فلم اور نظریہ/ذوالفقار زلفی

تمام فلمیں سیاسی ہوتی ہیں ـ یہ جملہ بظاہر عجیب لگتا ہے ـ بعض افراد تو شاید اس رائے کو یکسر مسترد کردیں ـ مگر حقیقت یہی ہے کہ تمام فلمیں سیاسی ہی ہوتی ہیں ـ
فلموں کو سیاسی قرار دینے کا دوسرا مطلب ہوتا ہے تمام فلمیں نظریاتی ہوتی ہیں ـ لبرل مکتبہِ فکر کی اکثریت کا خیال ہے صرف وہ فلمیں سیاسی یا نظریاتی ہوتی ہیں جن کا موضوع سماج یا اس کے جملہ معاملات سے متعلق ہو ـ مارکسی مفکرین اس خیال کے برعکس مزاحیہ اور سنسنی خیز تشدد پر مبنی فلموں کو بھی نظریاتی گردانتے ہیں ـ
فلم کو سیاسی قرار دینے کا نظریہ بظاہر قدیم ہے ـ لینن غالباً وہ پہلے فرد تھے جنہوں نے فلم کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر شناخت کیا ـ بعد ازیں ٹراٹسکی اور اسٹالن نے بھی فلم کے حوالے سے اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا بالخصوص اسٹالن فلم میں نظریاتی مواد پر خاصے سنجیدہ رہے ہیں ـ ان کے بعد خاموش فلموں کے دور میں کمیونسٹ فلم سازوں نے بھی سینما کو سیاسی پروپیگنڈے کے طور پر برتا اور اس حوالے سے نظری مباحث بھی کئے لیکن تمام فلموں کو سیاسی منوانے کی بحث ساٹھ کی دہائی کی دین ہے ـ
فلم کو سیاسی قرار دینے کا تصور بھی فلمی زبان کی تشکیل پر ہونے والے مباحث سے مشتق ہے ـ ان مباحثوں میں خاص طور پر التھسر کے اٹھائے گئے نکات نے اہم کردار ادا کیا ـ ساٹھ کی دہائی میں فرنچ فلم ناقدین نے فلمی نشانات، مارکسی فلسفہ اور التھسر کے نظریات (مارکسی) کی بنیاد پر فلم اور نظریے کے درمیان تعلق کی نشاندہی کی ـ
فرنچ ناقدین کی توجہ کا محور امریکی سینما رہا ـ انہوں نے امریکی سینما کا عمیق جائزہ لے کر متعدد مثالوں سے بعض دلچسپ نتائج پیش کئے ـ ان کے مطابق امریکی فلمیں دو قسم کی سینسر شپ سے گزر کر نمائش کے لئے پیش کی جاتی ہیں ـ ایک سیلف سینسر شپ جو نظر نہ آنے والی سینسر شپ ہوتی ہے مگر یہ امریکہ کے سرمایہ دارانہ سماج اور اس سے منسلک اقدار کے تحت ہوتی ہے ـ امریکی فلم ساز شادی کے ادارے پر سرمایہ دارانہ نکتہِ نظر کو چیلنج نہیں کرتے، جنگی فلموں میں امریکہ کی فوجی برتری کا ہر ممکن خیال رکھا جاتا ہے، کرداروں کے معیارِ زندگی کو ایسے دکھایا جاتا ہے جس سے طبقاتی تضاد نہ ابھرے وغیرہ وغیرہ ـ فرنچ ناقدین نے ریاستی سینسر شپ پر بھی پر مغز مباحث کئے ہیں ـ ان کے مطابق اگر کوئی فلم ساز شعوری یا لاشعوری طور پر سرمایہ دارانہ نظام کو کسی سین میں رد کرے تو ریاست فوراً لپک کر اسے حذف کردیتی ہے ـ
70 کی دہائی میں فلم اور نظریے کے تعلق پر بحث نے شدت اختیار کر لی ـ امریکہ، یورپ، بھارت، ایران اور جاپان سمیت افریقی دانش وروں نے بھی فلموں میں موجود سیاسی پروپیگنڈے کو شناخت کرکے اس کا مختلف نظریات کے تناظر میں تجزیہ کیا ـ افریقی دانش ور و سیاسی رہنما کوامی نکرومے نے اپنے ایک طویل مقالے میں ہالی ووڈ کو امریکہ کے سامراجی پروپیگنڈے کا ہتھیار قرار دے کر موقف اختیار کیا کہ امریکی فلمیں منظم طریقے سے افریقہ بالخصوص سیاہ فاموں کی غلط تصویر پیش کرکے گورے کی حاکمیت اور اس کے مظالم کو جواز فراہم کرتی ہیں ـ
مارکسی دانش ور فلموں کو پانچ زمروں میں تقسیم کرتے ہیں ـ
1- وہ فلمیں جو لاشعوری طور پر غیر محسوس طریقے سے کسی مخصوص نظریے کی حمایت کرتی ہیں ـ
2- وہ فلمیں جو خالصتاً سیاسی ہوتی ہیں اور وہ شعوری طور پر ایک نظریے کو اپنا ہتھیار بنا کر دوسرے نظریے یا نظریات پر حملہ کرتی ہیں ـ
3- وہ فلمیں جن کا موضوع تو غیر سیاسی ہے مگر وہ اپنی ساخت میں سیاسی ہیں ـ
4- ایسی فلمیں جن کا مواد تو سیاسی (نظریاتی) ہے مگر ان کی ساخت غیر سیاسی ہے ـ بعض ناقدین اس قسم کی فلموں کو غیر موثر قرار دیتے ہیں ـ ان کے مطابق اپنے غیر سیاسی ساخت کے باعث یہ اپنے مواد کی درست ترویج نہیں کرپاتی ہیں ـ
5- بعض فلمیں مروجہ نظریے کے تحت بنائی جاتی ہیں مگر وہ اس مخصوص نظریے کے تضادات کو بھی واضح کرتی ہیں اور بساں اوقات اس نظریے میں موجود خامیوں کو بھی آشکار کرتی ہیں ـ
ایک فرنچ ناقد نے درج بالا اقسام پر بحث کرتے ہوئے پہلی قسم کی فلموں میں “Rocky” اور “Die Heard” جیسی فلموں پر بحث کی ہے ـ انہوں نے دیگر اقسام کی بھی مثالیں دی ہیں جیسے دوسری قسم میں “Report” ، تیسری قسم “our Trip to Afrika” , چوتھی “All the Presidents Men” اور پانچویں قسم میں انہوں نے “Taxi Driver” کو مثال بنا کر فلم اور نظریے کے تعلق پر روشنی ڈالی ہے ـ
درج بالا مثالوں کے علاوہ بھی درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ـ جیسے “اسپائڈر مین” یا “کیپٹن امریکہ” جیسی فلمیں ہیں جو امریکہ کو ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کرتی اور امریکی اقدار و روایات کو پوری دنیا کے لئے مشعلِ راہ قرار دیتی ہیں ـ
اس سوال پر البتہ نزاع موجود ہے کہ فلم میں پیش کردہ نظریہ ہدایت کار کا ہے یا اسکرین رائٹر اس کا ذمہ دار ہے ـ بیشتر ناقدین کا اتفاق ہے کہ چوں کہ فلم متحرک تصاویر، کیمرہ زاویوں، میز این سن کی ترتیب وغیرہ کی صورت پیش کی جاتی ہے جس کا حتمی فیصلہ ہدایت کار کرتا ہے اس لئے پیش کردہ نظریہ جزوی طور پر اسی کا ہوتا ہے ـ تاہم کُلّی طور پر ہدایت کار کا معروض، پروڈیوسر، ریاست پر قابض گروہ کے مفادات اور ان مفادات کے زیرِ اثر مختلف سماجی گروہ بھی اس میں حصہ دار ہوتے ہیں ـ ہدایت کار چوں کہ انسان ہے وہ نہ خلا میں رہتا ہے اور نہ ہی وہ کوئی روبوٹ ہوتا ہے ، لامحالہ وہ اپنے معروض سے متاثر ہوتا ہے ـ معروض پر رائج نظریے کے رد و قبول کے تحت ہی وہ فلم بناتا اور اپنے خیالات کو کھلے عام یا ڈھکے چھپے انداز میں پیش کرتا ہے ـ
فلم اور نظریے کے حوالے سے بھارتی دانش وروں نے بھی پر مغز مباحث کئے ہیں ـ جیسے معروف بھارتی دانش ور ارون دھتی رائے نے وزیراعظم نرسہماراؤ کے نیو لبرل نظریات کے ہندی سینما پر اثرات کے حوالے سے گہرا مشاہدہ پیش کیا ـ اسی طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کے نیو لبرل ازم اور ہندو قوم پرستی کے تناظر میں جنوبی ہند اور ممبئی کی فلموں پر تاحال زبردست بحث جاری ہے ـ پاکستان میں فلموں پر نظریاتی تنقید ہنوز دلی دور است جیسا معاملہ ہی لگتا ہے ـ بہرکیف؛ پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ ـ
فلموں کو نظریاتی ماننے والے ناقدین کا اصرار ہے کہ ایک فلمی تنقید نگار کو جمالیاتی پہلوؤں پر توانائی ضائع کرنے کی بجائے فلم کے نظریاتی پہلوؤں پر بات کرنی چاہیے ـ

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply