میں نامور رائٹر کیسے بنا۔۔۔ سنی ڈاہر

یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب مجھے انجینیرنگ کی ڈگری وصول ہونے کے بعد بے روزگاری اور “ویلے نکمے” کا راگ درباری ہر ناشتے اور کھانے کے ساتھ سنایا جاتا تھا۔ حالانکہ میرے بڑے اور سنجھلے بھائی بھی حسب توفیق بے روزگار تھے مگر ان کے حصے میں آنے والی ملامت مجھ سے کہیں کم تھی کیونکہ خوش قسمتی سے وہ “انجینئر” نہیں تھے۔ میں ان کی پلیٹ میں زیادہ گھی والا پراٹھا اور سب سے تگڑی بوٹی دیکھ کر دل مسوس کر رہ جاتا اور اس دن کو کوسنے لگتا جب انجینئیرنگ کالج کا فارم بھرا تھا۔ اگر میں بھی بی اے میں چار بار فیل ہوتا یا ایف اے میں کالج سے بھاگ نکلتا تو دوسری بار سالن مانگنے پر “ویلا نکما انجینئیر” ہونے کا طعنہ تو نہ سننے کو ملا کرتا۔ ۔

گھر والوں کا خیال تھا کہ ڈگری کے کاغذ کو گھسنے سے شاید کوئی جن “کیا حکم ہے میرے آقا” کی گردان کرتا باہر نکلے گا اور پلک جھپکتے میں سارے دلدر دور ہو جائیں گے۔ میرے ایسے خیالات صرف دو ہی مہینوں میں اصلیت کے جامے میں آ گئے مگر خاندان والوں کی توقعات کا مینار برج خلیفہ سے اونچا اور معاملہ پیسا ٹاور کی طرح ٹیڑھا تھا۔

میں چپلوں کی تیسری جوڑی بھی گھسا چکا اور سب سے نئی شرٹ بھی عوامی بس میں لٹکتے ہوئے کسی کیل سے چاک زدہ ہوئی تو ابا نے ہاتھ جوڑتے ہوئے مجھے کسی بھی معقول ملازمت کی تلاش کرنے سے منع کرتے ہوئے بھینسوں کی خدمت پہ آمادہ کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔
مگر میں ویلا نکما انجینئر ہونے کا طعنہ تو سن سکتا تھا لیکن بھینسیں سنبھالنا میری دھان پان جان اور نازک طبعیت کے لئیے بہت کٹھن مرحلہ تھا۔لہذا کامیابی کے حصول کے لئیے ایک اور بھرپور کوشش کرنے کی ٹھان لی۔
میں نے سن رکھا تھا کہ بہت سے نامور اور کامیاب افراد دراصل شروعات میں جوتیاں ہی چٹخایا کرتے تھے اور پھر انہیں جو کامیابی کی کنجی ملتی تھی وہ اس کو پانے کا راز عوام الناس کی مدد کے لئیے کتابچوں کی صورت میں مارکیٹ میں چھپوا دیا کرتے تھے۔
میں نے اس سنہرے شارٹ کٹ سے فائدہ اٹھانے کا سوچا اور اتوار کو بڑے اہتمام سے شہر کی پرانی کتابوں کی دکان پہ اپنی مطلوبہ کنجی ڈھونڈنے پہنچ گیا۔ “مجھے کامیابی کا راز، مشہور لوگوں کی خفیہ عادت، اور شخصیت کو سنواریے” والی کتابیں چاہیئں۔ میں نے اونگتے ہوئے دکاندار کے سامنے اپنی ڈیمانڈ رکھی ۔ اس نے پہلے تو مجھے سر سے پاوں تک بغور دیکھا اور پھر دکان کے سب سے آخری نیم تاریک گوشے کی جانب اشارہ کر کے پھر سے اونگنے لگا۔ شاید اس نے بھی “کامیاب بنئے” نامی کتاب گود میں الٹا رکھی تھی۔
دو چار بار چھینک کر میں نے گرد آلود کتابوں کی ورق گردانی شروع کر دی اور اتنی بور اور تھکی ہوئی ترکیبوں سے مجھے کھڑے کھڑے نیند آنے لگی۔ قریب ہی کچھ زیادہ پرکشش کتابیں نظر آئیں جو کہ”اس اعظم سے امیر بنئیے”، “الو کا خونی عمل اور دولت گھر کی باندی” ، “سفید کوے کے پر سے محبوب آپ کے قدموں میں” ،”سات رنگ کی روشنی کا کرشمہ، فقیر بادشاہ بنے” کے عنوانات سے تھیں۔

میں نے “ایک رات میں خزانہ پائیے” نامی کتاب اٹھائی اور موکل قابو کرنے کے طریقے پڑھنے لگا کہ یہ مجھے ٹماٹر خرید کر ان کے بیجوں سے پودے اگا کر فارم بنانے سے زیادہ آسان نظر آیا مگر شومئی قسمت! چار صفحوں کے بعد ہی اندازہ ہو گیا کہ موکل قابو کرنا تو دور کی بات اس کے لئیے مطلوبہ سامان کہاں سے آئے گا؟ مثلا کنواری عورت کے دائیں کولہے کی ہڈی، سفید کوے کی چونچ، ہاتھی کا گوبر، سانپ کے دانت وغیرہ وغیرہ۔۔

میرا دل مایوسی کی دلدل میں ڈبکیاں کھانے لگا اور میں نے اپنے آپ کو انجینیری کے طعنے تاعمر سننے اور گوبر سمیٹنے پر خود کو آمادہ کرتے ہوئے باہر کی راہ لی۔ اس دوران سویا ہوا دکاندار جاگ چکا تھا اور امید بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا، خالی ہاتھ جاتے دیکھا تو لپک کر قریب آ گیا۔ “کچھ بھی پسند نہیں آیا؟” اس نے مایوسی سے کہا تو میں نے اپنا دکھڑا اسے کہہ سنایا کہ میری کامیابی ان سب صورتوں سے ممکن نہیں! آخر میں کوئی عام بدقسمت نہیں بلکہ انجینیر ہوں۔
یہ سننا تھا کہ وہ میرے گلے لگ کر رونے لگا اور تیرا غم میرا غم، اک جیسا صنم گاتے ہوئے سسک سسک کر مجھے بوتل پیش کی اور کہا کہ اے مرد بدبخت! میرے پاس اک تیربہدف طریقہ ہے جو تجھے راتوں رات نہ سہی، سال چھ ماہ میں روزی کمانے لائق ضرور کر دے گا۔ میں خوشی سے بے قابو ہو کر اس کا منہ چوم لیتا اگر اس کی مونچھوں پہ نسوار نہ لگی ہوتی۔

“کچھ لکھ پڑھ لیتے ہو”؟ اس نے پوچھا ۔ شاید اسے میری شکل سے میری بات کا یقین نہ آیا تھا۔

میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ اٹھا اور ایک کونے سے چند “غرارہ”، “موم بتی” “عورت” نامی زنانہ رسالے اٹھا لایا۔

میں حیرانی سے اس کا منہ دیکھ رہا تھا۔ اس نے کہا کہ اس طرح کا ادب آج کل آئس کریم کی طرح چاٹا جاتا پے اور چورن کی طرح بکتا ہے۔ تم یہ نمونے کے طور پہ چند ڈائجسٹ ملاحظہ کرو اور اگر ایسا کچھ لکھ سکتے ہو تو لکھ کر میرے پاس لے آنا۔ چھپوانے کی ذمہ داری میری ہے۔ میں پہلے تو اس نادر مشورے پر جی بھر کر تلملایا مگر بھینسوں کے باڑے کا منظر ذہن میں آیا تو یہ کڑوا گھونٹ بھرنے کی ہامی بھی بھر ہی لی۔ اس نے مجھے بتایا کہ اگر ایک ماہنامے کو چھ کہانیاں مفت فراہم کی جائیں تو اس کے بعد معاوضہ بھی ملنے لگتا ہے اور مداح لڑکیوں کی خط و کتابت کے ذریعے زندگی کی رنگینی بھی برقرار رہتی ہے۔ میں قدرے تذبذب میں تھا کہ جانے کچھ لکھ بھی پاوں گا یا یہاں بھی ریجکٹ ہونا نصیب ہو گا مگر جب دکاندار نے کہا  کہ وہ خود “خوشی لودھی خاں” کے نام سے غرارہ ڈائجسٹ میں باقاعدگی سے لکھتا ہے تو مجھے یہ منزل آسان دکھائی دینے لگی۔
میں وہ سب ماہنامے اٹھا لایا اور رات کو کمرہ بند کر کے جب مطالعہ شروع کیا تو رفتہ رفتہ یہ دنیا رنگین ہونے لگی، ذہن پہ اک بخار آلود کیفیت طاری ہو گئی ، بدن سنسنانے لگا اور ہاتھ کانپنے لگے۔ بات ہی کچھ ایسی تھی۔
پروین شاکر، وصی شاہ اور فراز کے اشعار کے ٹائٹل پہ مبنی افسانے اور ناول اپنے اندر رستے جذبات اور ٹپکتے مناظر کا طوفان سموئے ہوئے تھے۔
کوئی شہ پارہ ایسا نظر سے نہ گزرا جس میں کسی ہیرو کے چوڑے سینے میں سمائی ہوئی نازک اندام حسینہ نہ تھی۔ کانپتے ہونٹوں، الجھی سانسوں اور نازک کمر کے گرد مضبوط بانہوں کے شکنجے نے مجھے مرد ہو کر کپکپانے پہ مجبور کر دیا۔کئی جگہ تو گمان ہوا کہ شاید یہ شادی کی رات کی براہ راست نشریات چل رہی ہیں۔

کہیں کہیں “صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں والا معاملہ تھا، مثلا” شادی کے بعد شمونہ کا دبلا پتلا بدن گداز ہو گیا تھا۔ خاص طور پہ نیچے والا ہونٹ کافی موٹا ہو گیا تھا'” ۔
یا ” نگینہ نہا کر نکلی تو پچھلی رات کا عکس اس کے گیلے بالوں سے ٹپک رہا تھا۔ سبز رنگ کی جارجٹ کی قمیض کی پشت بھیگ کر مزید دلکش ہو گئی تھی۔ ”
“شموئیل دفتر سے لوٹا تو اس کے ہاتھوں میں گرم جلیبی اور گلاب کے گجرے بھی تھے۔ اس نے ذرغونہ کو آواز دی اور سامان اسے تھماتے ہوئے اس کے کان میں جانے کیا سرگوشی کی کہ وہ شرم سے سرخ ہو گئی۔ اگلی صبح دودھ جلیبی کا خالی پیالہ میز پہ پڑا تھا اور بستر پہ سرخ گلابوں کی پتیوں کے ساتھ ٹوٹی چوڑیاں کچھ اور ہی داستان بیان کر رہی تھیں۔” ۔

آپ سوچ سکتے ہیں کہ ان تشنہ مناظر نے کیسی کیسی آگ نہ لگائی ہو گی۔ خیر  پانی وغیرہ پی کر میرے ہوش کچھ بحال ہوئے تو اندازہ ہوا کہ ایسے شہپارے لکھنا بالکل بھی مشکل نہیں ہے ۔
تین بھارتی ڈرامہ سیرئیل، دو تامل فلمیں اور وصی شاہ کی ایک غزل ملانے سے ایک شاندار افسانہ تیار ہو سکتا ہے۔

کپڑے بدل کر میں نے پرانا رجسٹر نکالا  کانوں میں ہینڈز فری ٹھونس کر “ٹپ ٹپ برسا پانی” سنتے ہوئے صفحے کالے کرنے لگا۔ “تم میرے آسمان کا کبوتر” عنوان لکھا اور نیچے جو دل کیا وہ لکھتا گیا۔ وہ سارے مکالمے جو میں خاندان اور محلے کی ہر خوش شکل لڑکی سے بولنا چاہتا تھا وہ ہیروئن کی زبانی لکھ کر اور مناسب وقفوں سے ٹرک چھاپ اشعار لکھ کر فارغ ہوا تو لزیذ افسانہ تیار تھا۔ بس دم دے کر قارئین کو پروسنے کی کسر تھی۔ میں جزبات کی رو سے ابھرا اور اسے دوبارہ پڑھا تو اپنی اس کالی کاوش پہ خود ہی شرما گیا پھر خیال آیا کہ زنانہ رسالے میں مردانہ نام کیسے چلے گا؟ مگر ابا نے کسی نیک گھڑی میں میرا نام بائی سیکسوئل رکھ چھوڑا تھا لہذا ثناءاللہ ڈاہر کا آپریشن کر کے ثناء ڈاہر کا گیٹ اپ اپنایا کہ تبدیلی جنس سے تبدیلی نام زیادہ آسان تھا اور اگلی صبح اپنے محسن پرانی کتابوں کی دکان کے مالک  خوشی لودھی خاں کو افسانہ  دے آیا۔
واپسی پہ عوامی بس میں کچھ مناظر ایسے دیکھے کہ اگلے افسانے کا پلاٹ ذہن میں تانے بانے بننے لگا۔ یہ کام تو توقع سے بھی آسان تھا۔ گھر پہنچتے پہنچتے افسانے کو آخری آنچ بھی دی جا چکی تھی۔ میں فٹافٹ کمرے میں پہنچ کر صفحہ کالا کرنے میں مصروف ہو گیا۔ یعنی! آپ میرے ذہن کی زرخیزی کا اندازہ تو لگائیے؟

دس پندرہ روز گزرے تو ایک صبح جب میں دوبارہ سالن مانگ کر شرمندہ ہونے کے بعد نیم سوکھے پراٹھے کے آخری نوالے چائے کے ساتھ نگل رہا تھا تو میرے فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ دوسری طرف خوشی لودھی خاں چہک رہا تھا۔اس نے مجھے بتایا کہ میرا پہلا افسانہ “تم میرے آسمان کے کبوتر” شائع ہو گیا ہے اور نہ صرف یہ بلکہ مدیرہ آپا گل دوپہر خانم کو میرا افسانہ اتنا پسند آیا ہے کہ انہوں نے ایڈوانس معاوضے کے پیشکش کے ساتھ درخواست کی ہے کہ اگر میں صرف انہی کے ماہنامے یعنی “غرارہ ڈائجسٹ” کے لئیے افسانہ لکھا کروں تو وہ مجھے معقول معاوضے کے علاوہ کچھ اضافی رقم بھی دیا کریں گی۔

مجھے اپنی خوبی قسمت پہ یقین نہ آیا۔ میرے ہاتھ کانپنے لگے اور سوکھا نوالہ چائے میں گر کے غرق ہو گیا مگر اب مجھے افسوس نہ تھا۔ آخر وہ وقت قریب آ گیا تھا جب مجھے انجینئیری کی نحوست سے چھٹکارا ملنے والا تھا۔
کچھ  دن بعد معاوضے کا چیک جو کہ مبلغ دوہزار پانچ سو روپے پہ مبنی تھا ہاتھ میں آیا تو میں فرط جذبات سے غرارہ ڈائجسٹ چوم لیا اور ڈگری کو حقارت سے دیکھتے ہوئے اس پہ مقدس غرارہ ڈائجسٹ رکھ دیا۔ گھر والوں کو لولے لنگڑے واقعات کے ساتھ کسی نیم نادیدہ نوکری مل جانے کا عندیہ سنایا اور دوہزار ابا کے ہاتھ پہ رکھے تو سالن اور پراٹھے کی صورتحال میں بہتری آنے لگی۔

اب یہ سلسلہ چل نکلا تھا۔ میں مہینے کے پانچ چھ افسانے لکھ لیتا تھا جو قارئین ایسے ہاتھوں ہاتھ لیتی تھیں کہ مجھے اپنی قسمت پہ فخر ہونے لگتا۔ ان کی پسندیدگی کا اندازہ ماہنامے میں چھپنے والے خطوط کے علاوہ ذاتی طور پہ ملنے والے سندیسوں سے بھی ہوتا تھا۔ زیادہ تر جوابات میں ماہنامے کے ذریعے ہی دیا کرتا تھا مگر کچھ کچھ خاص مداحوں سے ذاتی خط وکتابت بھی چلتی تھی۔

ایسی ہی ایک مداح نے مجھے اپنی ذاتی کہانی لکھ بھیجی اور کہا کہ اسے افسانے میں پیش کر دوں تو اسے بہت خوشی ہو گی ۔ کہانی کیا تھی؟ اینٹوں کے چوباروں پہ پنپنے والا بالغ رومان تھا جو میں نے ضروری چاشنی کے ساتھ لکھ مارا۔ وہ پگلی اتنی خوش ہوئی کہ آنے والی عید پہ میرے لئیے چوڑیاں، بندے، کون مہندی اور کڑھائی والے کھسے بطور تحفہ بھیج کر اسکا تذکرہ ماہنامے میں بھی کر ڈالا۔

میں نے وہ سامان اپنی نئی نئی منگیتر کو عید کا تحفہ کہہ کر پیش کر دیا۔ وہ بھی غرارہ کی باقاعدہ قاری تھی ۔ سامان لے کر خوش تو ہوئی مگر زنانہ عادت کے مطابق منہ چڑھا کر بولی” تحفہ دینے کا طریقہ بھی نہیں آتا۔ ہائے کاش تم باجی ثناء کی کہانیوں کے ہیرو جیسے ہوتے۔ کتنا رومانٹک ہوتا ہے ان کا ہیرو۔” اب میں اسے اصلیت بتاتا تو رومان کے ساتھ بیاہ بھی کھٹائی میں پڑ سکتا تھا لہذا خاموشی میں ہی عافیت جانی۔

عورتوں کی ایک عجیب عادت ہے کہ مقابلہ بازی کی دوڑ میں وہ جانتے بوجھتے اندھی ہو جاتی ہیں۔ میں چھپر پھاڑ کر ملنے والے زنانہ تحائف سے گھبرا گیا اور ہاتھ جوڑ کر مداحوں سے درخواست کی کہ میں بہت سادہ لڑکی ہوں۔ ان تحائف سے دل گھبراتا ہے۔ غریب عورتوں کو سلائی مشینیں لے کر دینے کے کام کا آغاز کیا ہے ۔ تحائف کے بجائے نقد رقم ہو تو کسی غریب کا بھلا ہو جائے گا۔

میری اس سادہ لوحی پہ عوام نے آٹھ آٹھ آنسو بہائے اور تین ماہ کے اندر میں سیکنڈ ہینڈ موٹرسائکل کا مالک بن چکا تھا۔ بقول شخصے، ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھے سے کچھ سوا ہی تھا۔
قارئین ! قصہ مختصر کہ میں ایک سال کے قلیل عرصے میں متعدد افسانے لکھنے کے ساتھ ایک عدد ناول بھی لکھ چکا ہوں۔ میرے ناول “دل بچارہ آوارہ ” پہ ایک پرائیوٹ چینل ڈرامہ بنانے کا آغاز کر چکا ہے ۔ افسانوں کے مجموعہ کی چھپائی آخری مراحل میں ہے اور میں دن رات مداحوں کے رنگین جلو

میں راجہ اندر سا محسوس کرتا ہوں ۔ خاندان بھر میں مجھے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور دونوں بھائی حسرت سے منہ کالا کر کے بھینسیں سنبھالنے کی مشقت کاٹتے ہیں۔

یہ سب مزے اور لطف مجھے انجینیری کی ڈگری سے کبھی نہ ملتے جو آج ان آئس کریمی رومانوی رسالوں اور عقل سے محروم قارئین کی بدولت حاصل ہیں۔ لیکن اس ساری ناموری اور کامیابی میں اس وقت ایک ہلکی سی کمی محسوس ہوتی ہے جب مجھے رنگین تقریبات میں بصد اصرار بلایا جاتا ہے اور مجھے یہ کہہ کر معذرت کرنی پڑتی ہے کہ میں پابند شریعت اور باپردہ ہستی ہوں ایسی محافل میں شرکت کرنا ممکن نہیں  ۔ اس پہ میرے عقیدت مندوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے جو میرے ناولوں اور افسانوں کی منظر نگاری سے صاف آنکھیں چرا لیتے ہیں  ۔

لیکن اب ایک خاتون کی بدولت ملک میں سر سے پاوں تک اسلامی نقاب اور پردہ بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔امید ہے اگلی کسی تقریب میں، میں بھی باحجاب شریک ہو سکوں گا۔ تب تک آپ میرے ناول دل بچارہ آوارہ کو پڑھ کر اپنے جذبات کو تسکین پہنچانے کا بندوبست کیجئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ختم شد

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply