس میں وقت کے ساتھ کمی آگئی تھی اور یہ ایک درجہ میں مولانا اشرف علی تھانوی کے فیضِ صحبت کا نتیجہ تھا۔ عبد الماجد دریابادی نہ تو غیبت کرتے تھے اور نہ کوئی ایسی بات سننا پسند کرتے تھے جس میں غیبت کا  شائبہ تک ہو۔ وہ ایسی بات آگے بڑھنے ہی سے روک دیتے تھے۔ وہ اچھے کھانے کے شوقین تھے۔  ان کو اچھے اشعار سننے کے ساتھ ساتھ اچھے گانے کا بھی شوق تھا۔ وہ تصویر کھچوانے اور آئینہ دیکھنے سے حتی الامکان احتراز کرتے تھے۔ صاف گوئی زندگی بھر عبدالماجد دریابادی کا شعار رہا۔ عبدالماجد دریا آبادی کی شخصیت کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ علمی معاملات میں استفسار کرنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتے تھے۔ بچپن ہی سے ان کو پڑھنے اور لکھنے کا بے انتہا شوق تھا۔ معلومات حاصل کرنے کے وہ بے حد حریص تھے۔  عبد الماجد دریا آبادی کی ایک اور اہم خصوصیات وضح داری تھی۔ وہ پرانے تعلقات کا بے حد لحاظ کرتے تھے؂15۔

حضرت مولانا عبدالماجد دریابادی رحمۃ اللہ ان عظیم شخصیتوں میں سے ایک تھے، جنہوں نے ہندوستان کی آزادی سے پہلے مسلمانوں کی ذہنی تشکیل میں نمایاں حصہ لیا، اس کام میں ان کے علم و مطالعے کا خصوصی دخل رہا، جو انہوں نے اپنی طالب علمی کے زمانہ میں اور اس کے بعد خصوصی توجہ و محنت سے کیا، مولانا کی شخصیت ان شخصیتوں میں سے تھی، جنہوں نے اولاً صرف علمی اور ادبی دائرہ کار میں خدمت انجام دینے کو اپنایا تھا، انہوں نے اپنی ادبی و علمی صلاحیتوں سے ذہنوں کی درستگی کا بڑا کام لیا؂16 ۔

ان کا اسلوب خوش سلیقہ ہے۔ ذہن صاف اور نفاست پسند ہے۔ ان کی تشریحات میں تاثر کے ساتھ نفسیاتی عناصر بھی آشکار ہو جاتے ہیں اور یوں وہ فن پارے کے ساتھ مصنف کی دروں بینی میں شامل ہو جاتے ہیں؂17۔

حیات و خدمات :

مولانا رح  اردو کے صاحب طرز ادیب تھے اور بہکے ہوئے اور غلط رجحانات و خیالات پر اردو کی تنقید بھرپور ہوتی تھی۔ اسی کے ساتھ ساتھ مولانا نے علمی مشغولیت  کے معاملہ میں بھی ایک نمونہ قائم کر دیا تھا اور اس طرح کا طرز اختیار کیا تھا جس میں گویا ان کا ایک منٹ بھی ضائع نہیں ہوتا تھا۔ اس طریقہ سے مولانا عالم بھی تھے، ادیب بھی تھے، ناقد بھی تھے، مصلح بھی تھے اور ممتاز اہل قلم بھی تھے۔

ایک بلند پایہ صحافی :

عبدالماجد دریا آبادی کی صحافتی زندگی کا باقائدہ آغازبچپن سے ہی ہو گیا تھا۔ انہوں نے بارہ برس کی عمر میں فرضی نام سے اودھ اخبار میں اپنا مضمون شائع کرایا۔ بقول ان کے پہلے مضمون کا نکلنا کہ “جھجک مٹ گئی اور بھاؤ کھل گیا”۔ پہلے اپنا نام چھپاتے رہے پھر اپنا نام چھپوانے لگے۔ 1919ء میں معارف سے باضابطہ تعلق قائم ہوگیا۔ مولانا محمد علی کے روزنامہ ہمدرد سے بھی شروع سے ہی تعلق قائم رہا؂18۔

جنوری 1925ء میں ماجد نے اپنی صحافت کا باقائدہ آغاز سچ کے اجرا سے کیا۔ سچ 1925ء سے 1933ء تک باقائدہ شائع ہوتا رہا۔ سچ کے دوسرے ہی شمارے سے ماجد نے اپنے مستقل کالم سچی باتیں کا آغاز کیا۔ جس نے برعظیم میں بے حد مقبولیت حاصل کی اور جو بعد ازاں انکے ہفت روزوں صدق اور صدق جدید میں بھی بڑی آن بان سے شائع ہوتا رہا اور برعظیم کے کئ پرچوں میں وہاں سے برابر نقل کیا جاتا رہا؂19۔

انہوں نے اردو صحافت میں بڑی ہی درخشاں اور تاب ناک روایتیں قائم کیں اور بہ حیثیت صاحب طرز صحافی انہوں نے ایک با اصول ممتاز ترین صحافی ہونے کا لوہا منوالیا۔ انکا ایڈیٹوریل سچی باتوں کے نام سے ہوتا تھا اور مختلف قسم کے عنوانوت پر ہوتا ہوتا تھا؂20۔   عبدالماجد جس دور میں صحافت کے میدان میں داخل ہوئے تو ان کے معاصر صحافیوں میں ایک سے بڑھ کر ایک حضرات موجود تھے۔ مثال کے طور پر مولانا محمد علی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان، حسرت موہانی، مہاشے کرشن، عبدالمجید سالک، منشی دیا نرائن نگم جیسے نامور اور باکمال صحافی اپنا سکہ جمایا ہوئے تھے۔ عبدالماجد نے ان سب سے الگ اپنی طرز نکالی۔  عبدالماجد نے اپنا صحافی نصب العین اخبار کی پیشانی پر کندہ کردیا تھا۔ یہ نصب العین قرآن کی آیت (ترجمہ) : اور وہ جو سچی بات لے کر آیا اور جس نے اس کو سچ مانا وہی پرہیزگار ہیں سے اخذ کیا گیا تھا۔ وہ عمر بھر اسی پر عمل پیرا رہے۔ اپنے ہفتہ وار میں صرف وہ چھاپتے تھے جسے وہ سچ سمجھتے تھے؂21۔

صحافت میں سرخی جمانے کی اہمیت روشن ہے۔ عبدالماجد دریا بادی اس فن میں زبردست مہارت رکھتے تھے۔ ان کی سرخیاں اس قدر جاذب توجہ ہوتی تھی کہ قاری کی توجہ فور اپنی طرف کھینچ لیتی تھیں۔  مثال کے طور پر ڈاکٹر ذاکر حسین کی ایک مختصر کتاب پر انہوں نے سرخی دی ” ذکر حسین ذاکر حسین کی زبان سے”۔ چند اور سرخیوں کی مثالیں ملاحظہ ہوں “سارے گلے تمام ہوئے ایک جواب میں”، “دانا کی نادانی “، “مظلوم کا ظلم” ، “بلندیوں کی پستیاں” ؂22۔

اس کے علاوہ علمی کمالات اور دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اسلام کی شان امتیازی کا تعارف کرانے اور عقیدہ شریعت کے امتزاج و توازن کا جائزہ لینے میں مولانا کا درجہ بہت بلند ہے، مولانا نے زبان و قلم کی طاقت کا استعمال کرنے اور اس کے ذریعے مکارم میں اخلاق کا پیغام اہل دنیا کو پہنچانے میں بڑی احتیاط اور دقت نظر سے کام لیا ہے؂23۔مولانا کی زندگی کی خصوصیات و کمالات میں، ان کی اسلام اور رسول صلی الله علیه وسلم سے شدید وابستگی، اسلامی شریعت پر گہری نظر اور اس کے لئے غیرت و حمیت اور زندگی سے اس کے تعلق کو اہم ترین خصوصیات کہنا زیادہ مناسب ہوگا؂24۔

 بحیثیت مضمون نگار :

بدالماجد کی مضمون نگاری کا آغاز ١٩٠۴ء میں ہوا۔  اسکول کے نویں درجے میں تھے کہ سونو کلیز کے ایک مختصر ڈرامے Antigone کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کر ڈالا۔ کیننگ کالج کے زمانے طالبعلمی میں انہوں نے دو مفصل علمی مقالے “محمود غزنوی” اور “غذائے انسانی” لکھے۔ اول الذکر میں ماجد نے محمود غزنوی پر بخل کے الزامات کی نفی کی تھی اور ثانی الذکر میں دلائل سے ثابت کیا تھا کہ انسان کی قدرتی غذا سے نباتات ہی نہیں گوشت بھی ہے۔ یہ دونوں مقالہ کتابی شکل میں ١٩١٠ء میں شائع ہوئے جب ماجد کی عمر صرف ١٨ سال تھی؂25۔

یکم ستمبر ١٩١٧ء کو عبدالماجد دارالترجمہ حیدرآباد سے منسلک ہوگئے۔ یہاں ان کا تقرر فلسفہ و منطق کے مترجم کے طور پر ہوا۔ مگر 11 ماہ کی ملازمت کے بعد وہاں سے مستعفی ہوکر لکھنؤ چلے آئے۔ اس کے بعد انہوں نے “معارف ” کے لیے معاوضہ پر لکھنا شروع کیا۔ “الناظر” سے ماجد کا تعلق اگرچہ ان کے ابتدائی عہدِ تصنیف ہی میں قائم ہو گیا تھا مگر ١٩٢٢ء میں انہوں نے اس میں “فیہ ما فیہ” کے زیرعنوان شذرات لکھنے شروع کیے۔ یہ شذرات انہوں نے اپنے نام کے بجائے ایک قلمی نام “چلپی” کے زیر نقاب لکھے؂26۔

وہ اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ پوری طرح تو یاد نہیں کے انگریزی مراسلہ نگاری کی ابتدا کس سِن میں اور کس سنہ میں ہوئی۔ اغلب یہ ہے کہ عمر کے چودھویں پندرویں سال یعنی ٠٦ء یا ٠٧ء سے شروع ہوئی ہو۔ جب نویں درجے کا طالب علم تھا۔ پہلا مراسلہ یقینا کسی جلسے کی کارروائی سے متعلق لکھا ہوگا۔ کالج میں آکر پہلا مراسلہ ریلوے کی شکایت میں لکھا۔ اپنے ایک ہندو ساتھی کے فرضی نام سے اور بعد کو اپنی اس جعلسازی پر مدتوں نادم و پشیمان رہا۔ ١٩١١ء تھا اور میں بی اے کے پہلے سال کا طالب علم کہ آل انڈیا طبی اینڈ ویدک کانفرنس (دہلی) کا اجلاس لکھنو میں ہونے والا تھا۔ میں نے طِبّ یونانی کی اہمیت اور کانفرنس کی تائید میں خاصہ لمبا مضمون ان سائیکلو پیڈیا برٹانیکا وغیرہ کی مدد سے تیار کیا۔ خوب واہ واہ ہوئی۔ اب مضمون نگاری اپنے نام سے کرنے لگا تھا، چھوٹے بڑے اور بھی کچھ مراسلے اور مضمون لکھے۔ جون ١٩١٢ء میں بی اے کیا، اور بمبئی کے معیاری ماہنامہ ایسٹ اینڈ ویسٹ کے اکتوبر نمبر میں ایک مضمون گوشت خوری کی سائنسی حمایت میں لکھا۔ برابر کئی سال تک انگریزی مضمون نگاری کرتا رہا، مختلف اخباروں اور رسالوں میں، مثلاً سہ روزہ ایڈووکیٹ (لکھنؤ) اور مسلم پیرلڈ (الہ آباد)، روزنامہ لیڈر (الہ آباد ) بمبئی کرانیکل (بمبئی) اور ماہنامہ ویدک میگزین (دہرہ دون) انڈین ریویو (مدارس)، تھیا سوفسٹ (مدارس) اور ہفتہ وار کامن ویل (مدارس)میں۔  عنوان بھی فلسفہ نفسیات سے لیکر سیاسیات اور ڈرامے تک ہوا کرتے تھے۔ مثلاً:

1) The german conception of absolute.

2) Mill vs Spencer: Test of truth.

3) Psychological suicide of the KAISER.

4) Prof MCDAYGALL on pleasure and pain.

5) Examination system examined.

6) Foundations of peace.27

بحیثیت مکتوب نگار :

خطوط انسانی شخصیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ خطوط کے ادب کو اہم اور مفید حصہ تسلیم کیا گیا ہے۔ عبدالماجد کا شمار ان مکتوب نگاروں میں کیا جاسکتا ہے جنہوں نے خطوط کے ذریعے گفتگو کا نعم البدل مہیا کیا اور تحریر و بات چیت کے فاصلے کم کئے۔ ملنے ملانے کے سلسلے میں وہ جتنے محتاط تھے، خط و کتابت کے سلسلے میں وہ اتنے ہی فیاض تھے۔ ان کے نظام و اوقات  میں خط و کتابت کے لیے باقاعدہ وقت مقرر تھا اور انہوں نے اپنی زندگی میں ان گنت خطوط لکھے۔ ١٩۵٣ء سے انہوں نے اپنے نجی خطوط کی نقلیں باقاعدگی سے رکھوانا شروع کر دی تھیں۔ ان نقل شدہ خطوط کی تعداد مکتوبات ماجدی کے مرتب ڈاکٹر ہاشم قدوائی کے مطابق گیارہ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان خطوط کے مطالعے سے عبدالماجد کے مزاج کردار، میلانات و رجحانات اور سوانحی نقوش واضح ہو جاتے ہیں۔ چونکہ عبدالماجد کو اپنے دل کی بات قلم سے ادا کرنے پر قدرت حاصل تھی اور ان کی شخصیت ہمہ گیر واقع ہوئی تھی اس لئے ان کے لکھے ہوئے خطوط دلکشی اور رعنائی کا مرقع بن کر رہ گئے ہیں۔ ان خطوط میں ایک نیک دل، پاک صفات اور بے ریا انسان کے خلوص و صداقت کی ہر جگہ کارفرمائی نظر آتی ہے۔ ذاتی اور خانگی معاملات سے لے کر قومی یا ملکی،  علمی و ادبی موضوعات تک اس میں ملتے ہیں۔ جہاں تک ان کے خطوط کے اسلوب بیان کا تعلق ہے، اس میں سادگی اور بے تکلفی کی فضا کم و بیش ہر جگہ برابر ہے۔ لغت کے معاملات پر ان کو خاص دسترس حاصل تھی۔  اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے پروفیسر آل احمد سرور نے اپنے تعزیتی خط میں لکھا ہے کہ “مولانا کو لغت نویسی سے خاص دلچسپی تھی۔ اگر ان کو دوسرے کاموں سے وقت ملتا تو وہ اکیلے ایک اچھی لغت تیار کر سک؂تے تھے۔” اپنے خاص اور بے تکلف دوستوں کے نام خطوط میں عبدالماجد نے رعایت لفظی اور ضلع جگت سے خوب کام لیا ہے۔ جس سے ان کے لکھنوی مزاج کی واضح نشاندہی ہوتی ہے۔ عبدالماجد دریا بادی کے خطوط کی ایک بڑی تعداد تعزیتی خطوط پر مشتمل ہے جو بڑے ہی موثر اور درد انگیز ہیں۔ ان میں ہر قسم کے تعزیتی خطوط شامل ہیں مثلاً والدین کے سایہ سے محروم ہونے پر اولاد کے نام، اولاد کے دنیا سے اٹھنے پر غمزدہ والدین کے نام، بیوگی کے غم میں مبتلا عورت کے نام اور فقہ حیات کی وفات پر شوہر کے نام وغیرہ وغیرہ ۔ ان خطوط تعزیت میں اظہار غم و ہمدردی کے ساتھ ساتھ تسکین و تسلی کے وہ پہلو اور پر نمایاں کئے گئے ہیں جو مذہب اسلام کے ساتھ مخصوص ہیں؂28۔  عاجزی، انکسار، انسانیت، بے نفسی اور انسان دوستی کی فضا ہر خط میں موجود نظر آتی ہے۔ وہ سخت سے سخت مخالف اور معترض کو بھی تہذیب و شائستگی سے جواب دیتے۔ دریا کو کوزے میں بند کرنا تو ان کی خصوصیت تھی۔ ان خطوط میں عبدالماجد دریا بادی کا منفرد طرز نگارش اور انشاپردازی کا رنگ و آہنگ نے نیز رعایت لفظی کا اہتمام پوری طرح جلوہ گر ہے۔ ان خطوط کی ادبیت کی شان نرالی ہے اور ان کی ادبی افادیت مسلم ہے۔ عبدالماجد کے خطوط کا بڑا حصہ ایسا بھی ہے جن میں انہوں نے بعض تفسیری نکات بیان کیے ہیں۔ یہ خطوط ان کے قرآن اور دین سے گہری وابستگی کے مظہر ہیں۔ اس طرح کے خطوط کی ایک خصوصیت ان کا حقیقت پسندانہ اور مجہتدانہ انداز فکر ہے۔ انہی خطوط میں انہوں نے کہیں کہیں مشتشرقین کے بارے میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے؂29۔

بحیثیت شاعر اور ڈرامہ نگار :

فیض قدرت مولانا موصوف کو غیر معمولی شاعری و ادبی صلاحیتیں عطا ہوئی تھیں۔  وہ ناصرف منفرد نثرنگار، صحافی اور ناقد ہی تھے بلکہ اوائل عمر میں ایک اچھے شاعر کی حیثیت سے بھی رونما ہوئے تھے۔ اکبر مرحوم نے مولانا کے بارے میں یہ اندازہ کر لیا تھا کہ اگر یہ نوجوان شعر و شاعری کی طرف متوجہ ہوجائے تو بہت جلد اعلی پائے کا حاکم بن سکتا ہے۔ خطوط اکبر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ “زود و پشیماں” (ڈرامہ) کے مصنف مولانا عبد الماجد دریا آبادی شاعر بھی ہیں اور اس ڈرامے میں جتنی بھی غزلیں ہیں وہ ان ہی کی ہیں؂30۔

کالج میں آنے کے بعد شاعری سے ان کی دلچسپی میں اضافہ ہوا۔ شبلی کی صحبت میں ان کو شعر سمجھنے کا سلیقہ آیا اور وہ سخن فہم بنے۔ عبدالماجد کی شاعری کے پہلے دور کو ١٩١۴ء سے ١٩١٨ء تک کا دور قرار دیا جاسکتا ہے۔ جب انہوں نے غزلیں لکھیں۔ یہ غزلیں انہوں نے ناظر کے تخلص سے لکھی تھیں۔  عبدالماجد دریا بادی کی شاعری کا چشمہ تقریبا چار برس تک خشک رہا۔ ١٩٢٢ء میں مولانا محمد علی جوہر کا نعتیہ کلام پڑھ کر انکی طبیعت ایک بار پھر بے چین ہو اٹھی اور شعر و شاعری کا جزبہ از سر نو جاگ اٹھا لیکن اب شاعری لب و رخسار،  گل و بلبل، زلف و کاکل کی نہیں رہ گئی تھی۔ اب رنگ تمام تر نعت نبی کا غالب تھا۔ اس دوسرے دور کا سلسلہ ١٩٢۴ء تک چلا۔ عبدالمالک دریا آبادی کی غزلوں اور نعتیہ غزلوں پر مشتمل مختصر مجموعہ “تغزل ماجدی” کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ ١٩٢۴ء کے بعد ان کے بے پناہ علمی و ادبی مصروفیات نے انہیں فکر سخن کی فرصت نہ دی اور وہ شاعری سے کنارہ کش ہو گئے؂31۔

نمونہ نعتیہ کلام

پڑھتا ہوا محشر میں جب صل علیٰ آیا،

رحمت کی گھٹا اٹھی اور ابر کرم چھایا،

جب وقت پڑا نازک اپنے ہوئے بیگانے،

ہاں کام اگر آیا تو نام تیرا آیا،

یہ نام مبارک تھا یا حق کی تجلی تھی،

دم بھر میں ہوا فاسق ابدال کا ہم پایا،

چرچے ہیں فرشتوں میں اور رشک ہے زاہد کو،

اس شان سے جنت میں شیدائے نبی آیا،

ایک عمر کی گمراہی ایک عمر کی سرتابی،

جز تیری غلامی کے آخر نہ مغر پایا،

حکمت کا سبق چھوڑا، عزت کی طلب چھوڑی،

دنیا سے نظر پھیری سب کھو کے تجھے پایا،

فاسق کی ہے یہ میت، پر ہے تو تیری امت،

ہاں ڈال تو دے دامن کا اپنے ذرا سا یا   ؂32

بحیثیت فلسفی و نفسیات دان :

عبدالماجددریابادی جہاں اسلامی علوم و فنون کے شناور تھے وہاں فلسفہ و نفسیات کے بھی رمز شناس تھے۔ آپ کے متعلق یہ فیصلہ بے حد مشکل ہے کہ آپ کو فلسفہ سے زیادہ مناسب تھی یا نفسیات سے، بعض اہل علم کا خیال ہے کہ آپ کو فلسفہ کے مقابلے میں نفسیات سے زیادہ گہری مناسبت تھی۔ مگر یہ سچ ہے کہ آپ کو نو عمری ہی سے دونوں موضوعات سے شغف خاص تھا۔ اور دونوں موضوعات کے تعلق سے آپ اپنے مخصوص خیالات و نظریات رکھتے تھے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے مولانا دریابادی رحمت اللہ کی فلسفہ شناسی پر ایک شاندار مقالہ تحریر کیا ہے، جو فلسفیانہ مصطلحات و نظریات کے ساتھ مولانا دریابادی کے فلسفیانہ خیالات و تصورات کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ البتہ جہاں تک نفسیات کا تعلق ہے، اس موضوع پر بھی مولانا عبدالماجد کے مستقل خیالات و نظریات موجود ہیں۔ نفسیات سے تو آپ کو خاص مناسبت بھی تھی اور یہ مناسبت زمانہ طالب علمی ہی سے تھی۔ چنانچہ مولانا دریابادی رحمۃ اللہ نے ابتدائی دور ہی میں نفسیات کے موضوع پر دو کتابیں اردو میں فلسفہ جذبات اور فلسفہ اجتماع کے نام سے لکھیں اور ایک کتاب انگریزی میں “سائیکالوجی آف لیڈرشپ” کے نام سے تحریر فرمائی۔  یہ تینوں کتابیں نفسیات کے مسائل و قضاء پر مشتمل ہیں۔ یہ تینوں کتابیں مولانا عبدالماجد کے مخصوص دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ مراجعت اسلام کے بعد مولانا عبد الماجد دریابادی ان کتابوں سے خوش نہیں تھے۔ بعض کتابوں کو اپنی فہرست تصانیف سے بھی خارج کر چکے تھے۔ حالانکہ وہ ماضی میں ان کتابوں پر فخر کیا کرتے تھے؂33۔

فلسفہ کے میدان میں عبدالماجد دریا آبادی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے فلسفہ کے بعض دقیق مسائل کو نہایت سلاست سے بیان کردیا ہے، جو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں فلسفے پر کس درجہ عبور حاصل تھا۔ فلسفہ نگاری میں ان کا طریقہ کار استدلالی ہے۔ وہ نقطہ سے نقطہ اور مسئلہ سے مسئلہ پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ بعض فلسفیانہ مضامین میں انہوں نے آغاز ہی ڈرامائی انداز سے کیا ہے چنانچہ قاری کی توجہ شروع سے ہی فلسفیانہ مباحث پر پوری طرح مرکوز ہو جاتی ہے۔ وہ جس خوبی سے مغرب کے فلسفیوں کے اقوال اپنا لیتے ہیں اور کہیں کہیں حکمائے مشرق کی چاشنی اس میں شامل کر دیتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے؂34۔

بحیثیت سوانح نگار :

اردو زبان میں سوانح نگاری کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اردو میں باقاعدہ سوانح نگاری کا آغاز مولانا الطاف حسین حالی نے کیا۔ “حیات جاوید”، “یادگارغالب” ان کے دو سوانحی شاہکار ہیں۔ اس اعتبار سے سوانح نگاری کے باقاعدہ آغاز کے لئے 70 سال سے زیادہ زمانہ نہیں گزرا۔ مگر اس قلیل عرصے میں اردو زبان کو چند باکمال سوانح نگار بھی ملے۔ مشرق و مغرب روایات سوانح نگاری کو پیش نظر رکھ کر مولاناعبدالماجد نے جو ادبی خدمات انجام دیں ان سے انہوں نے اردو ادب میں قابل قدر اضافہ کیا۔ مولانا نے بعض ادبیوں اور شاعروں پر جو سوانحی مضامین لکھے ہیں ان میں بعض بہت مقبول ہوئے ہیں۔ مولانا مرحوم نے فن و سوانح نگاری میں جو مہارت حاصل کی اس کا پورا اندازہ عام طور پر اس وقت ہوا جب ان کی لکھی ہوئی چند سوانحی کتابیں منظر عام پر آئیں۔ اس میں مولانا کے طرز تحریر کیانفرادیت بھی پورے طور پر نمایاں ہے۔  اور حالات کو پیش کرنے کا خاص ڈھنگ نظر آتا ہے؂35۔  سوانح نگار کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی کے اچھے برے افعال کا محاسبہ کرے یا اس کی پردہ داری کرے بلکہ اس کا فرض یہ ہےکہ دیانت داری کے ساتھ اور سلیقہ مندی سے اپنی معلومات و مشاہدات کو اچھے پیرایہ میں پیش کرے۔ اس اصول کی روشنی میں مولانا عبدالماجد کی لکھی ہوئی سوانح کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ انھوں نے اس اصول کی کتنی پابندی کی ہے؂36۔

عبدالماجد دریآبادی کا تعلق شبلی اسکول سے ہے لیکن جہاں تک سوانح نگاری کا تعلق ہے اس میں عبدالماجد دریآبادی نے بلاشبہ شبلی سے الگ راہ نکالی ہے۔ دبستان شبلی کے سوانح نگار بنیادی طور پر مورخ نظر آتے ہیں۔ جبکہ مولانا عبدالماجد دریاآبادی نے مولانا تھانوی اور محمد علی کے سوانح ان کے خطوط اور اپنی ذاتی یادداشتوں کی مدد سے لکھے ہیں۔ اور انہیں ایک ایسے اسلوب کی چاشنی دی ہے،  جس سےصاحبان سوانح کی شخصیت سے ایک خاص طرح کی دلی وابستگی پیدا ہوتی ہے اور ذہن انکی عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ انہوں نے خطوط کے ذریعے سوانح حیات شخصی مشاہدے اور ذاتی تجربے کی بنیاد پر لکھے ہیں اور جس موثر و دلنشین انداز میں پیش کیا ہے وہ سیرت نگاری کے شاہکار کہے جانے کے مستحق ہیں؂37۔

بحیثیت طنز نگار :

جب سے دنیا میں ادب کا وجود ہوا ہے۔  اس دقت سے یا اس کے لگ بھگ طنز نگاری بھی معرض ظہور میں آئی ہے۔  انگریزی کے لفظ سٹائپر (طنز) کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ وہ کسی مہفک یا نازیبا واقعے سے متاثر ہو کر ظرافت یا کراہت کا اظہار ہے جو موزوں الفاظ میں کیا جائے۔ بشرطیکہ کے اس میں خوشی طبعی اور ادبیت نمایاں ہو۔ طنز ایک طرح کا عمل جراحی ہوتا ہے بشرطیکہ کے لطافت کے ساتھ ہوں اس میں مواد کی اہمیت ہے۔ اس کا روپ خواہ کچھ بھی ہو۔ اردو میں طنز و ظرافت کی داستان بڑی طویل ہے۔ مختلف اہل قلم نے اس میدان میں قدم رکھا اور کامیاب ثابت ہوئے۔ مولانا عبدالماجد بھی انہی میں سے ایک منفرد طنز نگار تھے۔ ان کے طنز کی نوعیت سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ موصوف کی زندگی کا اجمالی جائزہ لیا جائے۔ سچ اور صدق کی بدولت اردو اہل قلم میں ان کا مرتبہ طنز نگار کی حیثیت سے مسلم ہو گیا ہے۔ مولانا کو قدرت نے نگاہ غائر اور زبردست قوت استدلال، اصلاح پسندانہ ضمیر اور دلیرانہ طرز تحریر عطا کیا تھا۔ ان کا محرک صرف جذبہ اصلاح اور داعبہ خلاص ہوتا تھا اور ان کے طنز کا نشانہ فرد نہیں، جماعت، ملت اور شخصیت نہیں ایک طرز تفکّر ہوتا تھا۔ وہ اظہار حق میں اپنے بڑے سے بڑے دوست یا محترم کی رعایت کرنا یا کسی عظیم لیڈر یا وزیر سے مرعوب ہونا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ اس فرض کے ادا کرنے میں اپنوں کی برائیاں اور غیروں کی خوبیاں حائل نہیں ہوتی تھیں۔  ان کا قلم دراصل شمشیر برہنہ تھا۔ جو مسلمان، ہندو، سنی، شیعہ، عالم، عامی، امیر، غریب میں امتیاز نہیں برتتا تھا۔ وہ کسی کی اچھی بات دیکھتے یا سنتے تو بے اختیار تعریف کے پھول برساتے اور اگر کوئی بے راہروی دیکھ لیتے تو سخت طنز کا نشانہ بنانے لگتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کے روئے سخن شخص نہیں، بلکہ شخصیت کی طرف ہوتا ہے۔ وہ اپنا فرض جانتے اور طنز کی درد پہچانتے تھے۔ ان کے طنز کی مثالیں بے شمار ہے۔ جن کا احاطہ کرنا دشوار ہے۔ مولانا کی طنزیہ تحریروں پر بعض حلقوں سے اعتراض بھی ہوئے مثلاً یہ کہ ان کے مزاج میں حدّت، لہجے میں تلخی اور تلخی میں شدت زیادہ ہے نیز یہ کہ وہ مولویت سے بے طرح مانوس اور اصلاح سے بالکل مایوس نظر آتے ہیں۔ان اعتراضوں میں کسی قدر صحت پائی جاتی ہے۔ چند لوگ کبھی کبھی ان کی طرز کی یکسانیت کا گلہ کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ ان کے یہاں ملک و قوم کی خرابیوں کا اشارہ تو ہے مگر حل نہیں۔   مگر اس تعلق سے چند حقائق پر غور کرنا مناسب ہوگا۔ ان کو پیش نظر رکھنے کے بعد بہت سے اعتراضات خودبخود دور ہو جائیں گے اور بہت سے شکوک اپنے آپ رفع ہو جائیں گے۔ وہ بیمار کو کبھی نرمی سے اور کبھی گرمی سے صرف اتنا بتا دیتے ہیں کہ اس کا مرض کتنا خطرناک ہو چلا ہے۔ وہ چاہتے تو اپنے طنز میں ظرافت کی چاشنی ملا سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا اس لیے نہیں کیا کہ مزاج سے طنز کی تاثیر گھٹ جاتی ہے اور اس کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا نے ادبیت کا لحاظ رکھتے ہوئے مواد اور ہئت دونوں میں طنز کو جس کامیابی کے ساتھ برتا ہے اس کی مثال اردو ادب میں مشکل ہی سے ملے گی؂38۔

بحیثیت نثری مرثیہ نگار :

اردو نظم میں مرثیہ گوئی کا رواج زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ دکن اور شمالی ہند کے کئی مرثیہ گو حضرات نے اس فن کو بلند کرنے میں کارہائے نمایاں انجام دیئے۔  اردو نظم میں مختلف انداز کے مرثیے تو موجود ہیں مگر اردو نثر اس صنف سے تقریباً عاری رہی ہے۔ مولانا عبد الماجد نے اس خلا کو ہر طرح سے پر کر دیا ہے۔ “انشائے ماجد حصہ دوم میں” چند مرثیے کے عنوانات سے ان کے ١٥ مرثیہ شامل ہیں جن کے عنوانات درج ذیل ہیں:

١۔  عبد الرحمن کی موت۔

٢۔ محمد علی۔

٣۔ راجہ علی محمد خان۔

۴۔ ہم نام نامور۔

۵۔ خوش نصیب گول کبیر۔

٦۔ شوکت علی۔

٧۔ طبیب کی موت۔

٨۔ ماں کے قدموں پر۔

٩۔ سر سکندر حیات۔

١٠۔ نئی نویلی۔

١١۔ قائد ملت۔

١٢۔  ہمشیرہ کی رخصتی۔

١٣۔  ایک قوال۔

١۴۔ جشن نوشابہ۔

١۵۔ یاد غم۔

مولانا عبدالماجد کے مرثیے مختلف نوعیت کے حامل ہیں چنانچہ چار مرثیے  انہوں نے اپنے قریبی عزیز داروں پر کہے۔ “ماں کے قدموں پر ” مرثیہ اپنی والدہ کی وفات پر ١٩۴١ء میں لکھا تھا اور “یاد غم” مرثیہ میں اپنی والدہ کی یاد میں آنسو بہائے ہیں۔ یہ مضمون ١٩۴٦ء میں لکھا تھا۔ “ہمشیرہ کی رخصتی ” مرثیہ میں انہوں نے اپنی بڑی بہن کا واقعہ بیان کیا ہے جن کا انتقال ١٩۴۵ء میں ہوا تھا۔ “نئی نویلی”  مرثیہ اپنی قریبی رشتے کی بھتیجی پر لکھا تھا جس کی شادی کے دس گیارہ مہینے کے بعد وفات ہوگئی تھی۔

مولانا نے آٹھ مرثیے قومی لیڈروں پر لکھے ہیں اس زمرہ میں مولانا محمد علی، عبدالرحمن بلگرامی، راجہ علی محمد علی خان، مولانا عبدالماجد بدایونی، تصدق احمد خان شیروانی، مولانا شوکت علی، سر سکندر حیات اور بہادر خان حیدرآبادی شامل ہیں۔ دو مرثیے اپنے دوستوں پر تحریر فرمائے ہیں۔ ان میں سے ایک مرثیہ شفاء الملک حکیم عبدالحمید لکھنوی پر ہے اور دوسرا مرثیہ افضل حسین قوال پر ہے؂39۔

بحیثیت عالم دین اور مفسر قرآن :

بیسوی صدی میں ہندوستانی مسلمانوں کی علمی و دینی شخصیات کی اگر مختصر سی فہرست بھی تیار کی جائے تو اس میں مولانا عبدالماجد دریاآبادی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا نے اپنے قلم سے ہندوستانی قوم، ملت اسلامیہ اور دین اسلام کی جو عظیم الشان خدمات انجام دی ہیں۔ مولانا نے جو تصنیفات و تالیفات چھوڑی ہیں،  ان میں قرآن کریم کے ان کے اردو اور انگریزی تراجم موسوم بہ “تفسیر القرآن”  کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔  یہ تراجم قرآن حکیم سے ان کے گہرے شغف،  عربی زبان کی نزاکتوں کےبھرپور ادراک،  تاریخ اسلام پر صحیح پس منظر میں عمیق نظر کے ساتھ تاریخ عالم،  علمی و مذہبی اور علمی تحریقات اور فلسفہ،  نفسیات و عمرانیات جیسے موضوعات پر یورپی مفکرین کی تصنیفات پر نظر،  باالفاظ دیگر اسلامی علوم اور عصری علوم میں انکی غیر معمولی دستگاہ اور دقت نظر کا شاہکار ہے؂40۔

مولانا نے اپنی عمر کی چالیس پینتالیس سال کا بہترین حصّہ قرآن کے مطالعہ اور اس کے مطالب پر غور و فکر کرنے میں صرف کیا۔  یہی انکا محبوب مشغلہ تھا۔ انہیں انگریزی اور اردو دونوں زبانوں پر غیر معمولی عبور حاصل تھا۔  وہ جانتے تھے کہ انگریزی اس وقت دنیا کی سب سے بڑی زبان ہے اور اسکو بین الاقوامی حیثیت مکمل طور پر حاصل ہے۔  اس لیے انہوں نے ازرہ مصلحت و سودمندی انگریزی میں قرآن مجید کا ترجمہ بھی کیا اور تفسیر بھی لکھی۔ انکی یہ خدمت تجدید اور اصلاح کے سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ اسکے ساتھ انہوں نے اردو زبان میں بھی قرآن مجید کی تفسیر لکھی جو “تفسیر  ماجدی”  کے نام سے شائع ہوکر مقبول عام ہوئی۔  اسلامیات و قرآنیات سے متعلق مولانا موصوف نے جتنی بھی کتابیں لکھی ہیں ان میں ترجمہ و تفسیر کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ انکے قرآن و کریم کے ترجمے اور تفسیر کو ہندو پاک کے علمی طبقہ میں بڑی قدر و منزلت نصیب ہوئی ہے؂41۔

حوالاجات :

1) سلیم قدوائی، “عبدالماجد دریا آبادی”، نئی دہلی، ساہتیہ اکادمی، ١٩٩٨ء، ص ١١

2)   مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ” مولانا عبدالماجد دریا آبادی خدمات و آثار”، نئی دہلی، شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ، جون۲۰۰۶، ص ۲۳

3)  دریا آبادی، عبدالماجد، “آپ بیتی”، لکھنؤ، مکتبہ فردوس مکارم نگر برولیا، ١٤٠٩-١٩٨٩،ص ۳۲

4) مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ” مولانا عبدالماجد دریا آبادی خدمات و آثار” محولہ بالا ص ۲۳

5)   ایضاً، ص ۲۴

6)   ڈاکٹر عتیق الرحمن خاں، “مولانا عبدالماجد دریا آبادی حیات و خدمات”، حیدرآباد، پبلک پرنٹرس، مئی ۱٩٩۳ء، ص ٠٥

7) مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ” مولانا عبدالماجد دریا آبادی خدمات و أثار ،محولہ بالا ص ۲۴

8)  ڈاکٹر عتیق الرحمن خاں، “مولانا عبدالماجد دریا آبادی حیات و خدمات”، محولہ بالا، ص ٠٥

9)  دریا آبادی، عبدالماجد، “آپ بیتی”، لکھنؤ، مکتبہ فردوس مکارم نگر برولیا، ١٤٠٩-١٩٨٩، ص ٨٨

10)  مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ” مولانا عبدالماجد دریا آبادی خدمات و اثار ،محولہ بالا،   ص ۲٥

11)  سلیم قدوائی، “عبدالماجد دریا آبادی”، محولہ بالا، ص  ١۴

12)  ڈاکٹر تحسین فراقی، “مولانا عبدالماجد دریا آبادی کتابیات”، اسلامآباد، مقتدرہ قومی زبان، ١٩٩١ء، ص  ٠٥

13) سلیم قدوائی، “عبدالماجد دریا آبادی”، محولہ بالا ، ص ١٨

14)  ڈاکٹر عتیق الرحمن خاں، “مولانا عبدالماجد دریا آبادی حیات و خدمات”، محولہ بالا، ص ١٠~١١

15) سلیم قدوائی، “عبدالماجد دریا آبادی”، محولہ بالا ، ص  ١٩~۲١

16)  مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ” مولانا عبدالماجد دریا آبادی خدمات و آثار”، محولہ بالا، ص ١٧

17)  ڈاکٹر انور سدید، “اردو ادب کی مختصر تاریخ”، دہلی، عالمی میڈیا پرائیویٹ لیمٹیڈ، ۲٠١۴ء، ص ۳٨۴

18)  سلیم قدوائی، “عبدالماجد دریا آبادی”، محولہ بالا، ص ۳٩

19)  ڈاکٹر تحسین فراقی، “مولانا عبدالماجد دریا آبادی کتابیات”، محولہ بالا، ص ٨~٩

20) مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ” مولانا عبدالماجد دریا آبادی خدمات و آثار”، محولہ بالا ، ص ١٧٩

21)  سلیم قدوائی، “عبدالماجد دریا آبادی”، محولہ بالا ، ص ۴٠

22)  ایضاً، ص۴۲

23)  مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ” مولانا عبدالماجد دریا آبادی خدمات و آثار”، محولہ بالا، ص ٨٥

24)  ایضاً، ص ٨٧

25)   ڈاکٹر تحسین فراقی، “مولانا عبدالماجد دریا آبادی کتابیات”، محولہ بالا، ص ٧

26)  ایضاً، ص ٨

27)   دریا آبادی، عبدالماجد، “آپ بیتی”، محولہ بالا ، ص ۲٨٨~۲۳١

28) سلیم قدوائی، “عبدالماجد دریا آبادی”، محولہ بالا ، ص ۴٨~٥٠

29)  ایضاً، ص ٥۴

30)   ڈاکٹر عتیق الرحمن خاں، “مولانا عبدالماجد دریا آبادی حیات و خدمات”، محولہ بالا، ص ٩٠~٩١

31)  سلیم قدوائی، “عبدالماجد دریا آبادی”، محولہ بالا ، ص ٥۴~٥٥

32)   حکیم عبدالقوی دریا آباد، “تغزل ماجدی”، لکھنؤ، مولانا عبدالماجد دریا آبادی اکا‍ڈمی رجسٹرڈ، اپریل ١٩٧٩ء، ص ۲٥~۲٦

33)  مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ” مولانا عبدالماجد دریا آبادی خدمات و آثار”، محولہ بالا ، ص ٥٩~٦٠

34)  سلیم قدوائی، “عبدالماجد دریا آبادی”، محولہ بالا، ص ٦۴

35) ڈاکٹر عتیق الرحمن خاں، “مولانا عبدالماجد دریا آبادی حیات و خدمات”، محولہ بالا ، ص ۱۲۳~۱۲٥

36) ایضاً، ص ١۳٠

37)  سلیم قدوائی، “عبدالماجد دریا آبادی”، محولہ بالا ، ص ٨٠

38)  ڈاکٹر عتیق الرحمن خاں، “مولانا عبدالماجد دریا آبادی حیات و خدمات”، محولہ بالا، ص  ٦٨~٦۲

39)  ایضاً، ص ١٧٨~١٧٩

40)  مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ” مولانا عبدالماجد دریا آبادی خدمات و آثار”، محولہ بالا، ص ۳۱۴

41)  ڈاکٹر عتیق الرحمن خاں، “مولانا عبدالماجد دریا آبادی حیات و خدمات”، محولہ بالا، ص ١۴٨~١۴٩

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply