مدرسہ فراہی ایک منفرد زاویہء نظر کیسے؟۔تحریر/محمد یاسین

مسلم روایات میں اب تک تین ہی منہاج رہے ہیں۔جس میں فقہی منہاج،سلفی منہاج اور صوفی منہاج۔سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ منہاج کیا ہیں اور ان کے وجود میں آنے کے مقاصد کیا ہیں؟

یہ کوئی اجنبی بات نہیں بلکہ ہر علوم میں خواہ سائنس ہو،فلسفہ یا مذہب، ان تمام علوم میں مختلف مسالک،نظریہ اور زاویہ نظر رکھنے والی شخصیات ہوتی ہیں۔اسی طرح اسلامی روایات میں بھی اس وقت یہ تین منہاج یا نقطہء ہائے نظر ہیں۔سب سے پہلے فقہی منہاج کا جائزہ لیتے ہیں۔

حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ  وسلم کے بعد قرآن مجید کو سمجھنے کیلئے تین ہی منہاج قائم ہوئے ہیں کیونکہ جب تک محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ  وسلم لوگوں میں موجود تھے تو قرآن کو سمجھنے کیلئے ان سے رجوع کیا جاسکتا تھا تاہم ان کے بعد یہ بحث شروع ہوئی کہ اب قرآن مجید کو سمجھنے کیلئے کونسی چیز قاضی کی حیثیت رکھتی ہے۔اس ردعمل میں تین منہاج وجود میں آئے ۔فقہی منہاج سے مراد ہے کہ اگر قرآن مجید کو پرکھنے اور سمجھنے کیلئے امت میں جس چیز کو اجماع حاصل ہو گیا ہے وہی چیز قاضی کی حیثیت رکھتی ہے۔اجماع دو اقسام کے ہوتے ہیں ایک تاریخی اجماع اور دوسرا فہم کا اجماع۔یہاں فہم کا اجماع مراد لیا جارہا ہے۔دوسرا منہاج سلفی منہاج ہے۔اس سے مراد ہے کہ جو بھی حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا قول و فعل اسلامی تاریخ،صحائف اور صحابہ کے آثار سے ملتے ہیں ان ہی کی روشنی میں قرآن کو سمجھا جائے۔کیونکہ قرآن مجید کو سمجھنے کیلئے حضور پاک کے فہم سے ماوراء کوئی اور انسانی فہم نہیں ہوسکتا۔یہ بات ایک لمحے کیلئے بالکل درست لگتی ہے تاہم اس کے علاوہ تیسرا منہاج بھی ہے جسے صوفی منہاج کہا جاتا ہے۔صوفی منہاج سے مراد ہے کہ جو مسلمان صوفیاء نے اپنے روحانی تجربہ و مشاہدہ سے حاصل کیا ہے اسی کی روشنی میں قرآن مجید کو سمجھا جائے گا مطلب روحانی مراقبہ و مشاہدہ ہی اصل قاضی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ صوفیاء کے نزدیک کیونکہ انہیں براہ راست روحانی مشاہدہ ہوتا ہے تو وہ اسی کو اصل پر رکھ کر قرآن کو سمجھتے ہیں۔اس سارے منہاج میں ایک بات واضح ہونا ضروری ہے کہ ضروری نہیں کہ صوفی اجماع اور روایات کو نظر انداز کرتے ہیں یا سلف اجماع کو یا فقہاء روایات اور تصوف کو بلکہ ان منہاج میں اصل وہی قرار پاتی ہے جس کو قاضی کی حیثیت حاصل ہو۔ مثلاً صوفی منہاج میں تصوف،سلفی منہاج میں روایات اور فقہی منہاج میں اجماع وغیرہ۔لیکن مدرسہ فراہی ایک چوتھا منہاج ہے جس کا آغاز امام حمیدالدین فراہی نے کیا۔مدرسہ فراہی میں اصل کی حیثیت قرآن مجید ہی کو حاصل ہے۔اسی وجہ سے قرآن کو فرقان کہا جاتا ہے کہ جہاں دین و دنیا میں تضاد واقع ہو وہاں فیصلہ کن حیثیت قرآن مجید کو حاصل ہے اس کے بعد روایات،اجماع اور قیاس کو ۔سادہ زبان میں قرآن اصل ہے اور حدیث اس کی فرع ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

امام فراہی کا اصل نام حمیدالدین فراہی ہی ہے۔ آپ 18 نومبر 1863 کو بھارت کے صوبہ یوپی کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے اور 67 کی عمر میں، 11 نومبر 1930 کو وفات پائی۔انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔وہ مولانا شبلی نعمانی سے متاثر بھی تھے۔ آپ کا شجرہ نسب:ابو احمد حمیدالدین فراہی بن عبدالکریم بن قربان قنبر بن تاج علی بن قائم علی بن دائم علی بن بہاالدین ہے۔ مدرسہ فراحی اس وقت تین ادوار میں پھیلا ہوا ہے پہلا دور خود امام فراہی کا ہے دوسرا دور امام امین احسن اصلاحی اور تیسرا مطلب موجودہ دور جاوید احمد غامدی کا ہے ۔دبستانِ شبلی میں جس شخص کو امام العصر کہنا چاہیے ، وہ تنہا امام حمید الدین فراہی ہیں۔ وہ اِس زمین پر خدا کی آیات میں سے ایک آیت تھے۔ علامہ سید سلیمان ندوی کو پڑھیے ، وہ اُن کی وفات پر لکھتے ہیں :
” الصلوٰۃ علیٰ ترجمان القرآن ( مفسر قرآن کی نماز جنازہ ) وہ صدا ہے جو آج سے ساڑھے چھ سو برس پیشتر مصر و شام سے چین کی دیواروں تک ابن تیمیہ ؒ کی نماز جنازہ کے لیے بلند ہوئی تھی۔ حق یہ ہے کہ یہ صدا آج پھر بلند ہو اور کم از کم ہندوستان سے مصر و شام تک پھیل جائے کہ اِس عہد کا ابن تیمیہ ۱۱؍ نومبر ۱۹۳۰ء ( ۱۹؍ جمادی الاخریٰ ۱۳۴۹ھ ) کو اِس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ وہ جس کے فضل و کمال کی مثال آئندہ بظاہر حال عالم اسلامی میں پیدا ہونے کی توقع نہیں۔ جس کی مشرقی و مغربی جامعیت عہد حاضر کا معجزہ تھی۔ عربی کا فاضل یگانہ اور انگریزی کا گریجویٹ ، زہد و ورع کی تصویر ، فضل و کمال کا مجسمہ ، فارسی کا بلبل شیراز ، عربی کا سوق عکاظ ، ایک شخصیت مفرد ، لیکن ایک جہان دانش۔ ایک دنیائے معرفت ، ایک کائنات علم ، ایک گوشہ نشین مجمع کمال ، ایک بے نوا سلطان ہنر ، علوم ادبیہ کا یگانہ ، علوم عربیہ کا خزانہ ، علوم عقلیہ کا ناقد ، علوم دینیہ کا ماہر ، علوم القرآن کا واقف اسرار ، قرآن پاک کا دانائے رموز ، دنیا کی دولت سے بے نیاز ، اہل دنیا سے مستغنی ، انسانوں کے رد و قبول اور عالم کی داد و تحسین سے بے پرواہ ، گوشۂ علم کا معتکف اور اپنی دنیا کا آپ بادشاہ۔ وہ ہستی جو تیس برس کامل قرآن پاک اور صرف قرآن پاک کے فہم و تدبر اور درس و تعلیم میں محو ، ہر شے سے بے گانہ اور شغل سے نا آشنا تھی۔

Facebook Comments

محمد یاسین
محمد یاسین ایک مصنف ہیں۔ وہ مزہب اور سوشل سائنس میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ facebook.com/myasinhpk1

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply