• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایرانی صدر کا گیم چینجر دورہ شام/ڈاکٹر ندیم عباس

ایرانی صدر کا گیم چینجر دورہ شام/ڈاکٹر ندیم عباس

چند سال پہلے کی بات ہے کہ دنیا بھر سے دہشت گردوں کو بڑے پروٹوکول کے ساتھ شام بھیجا جا رہا تھا۔ ایک کے بعد دوسرا شامی شہر دہشتگروں کے ہاتھوں میں جا رہا تھا۔ بین الاقوامی تجزیہ نگار احتیاطاً اس خواہش کا اظہار کرتے تھے کہ اگلے چند دنوں میں شامی صدر ملک چھوڑ دیں گے اور عرب ملکوں کے مہربانوں کی یہ خواہش گھنٹوں میں شامی صدر کی دمشق روانگی کی ہوتی تھی۔ صورتحال بہت گھمبیر تھی، دہشتگرد گروہ اس قدر طاقتور ہوچکے تھے کہ شامی صدر کے محل کے قریب تک سرنگیں کھودنے میں کامیاب ہوگئے، جن کی بروقت اطلاع پر بڑا حادثہ نہ ہوسکا۔کہا جاتا ہے کہ دوسری عرب اسرائیل جنگ کے بعد حافظ الاسد اس نتجے تک پہنچ چکے تھے کہ دیگر ممالک فلسطین کی آزادی میں مخلص بھی نہیں اور انہیں کوئی دلچسپی بھی نہیں ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے ملک کے دفاع کو مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس میں دو اداروں پر خصوصی توجہ دی گئی، ایک فوج کو جدید انداز میں مسلح کیا گیا اور دوسرا انٹیلجنس کا نظام اعلیٰ پروفیشنل بنیادوں پر کھڑا کیا۔ ان دو فیصلوں نے شام کے دفاع میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اسرائیل اس سے پہلے جتنے علاقوں پر قبضہ کرچکا تھا، اس سے آگے نہیں بڑھ سکا اور شام کے اندر بھی اسرائیلیوں کو بار بار ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

بشار الاسد ڈٹ گیا اور اس نے آخری دم تک ملک کے دفاع کے عزم کا اظہار کیا، اس کے فوراً بعد اس نے روس کو براہ راست شام میں بلا لیا، ایران اور دیگر دوستوں کو ملک کے دفاع میں شریک کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلنا کہ امریکہ اور ترکی جہاں جہاں آچکے تھے، وہیں رک گئے بلکہ ترکی کچھ علاقوں سے واپس بھی گیا۔ مقاومتی فورسز نے النصرہ، جیش الاسلام اور سرایا شام سمیت تمام گروہوں کے خلاف زبردست مزاحمت کی۔ شام کی عوام کو بھی جب اصل صورتحال کا علم ہوا تو انہوں نے بھی ریاست کا ساتھ دیا۔ شام کے عوام نے بہت تاریک دنوں کا مشاہدہ کیا، آج بھی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ وہ شام جو خطے کا ابھرتا ہوا ملک تھا، آج جنگ زدہ ملک میں تبدیل ہوچکا ہے۔ آزادی، حریت اور خود مختاری کے لیے شام کی عوام نے عظیم الشان جدوجہد کی ہے۔

کچھ دن پہلے شام کے صدر بغیر محافظوں کے دمشق کے بازار میں چہل قدم کے لیے نکل آئے، عوام نے جیسے ہی اپنے صدر کو دیکھا دیوانہ وار اس کی طرف دوڑ پڑے۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ عام شامی اپنے صدر کے ساتھ کھڑا ہے۔ ابھی ویڈیو دیکھ رہا تھا، اسی طرح ایران کے صدر محمد ابراہیم رئیسی شامی عوام کے درمیان آتے ہیں اور جس طرح عوام پر جوش نعروں سے ان کا استقبال کر رہی ہے، واقعاً حیران کن ہے۔شام کی باشعور عوام جانتی ہے کہ اگر بروقت ایران کی مدد نہ ہوتی تو آج شام پر داعش اور ان کے ہمنواوں کی حکومت ہوتی۔ زندہ قوموں اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہیں اور شام کے ہزاروں سال سے تہذیب یافتہ لوگ اس بات کا بخوبی علم رکھتے ہیں۔ایک اور ویڈیو دیکھ رہا تھا، اس میں ایرانی صدر کے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب میں شامی نوجوان بڑے دلنشین ترانے پڑھ رہے ہیں۔ ان میں اظہار تشکر بھی ہے، خوش آمدید بھی ہے، عزم اور حوصلے کا اظہار بھی ہے، فتح و نصرت کی یاد بھی منائی جا رہی ہے اور مستقبل سے پرامید ہونے کی نوید بھی ہے۔

جناب ابراہیم رئیسی صاحب نے شام میں امریکی فوج کی موجودگی کو شام کی خود مختاری کے خلاف قرار دیا۔ اسی طرح شام میں زلزلے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے زلزلہ زدگان کی امداد کے روکے جانے پر تنقید کی اور اسے غیر انسانی فعل قرار دیا۔ اسرائیل کو ایران کی فوجی طاقت کے سامنے بے وقعت قرار دیا۔ شامی صدر نے کہا یہ حق و حقیقت کی فتح ہے۔ دونوں ممالک نے جس طرح تعاون مزید بڑھانے کا اعلان کیا ہے، اس سے یہ دورہ تاریخی حیثت اختیار کر گیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ قطر اور ایک عرب ممالک کے علاوہ سب عرب لیگ میں شام کی شمولیت کے لیے تیار ہیں۔ اردن میں عرب وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا ہے، جو سعودی عرب کی درخواست پر بلایا گیا تھا، جس کا ایجنڈا ہی یہی تھا کہ سعودی عرب میں عرب لیگ کے ہونے والے اجلاس میں شامی صدر کی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ وہی ممالک جو شامی صدر کو دیکھنے کے روادار نہیں تھے، آج ان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ شام کے وزیر خارجہ سعودی عرب کا دورہ کرچکے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

عرب ممالک کو اب احساس ہو رہا ہے کہ شام درست سمت کھڑا تھا اور یہ بین الاقوامی ورلڈ آرڈر کا شکار ہو رہا تھا۔ نئے مشرق وسطیٰ کے خواب میں ایک عرب مسلم ملک کو مکمل تباہ کرنے کا ارادہ تھا، جسے بڑی جرات سے بشار الاسد نے برباد نہیں ہونے دیا۔ چند سال پہلے ہی کچھ دہشتگرد گروہ حضرت زینبؑ کے روضہ مبارک کو گرانے کی باتیں کر رہے تھے، آج آقای ابراہیم رئیسی اسی کا دروازہ کھول رہے تھے اور اسی حرم میں کھڑے تھے۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ روضہ حضرت زینبؑ کی طرف دیکھنے والے ناکام و مایوس ہوچکے ہیں۔ یہ ایک بار پھر بنت علیؑ کی فتح شام کا اعلان ہے، جسے دنیا بھر کا میڈیا لائیو دکھا رہا تھا۔ آج روضہ حضرت زینبؑ پر لہراتے علم اس بات کے شاہد تھے کہ ہزاروں لوگوں نے اپنا خون دیا، مگر کسی یزیدی کو حرم حضرت زینبؑ میں داخل نہیں ہونے دیا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply