عظیم ترین آئیڈیا /ڈاکٹر مختیار ملغانی

تاریخِِ ادب کے سب سے بڑے مصنف وکٹر ہیوگو کا فرمان ہے کہ ایک ہی چیز ہے جو دنیا کی ہر آرمی سے زیادہ طاقتور ہے اور وہ ہے آئیڈیا۔ ۔
دوسرے جاندار فطرت و ماحول کے ساتھ بلاواسطہ تعامل کرتے ہیں جبکہ انسان اپنے آئیڈیا یعنی فکر کے ذریعے فطرت و ماحول سے تعلق رکھتا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ آلۂ فکر کے استعمال کا نتیجہ فوری نہیں بلکہ ہمیشہ وقت گزرنے کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ آئیڈیا مادی چیز نہیں اس پہ تو سب کا اتفاق ہے، فلسفی کے نزدیک آئیڈیا انسان کے اندر سے جینیریٹ کرتا ہے، اس انسان کے اندر سے جو کسی خاص سمت میں مستقل محنت، غور وفکر کرتا رہے، جبکہ میسٹیک کا کہنا ہے کہ آئیڈیا کائنات کے معلوماتی سیکٹر میں پہلے سے موجود ہوتا ہے جہاں غوروفکر کرنے والے شخص کے ذہن کی فریکوئینسی اس مخصوص معلوماتی سیکٹر سے جا ملتی ہے۔
انسانی تاریخ میں سب سے عظیم اور پیچیدہ آئیڈیا غالباً ریئیلیٹی (حقیقت، واقعیت) کا تصور ہے، اس کے تانے بانے قدیم ترین بیانئے اور اساطیر سے جا ملتے ہیں، ریئیلیٹی کو آپ سالمیت یا تمامیت بھی کہہ سکتے ہیں، چھٹی صدی قبل مسیح میں یونانیوں کے ہاں ریئیلیٹی پر بحث کے ثبوت ملتے ہیں جہاں وہ پہلے سے موجود حقیقت کے تصور یعنی اولیمپک خداؤں کے ہاتھوں میں کائنات کو محفوظ سمجھے جانے کی میتھ کو جھٹلاتے نظر آتے ہیں، ان فلسفیوں کے نزدیک یہ سالمیت اساطیری خداؤں کی بجائے بنیادی عناصر (ہوا، پانی، عددی تناسب وغیرہ) کی بدولت قائم ہے، یہاں تک ریئیلیٹی کا تصور خالصتاً مادی دکھائی دیتا ہے، اس سے اگلی سیڑھی پر افلاطونی نظریہ ہے کہ ریئیلیٹی سراسر غیر مادی وجود ہے، اس کی ساخت تخلیاتی عناصر سے جڑی ہے، اور مادی دنیا اس ریئیلیٹی کا عکس ہے۔ ان نظریات کے ساتھ ساتھ ریئیلیٹی کا پیرالل تصور مذہب سے جڑا تھا ، یہ اپنی نوعیت میں دوٹوک اور سادہ ہے کہ ایک عظیم دماغ نے اس پوری کائنات کو خاص مقصد کیلئے تخلیق کیا ہے، اس ابسولیوٹ انٹیلیکٹ کی تخلیق چونکہ قوانین پر کاربند ہے، اس لئے ان مظاہر پر ہر منطقی تحقیق ایک منطقی نتیجے تک پہنچا سکتی ہے، اسی تصور کو لے کر سولہویں سترہویں عیسوی میں سائنس کی طرف انسان کی رغبت بڑھی، جدید دور میں ریئیلیٹی کا عمومی تصور یہ ہے کہ کائنات مکمل مادی ہے، دلچسپ نکتہ ہے کہ یہ تصور اسی پہلے نظریئے کی طرف واپس جاتا ہے جو چھٹی صدی عیسوی میں پیش کیا گیا، یہ سیکولر تصور ہے جس کے مطابق ریئیلیٹی وہی ہے جو مادی طور پر دیکھی سمجھی جا سکتی ہے،( اسے Naturalism یا Physicalism کہا جاتا ہے) .کسی بھی انسان کا اسلوبِ فکر یا طرزِ زندگی اسی بنیاد سے جنم لے گا کہ وہ کس ریئیلیٹی میں پروان چڑھا، یعنی کہ فرد کے ظاہری و باطنی فعل و خیال کا پس منظر یہی ریئیلیٹی ہوگی، ریئیلیٹی کا مخصوص تصور کسی بھی فرد یا سماج میں اتنی گہرائی تک سرایت کرتا ہے کہ کوئی فعل کوئی فکر اس سے مبرا نہیں ہو سکتی اور اس کا ادراک تک نہیں ہو پاتا، یہ سب کچھ غیر ارادی ہے، ریئیلیٹی کا تصور ہی وہ زمین ہے جہاں انسان قدم جما کے کھڑا ہے، اسی زمین سے تمام خیالات ، افعال ، روایات ، نفسیات اور شعور جنم لیتے ہیں جو احساسات ، تجربے، مشاہدے، تعلق، خوشی و غم وغیرہ کی بنیاد رکھتے ہیں۔انگریزی زبان میں اس کیلئے implicit ontology کی اصطلاح استعمال ہوگی، جس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ ریئیلیٹی کا ایک بنیادی تصور فرد کے اندر موجود ہے جو خود فرد سے چھپا ہے، میرے یا آپ کے نظریات ایسے کیوں ہیں، ہم کیوں اچھے یا برے ہیں، ہمارے ایقان اور افعال کہاں سے ابھرتے ہیں، ان سب کا انحصار اس بات پر ہے کہ ریئیلیٹی کے تصور کی کونسی شکل آپ کے اندر بھری ہے، یہی شکل آپ کو اپنے اس تصور سے باہر نہیں جانے دے گی ، یہی شکل آپ کے مقاصد ، افعال اور اعمال کو خاص سمت اور روپ دے گی۔
یہاں ایک دلچسپ سوال سامنے آتا ہے کہ یہ جو بار بار ہمیں out of the box جا کر سوچنے کا کہا جاتا ہے، اس کا مقصد کیا ہے؟ عمومآ یہ چیز مشورہ دینے والے کو بھی نہیں معلوم ہوتی کہ روایت سے ہٹ کر سوچنا تب ہی ممکن ہے جب آپ ریئیلیٹی کے ایک تصور سے کسی دوسرے تصور پر یقین لے آئیں، صرف اسی صورت ہی سوچ کے اسلوب کو بدلا جا سکتا ہے ، آج جدید دنیا میں یہ چیز کسی حد تک ممکن ہے، اگرچہ اس سے پہلے کسی فرد کیلئے یہ کام بڑا کٹھن تھا، ریئیلیٹی اپنی ساخت میں مختلف آئیڈیاز کا ایک جال ہے، چنگل ہے، جو گانٹھ در گانٹھ ایک دوسرے سے جڑے ہیں، ایسے ہی جیسے دماغی خلیے ، نیورانز، ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں، انہی مختلف آئیڈیاز کو ایک دوسرے سے جدا کر کے، جال کے ہر جوڑ کو کھول کر پرکھا دیکھا سمجھا جائے اور نئے آئیڈیاز کو ساتھ ملا کر نئے سرے سے اس جال کو ترتیب دیا جائے تو ریئیلٹی کے تصور کو بدلا جا سکتا ہے، اگرچہ بعض شخصیات ایسی ہوا کرتی ہیں کہ فطرتاً وہ کسی دوسری ریئیلیٹی کے آدمی ہوتے ہیں لیکن سماج و روایات کے زیرِ اثر ان کے اندر متضاد ریئیلیٹی پروان چڑھتی ہے، آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ ملحد افراد فطرتاً مذہبی رجحان رکھتے ہیں لیکن نظریات دوسرے پالتے ہیں، یا پھر بعض مذہبی افراد اپنی گہرائی میں کافی حد تک سیکولر بلکہ ملحد طبیعت رکھتے ہیں گویا کہ ریئیلیٹی کے یہ مختلف تصورات کسی ایک شخص میں باہم گتھم گتھا موجود ہو سکتے ہیں۔ مشاہدہ ہے کہ الحاد پہ کتابیں لکھنے والے مادہ پرست افراد گاہے میڈیٹیشن کے ذریعے لاشعور کی پرورش، سکون شانتی اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کی مشق کرتے دکھائی دیتے ہیں حالانکہ یہ تمام چیزیں غیر مادی ہیں۔
حقیقت کا آئیڈیا اس حد تک عظیم اور قدیم ہے کہ زندگی کا جزوِ لازم ہونے کے باوجود اسے محسوس نہیں کیا جاتا، ایسے ہی جیسے آکسیجن اور آنے والے زمانوں میں انٹرنیٹ ۔
ریئلٹی کے بعد بڑے آئیڈیاز میں انٹیلیکٹ، ہرسینیلیٹی، ارادہ، سیاست وغیرہ شامل ہیں، جن ہر کسی اور وقت بحث کی جا سکتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply