• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی گرفتاری کا احمقانہ فیصلہ اور اس کا سنگین ردعمل۔۔غیور شاہ ترمذی

تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی گرفتاری کا احمقانہ فیصلہ اور اس کا سنگین ردعمل۔۔غیور شاہ ترمذی

حکومتی احکامات کی پیروی کرتے ہوئے لاہور میں پولیس کی جانب سے تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد رضوی کو حراست میں لئے جانے کا فیصلہ سخت احمقانہ ثابت ہوا اور اس گرفتاری کے خلاف سخت ردعمل میں تحریک لبیک کے کارکنوں نے ملک کے مختلف شہروں میں مظاہروں کا لامتناہی سلسلہ شروع کر دیا جس سے نہ صرف تمام بڑے شہروں کا نظام زندگی شدید متاثر ہوا ہے بلکہ موٹر وے، جی ٹی روڈ سمیت مختلف شہروں میں اور بین الصوبائی ٹرانسپورٹ بھی بند ہو کر رہ گئی ہے- سعد رضوی کو پیر کی دوپہر اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ ایک جنازے میں شرکت کے لیے جارہے تھے۔ ان کی حراست کی خبر عام ہوتے ہی تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں نے پورے ملک کی ٹریفک کو عملاً جام کر کے رکھ دیا- اسلام آباد، لاہور، کراچی، ملتان، حب، اوکاڑہ، گوجرانولہ، سیالکوٹ، سکھر، گجرات، جہلم، شیخوپورہ، گجر خاں سمیت ملک کا کوئی بڑا شہر ایسا نہیں رہا جس میں تحریک لبیک کے کارکنوں نے حکومتی رٹ کو تہس  نہس نہ کیا ہو-

تحریک لبیک کے کارکنوں نے تمام بڑے شہروں کے ہر اہم مقام پر کنٹینر لگا کر، دھرنے دے کر اور ٹائر جلا کر قومی شاہراہوں کو ٹریفک کے لئے بلاک کیا جس سے تمام قومی شاہراہوں سمیت شہروں کی اندرونی مرکزی شاہراہوں پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں-

ہزاروں مسافروں کو شدید مشلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے- اعلیٰ پولیس افسران اور انتظامیہ کے اونچے عہدے داروں کے تحریک لبیک کے کارکنوں اور عہدے داروں سے مذاکرات یکسر ناکام ہو گئے اور کئی مقامات پر پولیس اور مظاہرین میں تصادم بھی ہوئے جن میں مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ اور پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج، آنسو گیس شیلنگ اور واٹر کینن کا بے دریغ استعمال بھی کیا گیا-

پولیس کی جانب سے ابھی تک سعد رضوی کی گرفتاری کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تاہم تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ اس اقدام کو تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے 20 اپریل کو اسلام آباد کی طرف ناموس رسالت لانگ مارچ روکنے کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس لانگ مارچ کی کال حکومت کی جانب سے اس تاریخ تک فرانسیسی سفیر کو ملک بدر نہ کئے جانے کی صورت میں دی گئی ہے۔ حکومت نے 16 نومبر 2020ء کو اسلام آباد میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے کے ساتھ دھرنا دینے والی تحریک لبیک پاکستان کے سابق سربراہ خادم حسین رضوی سے چار نکات پر معاہدہ کیا تھا جن کے تحت حکومت کو 2 سے 3 مہینوں کے اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کے بعد فرانس کے سفیر کو واپس فرانس بھیجنا تھا- خادم رضوی کی وفات کے بعد ان کی جماعت کی 18 رکنی شوری نے ان کے بیٹے سعد رضوی کو تحریک لبیک کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا اور خادم رضوی کے جنازے کے موقع پر ان کے جاںشین بیٹے سعد رضوی نے خطاب میں اپنے والد کا مشن جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا-

تحریک لبیک کے بانی خادم رضوی کی وفات کے بعد عمران خاں حکومت نے شاید یہ سوچا ہو کہ معاملہ ٹل گیا ہے لیکن ایسا نہیں تھا- تحریک لبیک کے نئے سربراہ سعد رضوی نے فروری 2021ء میں اپنی عوامی طاقت کا ہلکا پھلکا مظاہرہ کیا جو ہرگز بھی ہلکا پھلکا نہیں تھا- اس مظاہرہ کے بعد تحریک لبیک اور حکومت میں نئی گفت و شنید اور پرانے معاہدے پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے ایک اور نیا معاہدہ ہوا جس کے تحت حکومت کو 20 اپریل تک فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے وعدے پر عمل کرنے کی مہلت دی گئی تھی۔ اس ضمن میں ابھی تک بھی حکومت کی طرف سے کچھ نہ کئے جانے کی وجہ سے حال ہی میں تحریک لبیک نے کورونا وائرس وبا کے باوجود 20 اپریل تک فرانس کے سفیر کی ملک بدری نہ ہونے کی صورت میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد حکومتی مشینری نے بغیر سوچے سمجھے سعد رضوی کو گرفتار کر لیا اور اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کی بجائے کلہاڑی پر ہی اپنا پاؤں مار لیا-

سعد رضوی اپنے والد کے مدرسہ ابوذر غفاری میں درس نظامی کے آخری سال کے کوئی عام سے طالب علم نہیں ہیں بلکہ سب سے بڑی مذہبی جماعت کے نہایت جوشیلے نوجوان قائد ہیں جن کے ہر حلقہ اسمبلی میں واضح ووٹ بھی ہیں اور لوگ ان پر جان بھی چھڑکتے ہیں- انہیں گرفتار کرنے سے ملک کے اکثریتی اہل سنت والجماعت بریلوی مکتب فکر کو مشتعل کرنے کی بجائے ڈپلومیسی سے یہ معاملہ حل کرنا چاہیے تھا- حکمت اور تدبر کس چڑیا کے نام ہیں، ان سے یہ حکومت بالکل بھی واقفیت نہیں رکھتی- منہ سے جھاگ اڑاتے وزراء و مشیران اور اپوزیشن کے ٹھٹھے لگاتے حکمران خود کو ریاست مدینہ کے والی قرار دینے سے پہلے کبھی اصلی ریاست مدینہ کے بانیان کے کردار و طرز حکمرانی پر ہی غور کر لیا کریں تو انہیں سمجھ آئے کہ ڈپلومیسی کیا ہوتی ہے اور معاملات کو کیسے ہینڈل کیا جاتا ہے؟- اس ضمن میں کتاب دعائم الاسلام، جلد 2، صفحہ 323 میں درج یہ واقعہ پیش خدمت ہے تاکہ ہم سب اس سے کچھ حکمت و دانائی حاصل کر سکیں-

رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدنی دور میں کسی گستاخ شاعر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے خلاف گستاخانہ اشعار لکھے۔ اصحاب نے اس گستاخ شاعر کو پکڑ کر بوری میں بند کر کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پھینک دیا۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم دیا: “اس کی زبان کاٹ دو۔” تاریخ لرز گئی کہ مکہ میں جو پتھر مارنے والوں کو معاف کرتا تھا، کوڑا کرکٹ پھینکنے والی کی تیمار داری کرتا تھا- اسے مدینے میں آ کے آخر ہو کیا گیا کہ اپنے مخالف کی زبان کاٹنے کا حکم دے دیا- بہر حال سب نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان پر سر تسلیم خم کیا اور بعض صحابہ کرام نے تو عرض بھی کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا وہ اس گستاخ شاعر کی زبان کاٹنے کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں؟-

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے فرمایا کہ نہیں، تم نہیں- تب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیا اس کی زبان کاٹ دو- حضرت علی علیہ السلام بوری اٹھا کر شہر سے باہر نکلے اور اپنے غلام حضرت قنبر کو حکم دیا کہ جا میرا اونٹ لے کر آ۔ اونٹ آیا- مولا مشکل کشاء علیہ السلام نے اونٹ کے پیروں سے رسی کھول دی اور شاعر کو بھی کھولا اور 2 ہزار درہم اس کے ہاتھ میں دے کر اس کو اونٹ پہ بٹھایا- پھر فرمایا کہ “بھاگ جاؤ، ان کو میں دیکھ لوں گا”-

اب جو لوگ تماشا دیکھنے آئے تھے، حیران رہ گئے کہ حضرت علی علیہ السلام نے تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کی۔ وہ فوراً رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس شکایت لے کر پہنچ گئے کہ “یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, آپ نے فرمایا تھا زبان کاٹ دو، علی علیہ السلام نے اس گستاخ شاعر کو 2 ہزار درہم دئیے اور آزاد کر دیا- حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے اور فرمایا علی علیہ السلام میری بات سمجھ گئے مگر افسوس ہے کہ تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ لوگ پریشان ہوکر یہ کہتے چل دئیے کہ “یہی تو کہا تھا کہ زبان کاٹ دو اور علی علیہ السلام نے تو زبان کاٹی ہی نہیں بلکہ 2 ہزار درہم، ایک اونٹ دے کر آزاد کر دیا”-

اگلے دن صبح فجر کی نماز کو جب گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ شاعر وضو کر رہا ہے- پھر وہ مسجد میں جا کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاؤں چومنے لگتا ہے۔ جیب سے ایک پرچہ نکال کر کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی شان میں نعت لکھ کر لایا ہوں۔ یوں مولا علی علیہ السلام نے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی گستاخ زبان کو کاٹ کر اسے مدحتِ رسالت والی زبان میں تبدیل کردیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر اس تحریر سے حکومت کے اعلیٰ دماغوں کو کچھ سمجھ نہ آ سکے تو کلاس نہم و دہم کے کسی ذہین طالب علم سے اس کی تشریح پوچھ لیں- وہ آسانی سے بتا دے گا کہ تحریک لبیک کو فرانسیسی سفیر کی پاکستان سے بےدخلی کے غیر سنجیدہ مطالبہ سے کیسے باز رکھا جا سکتا ہے؟- اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو فیض آباد اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے کے بعد مذاکرات اور شرکاء میں نقد رقوم تقسیم کرنے والے بڑے صاحب بہادر سے راہنمائی حاصل کر لیں- ان کے محکمہ کا ایک ونگ ویسے بھی سیاستدانوں اور مذہبی راہنماؤں سے بہت زیادہ مربوط رہتا ہے اور وقتاً فوقتاً اپنے زیر سرپرستی چہکنے والے راہنماؤں کو سکھاتا پڑھاتا بھی رہتا ہے- ان کے پاس یہ سہولت بھی ہے کہ جو ان کے محکمہ کے زیر سرپرستی نہیں ہوتے، وہ ان کے سافٹ ویئر کی آپ گریڈیشن کے بھی کماحقہ انتظامات بھی کر لیا کرتا ہے- یعنی جیسا منہ ویسی چپیڑ – وما علینا الاالبلاغ°

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply